اوورسیز پاکستانیوں کی وطن سے محبت لازوال رہی ہے اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا دل و دماغ پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ وہ چاہے برطانیہ، یورپ یا امریکہ میں رہیں یا مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں محنت مزدوری کر رہے ہوں، مقامی سیاست کے بجائے ان کی زیادہ تر توجہ اور بحث مباحثوں کا مرکز پاکستانی سیاست ہی رہتی ہے۔
حالیہ دنوں میں لندن میں چند دن گزارے تو کئی محفلوں میں اوورسیز پاکستانیوں سے گفتگو کا موقع ملا۔
ان کی زیادہ تعداد تحریک انصاف کی حامی ہے اور 2024 کے انتخابات کو لے کر ان میں غصہ ہے اور فرسٹیشن بھی۔ ان کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا اور اکثریت کا مینڈیٹ چوری ہو جاتا ہے۔
ان کی باتوں میں وزن ضرور موجود ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ گذشتہ عام انتخابات کی شفافیت پر ڈھیر سارے اعتراضات موجود ہیں۔ البتہ 2024 کے انتخابات پر انگلیاں اٹھانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات بھی اتنے ہی متنازع تھے۔ اس وقت بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کے درجنوں امیدواروں کو آر ٹی ایس سسٹم فیل کر کے جتوایا گیا۔
صرف اگر کراچی کے نتائج کی بات کریں تو جیتنے والے آج بھی یہ کہتے ہیں کہ انہیں ایسے جتوایا گیا کہ وہ خود بھی حیران تھے۔ پی ٹی آئی کراچی کے جیتنے والے چند رہنما جب عمران خان سے ملنے بنی گالہ آئے تو عمران خان نے ان سے حیرانی میں استفسار کیا کہ آپ بھی جیت گئے۔
معاملہ یہ ہے کہ جن سے آج زیادتی ہوئی وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ 2018 میں کسی کا مینڈیٹ چرا کر انہیں جتوایا گیا اور اقتدار نہ صرف سونپا گیا بلکہ ساڑھے تین سال ان کے لیے حکومت چلائی بھی گئی۔ اس وقت ملک اسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔
مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ 2018 میں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 2024 میں ان کے حق پر ڈاکا مارا گیا۔ دونوں یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن یہ نہیں مانتے کہ ان کی حمایت میں دوسروں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔
اس مرتبہ معاملہ صرف دھاندلی کی بحث کا نہیں ہے بلکہ سیاست ذاتی دشمنی میں بدل چکی ہے۔ تحریک انصاف حکومتی اتحاد کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات، ان کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے اور ایسے میں فیک نیوز اور پراپیگنڈے کی بھرمار نے ماحول کو اتنا تلخ بنا دیا ہے کہ ریاست کے اہم معاملات بھی چلانا مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
صرف کرغزستان میں پاکستانی طلبہ پر ہونے والے حملوں کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کا گلہ تھا کہ حکومت اپنے طلبہ کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔
چار پانچ طلبہ کی حملوں میں اموات اور طالبات کے ریپ سمیت سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز اور تصاویر کی بھرمار تھی لیکن جب اصل حقائق سامنے آئے تو پتہ چلا کہ کسی ایک پاکستانی طالب علم کی نہ تو موت ہوئی اور نہ کسی کا ریپ ہوا۔ یہ ایک چھوٹی سے مثال ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ مخالفین کو نیچا دکھانے اور چھوٹے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر چند مخصوص ٹولے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
کرغزستان میں ہزاروں پاکستانی طلبہ موجود ہیں، جن کے والدین اور اہل خانہ کئی دن کرب سے گزرے اور فیک نیوز کی بھرمار نے ان کی تکلیف میں مزید اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ کرغزستان میں موجود بچوں بچیوں کے وٹس ایپ گروپوں میں بھی جعلی تصاویر اور ویڈیوز پہنچائی گئیں۔
اللہ کا شکر کہ وہاں حالات آہستہ آہستہ معمول پر آرہے ہیں لیکن فیک نیوز کے اس دھندے کو بند کرنا نہ صرف ملک بلکہ خود سیاسی جماعتوں کے لیے بھی انتہائی ضروری بن چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موجودہ سیاسی گرداب سے نکلنے کا فی الحال جو راستہ نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ حکومت وقت ایک باقاعدہ کمیٹی بنا کر تحریک انصاف سے مذاکرات کا اعلان کرے تاکہ عوام کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ کون ہے جو ملک کو چلنے نہیں دے رہا اور نہ چلنے دے گا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ سیاست سے معیشت تک کچھ ضابطوں اور قوانین پر متفق ہوا جائے اور جس جماعت کے کارکنان اور رہنما اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں انہیں اس کی سزا بھی دی جائے۔
ریاست مادر پدر آزاد نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اپنا بہت نقصان کر لیا ہے۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نیشنل ڈائیلاگ کے لیے تیار نہیں تو پھر آگے بڑھا جائے لیکن غیر یقینی کی اس صورت حال سے ملک کو نکالنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
میرے خیال میں تو نواز شریف کو آگے بڑھ کر کم از کم مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ دونوں سینیئر سیاست دان ہیں مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور دونوں کے ساتھ نواز شریف کے قریبی دیرینہ تعلقات ہیں۔
اس کے بعد مذاکرات کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور ان ہی دونوں رہنماؤں کو تحریک انصاف کو مذاکرات پر قائل کرنے کا ٹاسک دیا جائے لیکن اس کے لیے اولین شرط یہی ہے کہ پہلے ان دونوں کے ساتھ تو بیٹھا جائے۔
صدر آصف علی زرداری بھی مذاکرات میں پہل کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے۔ وہ نواز شریف کے ساتھ ملاقات کر کے ان مذاکرات کا ایجنڈا اور وے فارورڈ (آگے کا راستہ) طے کر سکتے ہیں۔
اس وقت ان سب سیاسی رہنماؤں کو حکومت اور اقتدار سے ہٹ کر سوچنا ہو گا کہ اس سیاسی جمود کو کیسے توڑا جائے، ورنہ تو سیاسی جماعتوں کے لیے گنجائش مزید گھٹتی جائے گی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی کھلاڑی تو موجود ہوں لیکن گراؤنڈ کو تالا لگ جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔