ورلڈ کپ 2023 کی آمد آمد ہے۔ اس دوران ایک اہم سوال یہ ہے کہ انڈیا میں کس قسم کی پچیں ہوں گی اور پاکستانی ٹیم ان سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکے گی۔
کرکٹ ورلڈ کپ چھ اکتوبر سے 19 نومبر تک انڈیا کے 10 شہروں میں کھیلا جا رہا ہے: دہلی، ممبئی، حیدر آباد، احمد آباد، کلکتہ، چینئی، بینگلورو، دھرم شالہ، لکھنو اور پونہ۔
ان 10 میدانوں میں سے ہر میدان میں کم از کم تین پچیں تیار کی گئی ہیں، جن پر بدل بدل کر میچ کھیلے جائیں گے تاکہ کسی ایک پچ کو زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حیدر آباد میں تین میچ کھیلے جائیں گے، جب کہ باقی تمام میدانوں پر پانچ پانچ میچ رکھے گئے ہیں۔
پاکستانی ٹیم اپنے میچ احمد آباد، حیدر آباد، بینگلورو اور چینئی میں کھیلے گی اور اگر سیمی فائنل تک رسائی ہوئی تو ممکنہ طور پر ایک میچ ممبئی میں بھی ہو سکتا ہے۔ فائنل کے لیے احمد آباد کا نریندر مودی سٹیڈیم مختص کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ ورلڈ کپ راؤنڈ رابن فارمیٹ کے تحت کھیلا جا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں الگ الگ گروپ نہیں ہیں بلکہ پہلے مرحلے میں ہر ٹیم ہر دوسری ٹیم کے ساتھ ایک ایک میچ کھیلے گی۔ یہ ہوئے 9+8+7+6+5+4+3+2+1 یعنی کل ملا کر 45 میچ۔
اس مرحلے کے بعد چوٹی کی چار ٹیمیں سیمی فائنل کھیلیں گی، جن میں سے دو ٹیمیں فائنل کے چنی جائیں گی۔ ان سب کو جمع کریں تو کل میچ 48 بنتے ہیں۔
ان میدانوں میں کون سی پچز ہوں گی اور کیا وہ پاکستانی بولروں کی مدد کریں گی، یہ وہ سوال ہے جس پر بہت سے لوگوں کی نظریں جمی ہیں، کیوں کہ پچ کی نوعیت سے میچ کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
سپن بولنگ: پاکستان کی کمزوری
روایتی طور پر انڈین پچیں سپن بولروں کی مدد کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انڈین نے کرکٹ کی تاریخ کے چند عظیم ترین سپنر پیدا کیے ہیں، اور انڈین بلے باز بھی سپن بولروں کو بہت مہارت سے کھیلتے ہیں۔
لیکن پاکستان کا مسئلہ ہے کہ اس کے پاس ورلڈ کلاس سپنر نہیں ہیں۔ مرکزی سپنر شاداب خان میں اعتماد کی کمی نظر آتی ہے۔ انڈیا کے خلاف ایشیا کپ کے میچ میں انہوں نے جس طرح کی بولنگ کی اس کے بعد سے ان کے نام کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
محمد نواز دوسرے سپنر ہیں لیکن وہ بھی کچھ زیادہ متاثر نہیں کر سکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پریکٹس میچ میں انہوں نے سات اووروں میں 55 رنز دیے، مگر ان کے حصے میں کوئی وکٹ نہیں آ سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسامہ میر لیگ سپنر ہیں اور پاکستانی سرکٹ میں اچھی بولنگ کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے پریکٹس میچ میں دو وکٹیں ضرور حاصل کیں مگر نواز کی طرح وہ بھی مہنگے ثابت ہوئے۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ آیا اسامہ میر کی جگہ فائنل الیون میں بنتی ہے یا نہیں۔
آغا سلمان اور افتخار بھی سپن بولنگ کر سکتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ وہ پارٹ ٹائمر ہیں، ان سے تین چار سے زیادہ اوور کروانے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کے پاس شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کی شکل میں دو ورلڈ کلاس فاسٹ بولر ضرور موجود ہیں۔ شاہین آفریدی اس وقت دنیا میں نئی گیند کے خطرناک ترین بولروں میں سے ایک ہیں، جب کہ حارث رؤف اپنے ٹیمپرامنٹ سے سفید گیند کی کرکٹ میں اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔
لیکن نسیم شاہ کی کمی شدت سے محسوس ہو گی۔ انہوں نے گذشتہ دو برس میں ثابت کیا ہے کہ وہ سیم، سوئنگ اور رفتار دسے بلے بازوں کے لیے کسی بھی کنڈیشن میں مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کی جگہ حسن علی کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے مگر وہ پچھلے 16 ماہ سے قومی ٹیم کا حصہ نہیں رہے، اس لیے انہیں ایڈجسٹ ہونے میں مشکل پیش آئے گی۔ انہوں نے آخری ایک روزہ میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف جون 2022 میں کھیلا تھا، اور اس میچ میں بھی ان سے صرف 5.2 اوور کروائے گئے تھے۔
تو کیا اس ورلڈ کپ کے دوران سپن بولروں ہی کا جادو چلے گا اور فاسٹ بولر مہمان اداکار کی کردار ہی ادا کر پائیں گے؟ اس سوال کا جواب ہے، بظاہر نہیں۔
سپورٹنگ پچیں
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے انڈین کرکٹ بورڈ کو خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے دوران ایسی پچیں بنائے جن پر گھاس ہو تاکہ وہ فاسٹ بولروں کے لیے مددگار ثابت ہوں۔
آئی سی سی کے پچ کنسلٹنٹ اینڈی ایٹکنسن نے اگست میں ممبئی میں ایک پریزنٹیشن دی تھی جس میں انہوں نے ورلڈ کپ کے دوران کنڈیشن کے بارے میں کچھ ہدایات جاری کی تھیں۔
اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس پریزینٹیشن میں ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والے میدانوں میں سے نو کے کیوریٹر موجود تھے۔
ان میں سے ایک کیوریٹر نے اخبار کو بتایا کہ انہیں کہا گیا ہے کہ پچ ایسی ہونی چاہیے کہ بلے اور گیند کا تناسب 60 اور 40 کا ہو، یعنی 60 فیصد مدد بلے بازوں کو ملے اور 40 فیصد گیند بازوں کو۔
اوس کا خدشہ
ایک اور معاملہ اوس کا ہو گا۔ یہ ٹورنامنٹ ایسے وقت میں کھیلا جا رہا ہے جب برصغیر میں رات کے وقت خاصی اوس پڑتی ہے، اس لیے اس کا پچ اور میدان پر اثر انداز ہونا یقینی ہے۔
اوس کی وجہ سے بولنگ کرنے والی ٹیم کو مشکل پیش آتی ہے، ایک تو بولر گیند کو صحیح طریقے سے گرفت میں نہیں لے پاتے، دوسرے گیلے میدان کی وجہ سے فیلڈروں کو بھی مشکل پیش آتی ہے، اور گر کر چوٹ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اوس کی وجہ سے ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ گیند زیادہ بہتر طریقے سے بلے پر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ گویا ہر لحاظ سے بولنگ کرنے والی ٹیم کا نقصان ہی نقصان ہے۔
اس صورت میں ٹاس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ پہلے بولنگ کا فیصلہ کر کے کپتان دوسری ٹیم کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
آئی سی سی نے اس مسئلے پر بھی نظر رکھی ہے اور انڈین بورڈ کو ہدایت دی ہے کہ وہ اوس کو کم کرنے کے میدانوں پر ایک خاص کیمیکل یعنی wetting agent کا چھڑکاؤ کرے۔ اس کیمیکل کی مدد سے اوس کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔
350 بھی محفوظ سکور نہیں رہا
2011 میں انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں مشترکہ طور پر ہونے والے ورلڈ کپ میں پہلی اننگز کا اوسط سکور 249 رنز تھا، جو 2015 میں آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں بڑھ کر 274 ہو گیا۔
اس کے بعد انگلستان میں 2019 میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں دو رنز کا مزید اضافہ ہو کر یہ سکور 276 ہو گیا۔
لیکن پچھلے چار سالوں میں پلوں کے نیچے سے رنز کے دریا گزر گئے ہیں۔ ورلڈ کپ سے فوراً پہلے ہونے والی انڈیا آسٹریلیا سیریز اور پھر پریکٹس میچوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ورلڈ کپ کے دوران 300 کا سکور معمول بن جائے گا اور شاید 400 کا ہندسہ بھی ایک سے زائد بار عبور ہو جائے۔
ایک زمانہ تھا جب 300 رنز کو خاصا محفوظ سکور سمجھا جاتا تھا۔ مگر 29 ستمبر کو ایک پریکٹس میچ میں نیوزی لینڈ نے جس سہولت سے پاکستان کی 345 رنز کا تعاقب کیا، اس سے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ اس ورلڈ کپ میں بظاہر 350 بھی محفوظ سکور نہیں رہا۔
تماشائی اور براڈکاسٹر بھی یہی چاہتے ہیں۔