ہمارا غصہ ماؤں پر ہی کیوں نکلتا ہے؟

عورت ماں ہو تو اس سے توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ ہم اسے قربانی کی دیوی سمجھتے ہیں۔ ایسی دیوی جو ماں بنتے ہی اپنا آپ بھول جاتی ہے اور اپنے بچوں کے لیے اپنی پوری زندگی طرح طرح کی قربانیاں دیتی ہے۔

17 جولائی 2023 کی اس تصویر میں پاکستانی کارکن محمد نعیم بٹ کو ان کی والدہ رضیہ لطیف کھوئی رٹہ میں اپنے گھر پر بوسہ دے رہی ہیں (اے ایف پی)

’ماما کبھی تو چپ کر جایا کریں۔‘

’آپ کو ایک ہی بات کتنی بار بتانا پڑتی ہے۔‘

’مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔‘

ہم اکثر ہی اپنی ماؤں کو شدید جھنجھلاہٹ کے ساتھ ایسے یا ان سے ملتے جلتے جملے کہہ دیتے ہیں۔  کہنے کے بعد پچھتاتے بھی ہیں لیکن پچھتائے کیا ہو جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

ہمارے منہ سےجو الفاظ ایک بار نکل جائیں وہ پھر واپس نہیں آتے۔

اپنے الفاظ اور لہجوں کے ذریعے ہم اپنی ماؤں کو جو تکلیف پہنچانا چاہتے تھے وہ پہنچا چکے ہوتے ہیں۔

وہ اس تکلیف کو اپنے دلوں میں کہیں چھپا لیتی ہیں۔ ہم بھی غالباً ان سے یہی توقع رکھتے ہیں۔

ہم اپنی عادت سے مجبور ہیں اور وہ اپنی۔

ہم کچھ عرصے بعد پھر سے اپنی روش پر واپس آ جاتے ہیں۔ پھر سے پچھتاتے ہیں اور پھر سے دوبارہ ویسا نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو۔

دوسری طرف وہ بھی مائیں ہیں۔ انہیں ہمارے جملوں سے جتنی تکلیف پہنچے کبھی اس کا اظہار نہیں کرتیں۔ وہ اس تکلیف کو بھلا کر پھر سے ہماری فکر میں گھلنا شروع کر دیتی ہیں۔

ہم اپنی ماؤں پر کیوں چیختے ہیں۔ اس سوال کو گوگل کیا تو پتہ چلا کہ یہ تو پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔

لوگ اپنی ماؤں سے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرنے کے باوجود ان کے ساتھ برا سلوک کر جاتے ہیں اور پھر اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

ماں کے ساتھ تعلق بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ان سے بعد میں معافی مانگی جائے۔

پتہ ہوتا ہے کہ ان کا دل ہمارے لیے بہت بڑا ہے۔ کوئی ہمیں سمجھے نہ سمجھے یہ تو سمجھتی ہیں۔

ہم دل میں شرمندہ ہو لیے، انہیں پتہ لگ گیا ہو گا۔

پھر سے واپس اپنے سوال پر آتے ہیں۔

ہمارا غصہ ہماری ماؤں پر ہی کیوں نکلتا ہے؟ باپ پر کیوں نہیں؟

اس کا جواب پدرشاہی کے نظریے میں چھپا ہوا ہے۔

پدرشاہی ہمیں بتاتی ہے کہ مرد عورت سے افضل ہے۔ وہ عورت سے جیسا چاہے سلوک کر سکتا ہے۔

عورتیں بھی کہیں نہ کہیں اس نظریے کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ برا سلوک کر جاتی ہیں۔

پدرشاہی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں عورت پر تشدد کرنے کا حق حاصل ہے اور اسے اس تشدد کو برداشت کرنا چاہیے۔

عورت ماں ہو تو اس سے توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ ہم اسے قربانی کی دیوی سمجھتے ہیں۔ ایسی دیوی جو ماں بنتے ہی اپنا آپ بھول جاتی ہے اور اپنے بچوں کے لیے اپنی پوری زندگی طرح طرح کی قربانیاں دیتی ہے۔

ہم ان پر اپنا غصہ اتار کر بتاتے ہیں کہ ہم انہیں ہماری بدسلوکی اور بے عزتی کرنے کی کوششوں کو برداشت کرنے کا پابند سمجھتے ہیں۔

کہیں نہ کہیں ہمارا یہ رویہ ہمارے باپ کے ہماری ماؤں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی عکاسی کرتا ہے۔

ہم بچپن سے اپنے باپ کو اپنی ماؤں پر چیختے چلاتے ہوئے دیکھتے آ رہے ہیں۔

ہمارے باپ انہیں کچھ بھی کہہ دیتے تھے۔ کبھی بھی ڈانٹ دیتے تھے۔ وہ آگے سے چپ کر جاتی تھیں۔

ہم پھر انہیں اگلے دن اپنے باپ کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتے، ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ہم بھی بڑے ہوتے ہوتے اسی رویے کو اپنا لیتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ماں پر غصہ اور جھنجھلاہٹ اتارتے ہیں۔ پھر اس پر شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اس شرمندگی کا کیا فائدہ جو ہمیں ہمارا رویہ بدلنے پر مجبور نہ کرے۔

انسان خطا کا پتلا ہے۔ لیکن اگر ایک انسان ایک غلطی بار بار کر رہا ہو تو وہ غلطی نہیں رہتی بلکہ ایک جان بوجھ کر کیے جانے والا رویہ بن جاتی ہے، جسے تشدد کہا جا سکتا ہے۔

ہم اپنے اس تشدد پر دل ہی دل میں شرمندہ ہو کر اپنی ماؤں کو اپنے سلوک سے پہنچائی جانے والی تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم اس تکلیف کو اپنا رویہ بدل کر ہی دور کر سکتے ہیں۔

اس کے لیے معافی سے شروعات کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر معافی مانگتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہو تو اپنے سلوک سے اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کر سکتے ہیں۔

آئیں، ماؤں کے اس عالمی دن پر خود سے عہد کرتے ہیں کہ ہم اب واقعی ان پر اپنا غصہ، پریشانی اور جھنجھلاہٹ اتارنا بند کریں گے۔

ہم انہیں کچھ کہنے سے پہلے ایک منٹ سوچیں گے کہ ہم انہیں وہ کیوں کہنے جا رہے ہیں؟

کیا ہم انہیں اپنا پابند سمجھتے ہیں؟

کیا ہم انہیں کمزور سمجھتے ہیں؟

کیا وہ ایک آسان ٹارگٹ ہیں؟

ہم انہیں کچھ کہنے کے بجائے چپ کر جائیں گے۔ وہاں سے کچھ دیر کے لیے ہٹ جائیں گے۔ اپنے جذبات سنبھلنے پر واپس آ جائیں گے۔ لیکن اپنا غصہ ان پر نہیں اتاریں گے۔

ہم اپنی پدرانہ ذہنیت کو چیلنج کریں گے جو ہمیں انہیں کم تر سمجھنے کا درس دیتی ہے۔اس طرح ہم ایک معاشرے کی بنیاد رکھیں گے جہاں ماؤں کو تشدد سہنے والا ٹارگٹ سمجھنے کے بجائے برابر کا انسان سمجھا جائے گا۔

تو پھر شروعات کریں؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ