دیوداس: محبت کا دیوتا جسے نئی نسل ’بے وقوف‘ سمجھتی ہے

ہماری ثقافت میں پرانی نسل ’ریلیشن شپ‘ کو شدید نفرت سے دیکھتی ہے۔ نئی نسل اس فیز سے گزر کر ’سچوئیشن شپ‘ میں داخل ہو رہی ہے۔

بالی وڈ ایکٹریس مادھوری ڈکشٹ اور اداکار شاہ رخ خان 12 جولائی 2002 کو ممبئی میں اپنی فلم دیوداس کے پریمیئر کے موقع پر مسکرا رہے ہیں۔ یہ فلم 2002 تک انڈیا کی سب سے مہنگی فلم قرار دی گئی تھی (اے ایف پی)

یہ 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والے نوجوان ہیں جو آج بھی محبت میں حد سے بڑھی دیوانگی کو ایک لفظ میں سمیٹے ہوئے ’دیوداس‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔

نئی نسل کے لیے دیوداس محض ایک ’لوزر‘ ہے جو دل ہی دل میں سلگ کر بجھ گیا۔

کیا ’سچویشن شپ‘ کے دور میں پروان چڑھتی ’جنریشن ایلفا‘ کا روایتی محبت کے بارے نظریہ یکسر بدل چکا ہے؟

’دیوداس‘ بناتے ہوئے سنجے لیلا بھنسالی کی ایک مشکل شاہ رخ خان سمیت اپنے اداکاروں کو یہ سمجھانا تھا کہ دیوداس اتنی زیادہ شراب کیوں پیتا ہے۔ ایک عمومی اعتراض تھا کہ کثرتِ مے نوشی کو گلوریفائی یا خوبصورت دکھایا جا رہا ہے۔

بھنسالی آج تک اس سوال سے پیچھا نہ چھڑا سکے، اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ’دیوداس کی کہانی کیا ہے؟ وہ ایک ناکام شخص ہے جو کچھ نہیں کرتا، بس اپ سیٹ ہو جاتا ہے، یہ ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جس نے محبت کی۔

’ہماری زندگی میں سب سے بڑی ذمہ داری کیا ہے؟ محبت کرنا اور محبت دینا۔ دیوداس جیسی محبت بھی کوئی کیا کرتا ہو گا؟

’میں کہنا چاہتا تھا کہ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کی طرح کریں۔ وہ لوزر نہیں ہے۔ وہ میرے پیش کردہ کرداروں میں سب سے زیادہ باوقار ہے۔

’اس نے پارو سے محبت کی۔ آپ اس سے کچھ بھی پوچھیں، وہ کہے گا ’پارو‘۔ یہی محبت ہے۔ یہی ایک محبت کی کہانی ہے۔‘

جنریشن ایلفا یا نئی نسل کو دیوداس کی شراب نوشی سے زیادہ مسئلہ نہیں، لیکن وہ محبت کے بارے ذرا مختلف انداز میں سوچتی ہے۔

مجھے یاد ہے 10 برس قبل دلیپ کمار کی ’دیوداس‘ دیکھنے کے بعد کئی دن ’ویاکل جیا را ویاکل نینا، اک اک چپ میں سو سو بینا‘ کی سی کیفیت طاری رہی۔

چند دن پہلے نئی نسل کے نوجوان شاہ رخ کی دیوداس دیکھ کر آئے تو وہ اداس نہیں حیران تھے۔ ان کے لیے یہ دیو بابو ’لوزر‘ تھا جو ایک جگہ ’پھنس گیا‘ اور کچھ ’حاصل نہ کر سکا۔‘

اگر آپ ان باتوں کی وضاحت چاہتے ہیں تو میں ایک اور فلم سے مثال پیش کرتا ہوں۔

انوراگ کیشپ نے 2009 میں دیو ڈی (Dev.D) بنائی جو دیوداس کی ماڈرن اڈاپشن تھی۔

نئے ورژن کی کہانی میں دو بڑی تبدیلیاں کی گئیں جو آج کے عہد کی نفسیات سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔

پارو والدین کی مرضی سے شادی کر چکی ہے۔ ایک رات اسے دیو کا فون آتا ہے، پارو کا خاوند اسے ملاقات کے لیے بھیج دیتا ہے۔ دیو کو نشے میں دھت اور کسمپرسی کی حالت میں دیکھ کر وہ اسے سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے، ہمدردی جتاتی ہے۔ بدلے میں دیو کی اپروچ روایتی دیوداس سے مختلف ہے۔ وہ جسمانی تسکین چاہتا ہے جسے پارو مسترد کرتی ہے۔ سادہ زبان میں وہ زیادہ ’پریکٹیکل‘ ہے۔

وہ محبت کے خیالی تصور میں عملی رنگ بھرنے پہ یقین رکھتا ہے۔ اسے کوئی ہوس کار بھی نہیں کہتا جیسے یہ روزمرہ زندگی کا حصہ ہو۔ آج کا دیوداس دیوانہ ہے مگر اتنا بھی نہیں۔

دوسرا اہم موڑ وہ ہے جب دیو آخر میں چندر مکھی سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ ایک جگہ پھنس نہیں جاتا، موو آن کرتا ہے۔ یہ اپروچ نئی نسل کے نقطہ نظر سے بہت قریب ہے۔

محبت میں خود اعتمادی کی کمی، غیر یقینی یا غلط فیصلوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہونا اور زندگی ایک ہارے ہوئے شخص کی طرح گزار دینا (لوزر ہونا) نئی نسل کے لیے مضحکہ خیز بات ہے۔

وہ اسے پاگل پن سمجھتی ہے۔ دیوداس ہی کیا مجنوں بھی ان کے لیے لوزر ہے۔ نئی نسل کو سمجھانا ناممکن ہے کہ ’مجھے یہ ڈر ہے تیری آرزو نہ مٹ جائے‘ کا مطلب کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محبت اور اس میں جی کا زیاں نئی نسل کو نہیں لبھاتا۔ اس شوخ سے شناسائی کے بغیر محبت ظفر اقبال کی شاعری میں تھی۔

آج کا نوجوان دوست کی دوست سے پیار کر کے فوراً غم کی پیش بندی کر دیتا ہے اور اسے سگریٹ بجھنے سے پہلے اسی سگریٹ سے نئی سگریٹ جلانے سے تشبیہ دیتا ہے۔

ایسا نہیں کہ نئی نسل محبت پہ یقین نہیں رکھتی۔ وہ اسے زندگی کا ایک خوبصورت جذبہ سمجھتے ہوئے اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔ وہ روتی ہے مگر زیادہ دیر کے لیے نہیں۔

نئے مواقع کی تلاش جلد اسے پرانے غم سے نکال کر نئے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے۔ وہ ’بڑی وفا سے نبھائی ہم نے تمہاری تھوڑی سی بے وفائی‘ نہیں گنگناتے۔ حزن، یاسیت اور یہاں تک کہ سنجیدگی بھی نہ صرف محبت بلکہ زندگی پورے نئے اسلوب میں ایک گالی سے کم نہیں۔

آپ فلم کے گیتوں کو ہی دیکھ لیجیے، ماضی کے مقابلے میں اداس گیتوں کی تعداد بہت نمایاں فرق کے ساتھ کم ہوئی ہے۔ غم جدید دور میں قابل قدر جذبے کے طور پر اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔

ہماری ثقافت میں پرانی نسل ’ریلیشن شپ‘ کو شدید نفرت سے دیکھتی ہے۔ نئی نسل اس فیز سے گزر کر ’سچوئیشن شپ‘ میں داخل ہو رہی ہے۔

کہاں وہ دور کہ شاعر نے ایک نظر کسی کو دیکھا اور پوری زندگی اس کی نذر کر رہی۔ پھر ذرا کم تر درجے کی کمٹمنٹ اور اب نئی نسل کی محبت کہ جب تک حالات اجازت دیں زندگی کا رس کشید کرتے رہیں اور ’پھر چل دیے تم کہاں ہم کہاں۔‘

یہ سرمایہ داری کا دور ہے۔ نتیجہ اہم ہے عمل نہیں، منزل اہم ہے راستہ نہیں۔ زندگی کو خوبصورت بنانا ہے جس ڈھنگ سے بھی بنے۔ آپ لوزر ہوتے ہیں یا ونر، نئی نسل کا ایسا ماننا ہے۔

نئی نسل کے لیے حاصل حصول وہی ہے جو وزن یا ماہیت رکھتا ہو۔ کسی کے عشق میں پاگل ہوئے پھرنا وقت کا ضیاع ہے۔

آپ اگر کسی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو وہ ہزبینڈ یا وائف ’مٹیریل‘ ہے ۔ محبت اور مارکیٹ کی زبان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ فیصلوں کا دارومدار ’نفع‘ اور ’نقصان‘ پر ہوتا ہے۔

روسٹرز کو سننے والی نئی نسل، بے رحم اور پریکٹیکل زندگی گزارنے کی خواہش مند جنریشن ایلفا کے مزاج اور نفسیات کو سمجھنا اور پردے پر پیش کرنا ابھی بالی وڈ پر قرض ہے۔

یہ کام بروقت نہ ہوا تو نئی نسل خوبصورت ناسٹیلجیا بنانے کا موقع کھو دے گی۔ کیا پتہ ناسٹیلجیا نئی نسل کی میزان میں کوئی اہمیت رکھتا بھی ہے کہ نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ