پنجاب کے دیہی علاقوں میں جب کوئی نوجوان خاندانی دشمنی کی دلدل میں پاؤں رکھے تو اسے ’آداب مقتل‘ سکھاتے ہیں کہ قتل کرتے ہوئے چہرہ مسخ نہیں کرنا اور ہاں لاش کا مثلہ گناہ ہوتا ہے۔ بندہ ضرور مارنا ہے کوئی معافی نہیں، بس ذرا ناک ماتھے کا نقشہ خراب نہ ہو۔ ہے نا عجیب بات؟
یہ صدیوں سے پنجاب کی دیہی زندگی میں رائج روایات کا حصہ ہے۔ بلوچستان میں پورا ایک نظام ہے جس کا تفصیلی احوال عمار مسعود کی کتاب ’میر ہزار خان مری، مزاحمت سے مفاہمت تک‘ میں درج ہے۔ آپ بھی اس حیرت میں شریک ہونا چاہتے ہیں؟
وہ لکھتے ہیں کہ ’حملہ آور پہاڑوں میں اپنے مجرم کو تلاش کرتا ہے، گولی چلانے سے پہلے اس کو آواز دے کر متنبہ کرتا ہے اور بلند آواز میں اعلان کرتا ہے میں فلاں فلاں بات کا بدلہ لینے کے لیے تمہیں قتل کرنے آیا ہوں۔ مقتول کو کلمہ پڑھنے کی مہلت دی جاتی ہے، پھر اُس کو الرٹ کر کے گولی داغ دی جاتی ہے۔
’قتل کے بعد لاش کو دھوپ میں نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اس کو سائے میں رکھنا بھی قاتل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر مجرم لاش کو سائے میں نہ رکھے تو اس کی سزا اور سخت ہوئی۔ اس کے بعد مجرم مقتول کے قریبی گھر والوں کو اطلاع کرتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کو قتل کر دیا ہے لہذا اس کے بھائی بندوں کو مطلع کر دو۔ اس کے بعد مجرم گھر میں مقید ہو جاتا ہے۔ تاوقتیکہ جرگہ اس کو طلب کرے۔ وہ جرگے میں آ کر بہت فخر سے اپنے جرم کا اقرار کرتا ہے۔ اب یہ جرگہ کرنے والے کے فیصلے پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کیا سزا دیتا ہے۔‘
ہم اتنی سی بات پڑھنے کے بعد یہ جاننے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں کہ جرگہ کس قسم کی سزا دیتا ہو گا۔ تجسس اور حیرت ہمیں سفاک لمحات میں بھی ایڑیوں کے بل کھڑا کر دیتے ہے کہ دیوار کے دوسری طرف کیا ہے وہ جان سکیں۔
بلوچستان اور پنجاب، کراچی یا اسلام آباد کے درمیان اجنبیت کی ایک بلند دیوار حائل ہے۔ یہاں کے نوجوان ایڑھیوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو فضا میں دھواں اور سڑکوں پر لاشیں نظر آتی ہیں۔ بطور معاشرہ ہم ٹی وی کی سکرین اور فلم کے پردے کو انسانی ہمدردی کے لینز کے طور پر استعمال نہیں کر سکے۔
ہمارے ایک کرم فرما ہمدانی صاحب کہا کرتے ہیں کہ ٹی وی ڈراما دیکھتے ہوئے یاد نہیں رہتا کہ کس ڈرامے کی کہانی کیا تھی اور کس میں کون اداکار کیا رول کر رہا تھا۔ چند چہرے اور چند موضوعات ہیں، کوئی ایک ڈرامے میں کسی اداکارہ کا خاوند بنا ہے تو دوسرے میں باپ، تیسرے میں ممکن ہے وہ بھائی بنا ہو۔ یہی حال قصے کہانیوں کا ہے، چوتھے دن آپ مکس کر بیٹھتے ہیں کہ کس کی ساس ظالم تھی اور کس کی بہو۔
بھئی کیسے کیسے موضوعات ابھی تک اَن دیکھے، اَن چھوئے پڑے ہیں۔ اوپر جس کتاب کا ذکر کیا اس سے آپ کم از کم تین ڈرامے اور دو چار فلمیں تو نکال ہی سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دلچسپ چیز دیکھیے، 1969 میں چند نوجوان لندن کے سرد ماحول میں بیٹھے انقلاب کی حرارت محسوس کرتے اور آہٹ سنتے ہیں۔ کیمونسٹ تحریک سے متاثر 20 سے 25 سالہ یہ نوجوان پرآسائش زندگی چھوڑ کر بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں جا اترتے ہیں۔
انہیں بلوچوں سے ہمدردی تھی اور مسلح جد و جہد کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ لندن گروپ کے نام سے معروف ہونے والے اِس گروہ میں مشہور صحافی نجم سیٹھی بھی شامل تھے۔
بھئی یہ لوگ کیس سٹڈی ہیں، بعد میں انہیں احساس ہوا کہ یہ راستہ غلط ہے اور واپس آ گئے۔ یہ کون لوگ تھے؟ کس چیز نے انہیں تحریک دی؟ لندن کی سنہری شاموں سے بلوچستان کے گھپ اندھیرے کا سفر کیسا رہا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان لوگوں پر دستاویزی فلمیں بنتیں یا ڈرامے بنتے مگر ہم ساس بہو کے جھگڑے چکا لیں تو ادھر توجہ دیں۔
میر ہزار اور نواب خیر بخش مری جیسے کتنے کردار ہیں جن کے ہم بس نام جانتے ہیں۔
کتاب میں ایک جگہ مری اور بگٹی قبائل کی لڑائی کا ذکر ہے۔ بھئی دو قبیلوں کے تعلقات، ان کی رسومات اور جنگ و جدل کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔
پھر جو قبائل انگریزوں کے خلاف لڑے ان کی مزاحمت کا طریقہ کار کیا تھا؟ پہاڑوں میں جنگ کیسے ہوتی ہے؟ فوڈ سپلائی کا بندوبست کیسے سنبھالا جاتا کے؟ ہم نہیں جانتے اور خیر سے کبھی فلم یا ڈرامے کا تردد بھی نہیں کیا۔
کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے بلوچ اپنی قمیضوں کے دامن آپس میں باندھ لیتے تھے تاکہ کسی کا دل کمزور پڑے اور بھاگنا چاہے تو بھاگ نہ سکے۔ ناقص لیکن کیسی دلچسپ اور عجیب و غریب حکمت عملی ہے۔
تھری ڈی اور فور ڈی ٹیکنالوجی میں آپ فلم دیکھتے ہوئے خود منظر کا حصہ ہوتے ہیں۔ آپ صرف گولی چلنے کی آواز نہیں سنتے خون کے لوتھڑے آپ کے چہرے پر آ جمتے ہیں اور بدبو دماغ اڑا کر رکھ دیتی ہے۔
عمار مسعود کی تکنیک بھی اتنی ہی سفاک اور پراثر ہے۔ آپ کتاب پڑھتے ہوئے کرداروں کی بو باس محسوس کرتے اور رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ کام کوئی فکشن نگار ہی کر سکتا تھا ورنہ واقعات ایک سپاٹ بیانیہ بن کر رہ جاتے۔
ہمارے لیے بلوچستان میں بلوچ اور پٹھان دو متوازی دھارے ہیں جن کا کبھی سنگم نہیں ہو سکتا۔ کتاب پڑھتے ہوئے ایک جگہ دماغ پر ہتھوڑا برسا۔ نواب خیر بخش مری کی والدہ زرکون قبیلے سے تھی جو پشتو بولتا تھا۔ میرے ذہن میں بنا ہوا ایک تصور ریت کا ٹیلہ ثابت ہوا۔
نواب خیر بخش مری بلوچوں کے لیے کیا تھے؟ وفات کے بعد بلوچ تیار نہ تھے کہ ان کی میت کوئی کسی اور جگہ لے جائے۔ وہ وہیں موقع پر تدفین چاہتے تھے۔ جانتے ہیں کیوں؟ انہیں ڈر تھا کہ نواب مری کا دماغ نہ نکال لیا جائے۔ نواب مری واقعی بلوچوں کے لیے ایک دیوتا ہیں۔
شیر محمد مری روسی سمیت 10 زبانیں جانتے تھے اور میر و غالب کے شناور تھے۔ بھٹو انہیں ’جنرل شیروف‘ کہتے تھے۔ روس اور انقلاب سے رومانس کی ایک دلچسپ کہانی اگر سکرین پلے میں ڈھلے اور فلم کا نام ہو، جنرل شیروف! کیسا؟
ہزار خان کی زندگی ہزار داستان نہ سہی دو چار فلم ڈراموں کا مواد ضرور رکھتی ہے۔ تصور کریں ہزار خان کاسترو سے ملاقات کے لیے سفارت خانے جا رہے ہیں، یہ خفیہ ملاقات ہے۔
وہ راستے میں سات گاڑیاں تبدیل کرتے ہیں۔ کیسا سنسی خیز سفر ہو گا۔ ہزار خان کی ٹینشن ہمارے چہرے پر اتر آئے گی۔ ہم چاہیں گے ہزار خان پکڑا نہ جائے۔ ممکن ہے اس کے الٹ ہو۔ لیکن آپ کے دل میں ہلچل ضرور پیدا ہو گی۔
یہ ہلچل سے بھری کہانیاں بلوچستان کے پہاڑوں میں بکھری پڑی ہیں۔ ٹی وی اور فلم والوں کا دکھڑا ہے کہ ہم دور دراز علاقوں کو اس لیے کوریج نہیں دیتے کہ وہاں کی آڈینس کم ہے، ریٹنگ نہ ملے گی۔
اگر کہانی میر ہزار خان جیسی پُرپیچ ہو اور لکھنے والا عمار مسعود جیسا عمدہ فکشن نگار تو کوئی وجہ نہیں یکسانیت سے اکتائے ہوئے مڈل کلاسیے زندگی کے نئے رنگ کو نظر انداز کریں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔