کیا سندھ کی نئی کابینہ صوبے کے مسائل حل کر پائے گی؟

حلف لینے والوں میں شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عذرا پیچوہو، سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی، جام خان شورو، ضیا حسین لنجار، سردار محمد بخش مہر، علی حسن زرداری اور سید ذوالفقار علی شاہ شامل ہیں۔

سندھ کابینہ نے 12 مارچ 2024 کو عہدے کا حلف اٹھایا (سکرین گریب/سندھ حکومت)

وفاق اور صوبہ پنجاب کے بعد صوبہ سندھ کی صوبائی کابینہ نے بھی منگل کو حلف اٹھا لیا ہے۔

نو وزرا پر مبنی صوبائی کابینہ سے گورنر سندھ کامران ٹیسوری  نے حلف لیا۔ گورنر ہاؤس سندھ میں منعقدہ حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری اور فوجی حکام شریک ہوئے۔

حلف لینے والوں میں شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عذرا پیچوہو، سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی، جام خان شورو، ضیا حسین لنجار، سردار محمد بخش مہر، علی حسن زرداری اور سید ذوالفقار علی شاہ شامل ہیں۔

ترجمان حکومت سندھ کے مطابق تقریب میں چیف سیکریٹری ڈاکٹر فخر عالم نے وزرا کی تقرری کا نوٹفکیشن پڑھ کر سنایا جبکہ چیف سیکریٹری نے وزیراعلیٰ سندھ کی سفارش پر تین مشیران کے ناموں کا اعلان بھی کیا۔ 

ان تین مشیروں میں بابل بھیو، احسان مزاری اور نجمی عالم شامل ہیں۔

ترجمان وزیر اعلی سندھ کے مطابق سندھ کابینہ کی تشکیل / وزرا اور مشیران کو ان کے قلمدان  تفویض کیے گئے ہیں جس میں شرجیل انعام میمن کو محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ اور محکمہ ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کا قلمدان دیا گیا۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو محکمہ صحت اور بہبود آبادی، سید ناصر حسین شاہ کو محکمہ توانائی اور منصوبہ بندی اور ترقیات کا قلمدان سونپا گیا ہے۔

اسی طرح سید سردار علی شاہ کو محکمہ سکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی، محکمہ کالج ایجوکیشن اور محکمہ مائنز اینڈ منرلز ڈویلپمنٹ، سعید غنی کو محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ اور پبلک ہیلتھ ایجینیئرنگ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ، جام خان شورو کو محکمہ آبپاشی اور محکہ خوراک کا وزیر بنایا گیا ہے۔

ضیا الحسن کو محکمہ داخلہ اور لا، پارلیمنٹری افیئرز اینڈ کرمنل پروسیکیوشن، سردار محمد بخش خان مہر کو ایگریکلچر، سپلائی اینڈ پرائز، سپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز اور انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کا قلمدان دیا گیا ہے۔

علی حسن زرداری کو جیل خانہ جات، سید ذوالفقار علی شاہ کو محکمہ کلچر، ٹورازم، اینٹیکیوٹیز اینڈ آرکائیوز، اللہ بخش ڈنو خان بھیو کو محکمہ  فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف کا مشیر اور سید نجمی عالم کو ہیومن سیٹلمنٹ، سپیٹیل ڈویلپمنٹ اینڈ سوشل ہاؤسنگ   اور محکمہ لائیو سٹاک اینڈ فشریز کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔

سندھ کی یہ نئی صوبائی کابینہ کس حد تک صوبے کے مسائل حل کر پائے گی؟ اس حوالے سے بیورو چیف ایکسپریس نیوز فیصل حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی تیسری سے چوتھی مرتبہ لگاتار حکومت کرنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔ 15 سال مسلسل حکومت کرنے کے بعد 20 سال مسلسل حکومت کا سفر طے کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لمحہ فکریہ اور سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذہن میں یہ بات نقش ہو گئی ہے کہ سندھ صرف اسی کا ہے جہاں صرف اسی کی حکمرانی رہے گی، وہی چہرے جو سابقہ حکومت میں تھے وہی چہرے ہم کو نئی حکومت میں نظر آرہے ہیں۔‘

’اگر ان کے اندر حالات کی تبدیلی کی صلاحیت، استعداد اور خواہش ہوتی تو سابقہ دور میں سندھ میں بہت کچھ تبدیل ہو جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب ہم الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پوسٹر اور مہم چیک کریں تو وہ چند ہسپتالوں کی تصاویر تک محدود نظر آتی ہے۔‘

فیصل حسین کے مطابق ’اب وقت آگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو معاشی تبدیلی، صنعتی ترقی، غربت کے خاتمے اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حوالے سے پروگرام شروع کرنے ہوں گے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھیک تو دے سکتا ہے مگر غربت کے خاتمے میں کوئی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہوسکتا۔‘

پیپلز پارٹی سے جڑی خبروں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی حمید سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’آج سندھ کابینہ نے حلف اٹھا لیا لیکن چہرے سارے پرانے ہیں۔ یہ ایک طرح کا مثبت عمل ہے جنھیں خاصا تجربہ حاصل ہے جن کے پاس وازراتوں اور فرائض کو نہ نبھانے کی وجہ نہیں ملے گی۔‘

’تاہم ڈاکٹر عزرا پیچوہو کو دوسری مرتبہ صحت کا قلمدان ملا ہے اور میں اب توقع کروں گا کہ سردار علی شاہ تیسری مرتبہ وزیر جب بنے ایجوکیشن کے تو وہ سندھ کی تعلیم کو جو چیلنجز درپیش ہیں اس سے نبردآزما ہوں گے۔ اس کے علاوہ سعید غنی جو کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو ایک مرتبہ پھر محکمہ لوکل گورنمنٹ جو ہے بلدیات دیا گیا ہے تو یقینا، سعید غنی کو بھی ایک اور موقع ملا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو متعدد چیلنجز درپیش ہوں گے کیونکہ ایم کیو ایم اب پہلے والی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں اور یقیناً مرکز میں وہ پیپلز پارٹی کے اتحادی ہیں لیکن یہاں پر سندھ میں جو ہے پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کو سپیس دینا پڑے گا اور یقیناً آصف علی زرداری کو ووٹ دینے کے بعد جو ہے اب ایم کیو ایم بھی یہ توقع کرے گی کہ پیپلز پارٹی ان کی تکالیف اور دکھ کو ختم کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان