صوبہ سندھ کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی حثیت سے حلف اٹھائے پانچ روز گزر گئے لیکن وہ تاحال کابینہ تشکیل کیے بغیر تمام معاملات کو خود دیکھ رہے ہیں۔
ترجمان وزیر اعلیٰ سندھ عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ صوبائی کابینہ کی تشکیل میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
صوبائی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری اسلام آباد میں مصروف ہیں جس کے باعث حتمی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’کابینہ میں کون کون شامل ہو گا کا حتمی فیصلہ پارٹی کی اعلی قیادت نے کرنا ہے۔
’مگر آصف علی زرداری صدراتی انتخاب میں حصہ لینے کے باعث اسلام آباد میں مصروف ہیں۔ صدراتی انتخاب کے بعد ہی سندھ کابینہ کا فیصلہ کریں گے۔‘
عبدالرشید چنا نے مزید کہا: ’اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صدرات کے امیدوار آصف علی زرداری کی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں اور اس میں کافی مصروف ہیں۔ پارٹی کے دیگر رہنما بھی مصروف ہیں تو اس لیے سندھ کابینہ کی تشکیل کے لیے پارٹی قیادت کی مشاورت صدراتی انتخاب کے بعد ممکن ہو سکے گی۔‘
وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق عام انتخابات میں پولنگ کے دوسرے دن سے 29 روز میں اسمبلی بننا لازمی ہے، جو بن گئی ہے جب کہ اراکین اسمبلی اور وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھا لیا ہے۔
سندھ کابینہ کے ممکنہ اراکین سے متعلق سوال کے جواب میں عبدالرشید چنا کا کہنا تھا: ’ویسے تو پارٹی کے سینیئر رہنما، جن کے پاس گذشتہ ادوار میں وزارتیں رہی ہیں، کابینہ میں شامل ہوں گے جب کہ کچھ نئے چہرے بھی شامل کئے جائیں گے۔‘
آئین پاکستان کے تحت صوبہ سندھ کی کابینہ 18 وزرا اور پانچ مشیروں پر مشتمل ہو سکتی ہے، جب کہ ایک وزیر کو ایک سے زیادہ قلم دان دیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارٹی کے بعض رہنماؤں کو ایڈجسٹ کرنے کی غرض سے انہیں وزیر اعلیٰ کا معاون خصوصی کے طور بھی رکھا جا سکتا ہے۔
صوبہ سندھ میں مجموعی طور پر 29 وزارتیں ہیں۔ مراد علی شاہ نے گذشتہ دو ادوار میں داخلہ اور خزانہ کی وزارتیں اپنے پاس ہی رکھی تھیں۔
سندھ میں گذشتہ کئی برسوں سے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے جو رہنما گذشتہ ادوار میں کابینہ کا حصہ رہے ان میں شرجیل انعام میمن، سعید غنی، ناصر حسین شاہ، سردار شاہ، مکیش کمار چاولہ، امتیاز شیخ، ڈاکٹر عذرا پیچوہو شامل ہیں۔
قوی امکان ہے کہ اس مرتبہ بھی ان رہنماؤں کو پرانی وزارتیں ہی دی جائیں گی۔
تاہم آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کئی ایسے نئے چہرے منتخب ہوئے، جو پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کی اولادیں ہیں۔ ان نوجوان اراکین اسمبلی میں سے کچھ کو صوبائی کابینہ میں شامل کرنے کا امکان ہے۔
موجودہ سندھ اسمبلی میں جنرل اور مخصوص نشستوں پر پہلی بار منتخب ہونے والے اراکین کی تعداد 60 ہے، جو ایک تاریخ ہے اور اس سے پہلے اتنی تعداد میں ایک ساتھ پہلی بار رکن اسمبلی نہیں بنے۔
اس بار سندھ اسمبلی کی جنرل نشست پر پہلی بار کامیاب ہو کر اسمبلی میں آنے والوں کی تعداد 48 ہے۔ جن میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کل اراکین اسمبلی 87 میں سے 25 پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بنے ہیں۔
آغا سراج درانی ساتویں اور سہراب سرکی چھٹی مرتبہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جب کہ سندھ اسمبلی کے 10 ارکان پانچویں مرتبہ ایوان کا حصہ بنے ہیں۔