ایک شخص اے ٹی ایم سے پیسے نکال رہے تھے، دوسرے نے، جو ان کے پیچھے کھڑا تھا، یکدم قہقہہ لگا کر کہا: ’ہا ہا ہا۔۔۔ میں نے پاس ورڈ دیکھ لیا ہے، اس میں چار ایسٹیرک (****) ہیں۔‘ پہلے شخص نے جواب دیا: ’ہا ہا ہا۔۔۔ نہیں تم غلط ہو، میرا پاس ورڈ تو 1234 ہے!‘
اس لطیفے کی یاد اے ٹی ایم کی وجہ سے آئی کیونکہ آج میں آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ کارآمد اور بہترین اے ٹی ایم سے ملواؤں گا، یعنی کہ ایک تابعدار اور کماؤ شوہر!
اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانا آج کل غیر معمولی حد تک آسان ہو گیا ہے، جب کوئی بچہ اپنے والد کو اے ٹی ایم سے نقدی کے ساتھ باہر آتے ہوئے دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ شاید حکومت نے یہ مشینیں عام لوگوں کے لیے لگائی ہیں تاکہ وہ بغیر کسی پابندی کے جب چاہیں اپنی ضرورت کے مطابق اس سے پیسے نکال سکیں، لیکن صرف بچوں کو کیوں قصوروار ٹھہرایا جائے؟ چند بیویاں بھی اسی طرح شاید سوچتی ہیں۔
جب بھی انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ انسانی شکل میں دستیاب اپنے اے ٹی ایم کو ٹہوکا دیتی ہیں، جواب میں جھٹ سے نقدی باہر آجاتی ہے اور اگر کسی وجہ سے، ان کا اے ٹی ایم شوہر فوراً نقد رقم پیدا کرنے میں بے بسی کا اظہار کرے یا کوئی مجبوری ظاہر کرے تو وہ اسے اس وقت تک جھنجھوڑتی رہتی ہیں جب تک کہ شوہر مطلوبہ رقم پیدا نہ کر دے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کالم کا مقصد شوہروں کا دفاع کرنا نہیں ہے کیونکہ شوہر کرہ ارض پر پائی جانے والی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ ناقابل دفاع مخلوق ہے۔
یہ لکھنے کے بعد نہ جانے کیوں میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔ رہی بات خواتین کی تو حاشا و کلا یہ کالم ان پر طنز نہیں ہے کیونکہ میں صدقِ دل سے سمجھتا ہوں کہ عورتیں، خاص طور سے بیویاں، دنیا کی سب سے مظلوم کمیونٹی ہے۔
اس اعلان برات کے بعد ہم اے ٹی ایم والے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ مرد کی برتری اور عورت کی مظلومیت سے قطع نظر، میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ دنیا کی کوئی بھی اے ٹی ایم ایک تابعدار شوہر کا مقابلہ نہیں کر سکتی جس کا پِن کوڈ اس کی بیوی کے ہاتھ میں ہو۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض صورتوں میں اس نام نہاد پِن کوڈ کی ضرورت بھی نہیں رہتی اور ’اے ٹی ایم شوہر‘ بنا کسی رکاوٹ کے فوری کام کرتا ہے۔
بینک کی اے ٹی ایم اور شوہر اے ٹی ایم کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ مؤخر الذکر کی کوئی مالی حد نہیں ہوتی، اگر بیوی ہوشیار ہو تو وہ اپنے شوہر سے ایک دن میں جتنی چاہے رقم نکلوا سکتی ہے۔
میرا ایک دوست، جو ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور برانڈ مینیجر کام کرتا ہے، بہت ہی کارآمد اے ٹی ایم شوہر ہے۔ اس قدر کہ اس کی بیوی کو اسے ٹہوکا دینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، وہ بس آنکھ دباتی ہے اور اس کا شوہر اے ٹی ایم تیزی سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس عورت کی سہیلیاں اس کے شوہر اے ٹی ایم سے حسد کرتی ہیں کیونکہ اس جیسا اعلیٰ اے ٹی ایم پورے شہر میں نہیں ہے، تاہم ایک بات پریشان کن ہے۔ مذکورہ شوہر کے جذبات میں اب وہ تلاطم نہیں رہا جو شادی کے اوائل میں ہوا کرتا تھا جو کہ بیوی کے لیے تشویشناک صورت حال ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ محسوس کر رہی ہے کہ اگرچہ اس کے شوہر کی بطور اے ٹی ایم کارکردگی بے مثال ہے لیکن ان کے تعلقات کی گرمجوشی ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ بیوی جب بھی اس زوال پذیر جذبے کے بارے میں شکایت کرتی ہے، جو ان کی شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنے عروج پر تھا، تو شوہر اے ٹی ایم کی طرح جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: ’تم شاپنگ کے لیے کیوں نہیں جاتی، یہ لو پکڑو نقد رقم!‘ اور بیچاری بیوی کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ شوہرکی بات مان لے۔
ان اے ٹی ایم والے شوہروں میں ایک انوکھی نسل بھی ہے جو اپنی بیویوں میں نقدی یوں تقسیم کرتے ہیں جیسے واقعی وہ کسی بینک کے حقیقی اے ٹی ایم ہوں۔
اس قسم کے اے ٹی ایم شوہر بہت ہوشیار ہوتے ہیں کیونکہ وہ بیویوں کو اتنی ہی رقم دیتے ہیں جتنی رقم کے بارے میں ان کا اندازہ ہوتا ہے کہ سسرال والے ان پر مستقبل میں خرچ کر دیں گے، گویا ایک طرح سے وہ زیادہ شرح سود حاصل کرنے کے لیے مستقبل میں سرمایہ کاری کر رہے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ سمجھیں کہ میں بہت دور کی کوڑی لایا ہوں لیکن یقین کیجیے کہ یہ رواج ہمارے معاشرے میں موجود ہے، حتیٰ کہ نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
تاہم اب زمانہ بدل گیا ہے۔ زیادہ تر خواتین خود کفیل ہو چکی ہیں اور وہ اپنے اے ٹی ایم شوہروں پر انحصار نہیں کرتیں۔ درحقیقت جب مرد اے ٹی ایم میں نقد رقم ختم ہو جاتی ہے تو گھر کے مالی بحران کو حل کرنے کے لیے خواتین ہی مدد کو آتی ہیں۔
یہ شاید مثالی صورت حال ہے، لیکن بدترین صورت حال وہ ہے جس میں مرد اے ٹی ایم مکمل طور پر کام کرنا بند کر دیتا ہے، بیوی جب بھی ایسے اے ٹی ایم کو ٹہوکا دیتی ہے تو وہ جواباً چلا کر کہتا ہے ’یہ مشین خراب ہے۔‘
بیویوں کو چاہیے کہ ایسے مرد اے ٹی ایمز کو احتیاط سے استعمال کریں، کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، یہ وہ مخلوق ہے جس کی کوئی گارنٹی نہیں!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔