اکیرو کوراساوا کی ’سیون سیمورائی‘ کے ساتھ عظیم جیسے الفاظ محض بوجھ ہیں۔ جس نے یہ شاہکار دیکھ لیا وہ اس کے سحر سے کبھی باہر نہیں آ سکتا، جس نے نہ دیکھا وہ ’شعلے‘ جیسی سستی انٹرٹینمنٹ کو ’کلاسیک‘ کہہ کر دل بہلا سکتا ہے۔
’شعلے‘ انڈین سینیما گھروں میں دوبارہ نمائش کے لیے پیش کیے جانے کی خبروں سے دل میں گدگدی ہوئی کہ سلیم خان اور جاوید اختر اور رمیش سپی کا یہ ماسٹر پیس دیکھا جائے۔ چار پانچ سال قبل پہلی مرتبہ دیکھنے پر یہ جتنی دلچسپ لگی تھی اب اتنی ہی بےکار محسوس ہوئی۔ تب ہم بھی انوپم چوپڑا جیسے مبصرین کے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے اور دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ بالی وڈ نے اس سے بڑا شاہکار تخلیق نہیں کیا۔
ہمارے پاس سنانے کو ایسے قصے وافر مقدار میں ہوتے کہ ’گبر سنگھ ‘کے نام سے بچوں کو ڈرایا جاتا تھا اور اگر کہیں کوئی گھوڑی تانگہ کھینچتی نظر آتی تو لوگ اسے پیار سے ’دھنو‘ پکارنے لگتے۔ یہاں تک کہ کسی دوست کو ’جے‘ اور کسی کو ’ویرو‘ پکارتے۔
دوسری بار ’شعلے‘ دیکھتے ہی ذہن فوراً ’سیون سیمورائی‘ کی طرف گیا، جس کا ایک ایک سین فلم میکرز کے لیے ٹیکسٹ بک کا درجہ رکھتا ہے۔ اس فلم سے براہ راست متاثر ہونے والی فلموں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں تو بیسیوں میں ضرور ہو گی، جن میں درجن بھر اپنی جگہ شاہکار ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ دہائی میں ریلیز ہونی والی ’میڈ میکس‘ اور ’جان وک‘ وغیرہ۔
اچھا فلم ساز محض بنیادی قضیہ اٹھا کر مارکیٹ میں اس کی سستی کاپی پھینک کر مال نہیں بناتا بلکہ ’میگنی فیسینٹ سیون‘ جیسی ایک اور خوبصورت تخلیق تیار کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سیون سیمورائی‘ سے جس فارمولے نے جنم لیا، اس کے بنیادی خد و خال کچھ اس طرح کے ہیں: ایک گاؤں ڈاکوؤں کے یلغار سے مسلسل متاثر ہو رہا ہے لیکن لوگ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ جنگ کے لیے کرائے پر کچھ جنگجوؤں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکو اور سیمورائی یا کرایہ کش اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر لڑتے ہیں اور ایک طویل جنگ کے بعد ڈاکوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ڈاکوؤں کے خوف سے آزاد ہوتے ہی گاؤں کے لوگ سیمورائیوں سے وہ کرتے ہیں، جیسے امریکہ اپنے مفادات ختم ہونے کے بعد پاکستان سے کرتا ہے۔ سادہ زبان میں اس کا مطلب ہوا کہ پہلے کسی نے استعمال کیا اور فائدہ اٹھانے کے بعد جھنڈی کرا دی۔ آپ اسے گاؤں والوں کی کمینگی کہیں یا خودغرضی لیکن وہ یہی کرتے ہیں۔
’شعلے‘ میں بھی آخر تک یہی فارمولا چلتا ہے۔ گاؤں پر ڈاکوؤں کا حملہ اور انہیں بچانے والے سات کے بجائے دو جنگجو۔
ویرو بسنتی کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو کر شہر واپس جانے کا ارادہ کرتا ہے۔ صرف ٹھاکر ہی پلیٹ فارم پر اسے الوداع کہنے کے لیے کھڑا ہے! باقی گاؤں والے اپنے کام میں مصروف ہیں۔
ویرو کی خواہش تھی کہ گاؤں میں رہے، لیکن جنگ جیتنے کے بعد اس کے لیے یہ گنجائش ہی نہ تھی۔ کیونکہ گاؤں والوں کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
’شعلے‘ کی بے مثال کامیابی اور سلیم جاوید کی ٹی وی پر مسلسل موجودگی نے اس فلم کو دیو مالائی داستانوں جیسی شہرت عطا کی۔
کچھ دن قبل سلو بھائی نے کہا کہ انہیں سلیم جاوید کی کوئی فلم دوبارہ بنانا پڑے تو وہ ’شعلے‘ کا انتخاب کریں گے۔ سلمان خان اگر یہ فلم کریں تو انہیں ’ویرو‘ کا کردار کرنا چاہیے جسے دھرمیندر نے نبھایا تھا۔ اتنا سپاٹ کریکٹر دھرمیندر کے بعد سلمان ہی کر سکتا ہے۔
فلم کا بہترین کردار’گبر‘ ہے جسے امجد خان نے واقعی نبھانے کا حق ادا کیا۔ اگر گبر سنگھ کا کردار کوئی اور کرتا تو؟ جیسا کہ پہلے ڈینی سائن ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ ملبوسات تیار کیے جا چکے تھے، لیکن قسمت نے امجد کی یاوری کی۔ ان دنوں فیروز خان کی فلم ’دھرماتما‘ بن رہی تھی، جس کا ایک حصہ افغانستان میں شوٹ ہونا تھا۔ افغان انتظامیہ نے تاریخیں ایسی دیں کہ ڈینی کے لیے دونوں میں سے کسی ایک فلم کا انتخاب کرنا تھا۔
’مولا جٹ‘ کے مصنف اور ’مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا‘ جیسے مشہور ڈائیلاگز کے خالق ناصر ادیب ایک قصہ سناتے ہیں کہ ’جب میری سلیم جاوید سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ ’کتنے آدمی تھے؟‘ کوئی بہترین جملہ نہیں، یہ ایک چالو قسم کی بات تھی جسے امجد خان کی ادائیگی اور سٹائل لازوال بنا گیا۔‘ ناصر ادیب کی بات سے اتفاق کیے ہی بنتی ہے۔ اگر یہی مکالمہ دھرمیندر نے بولا ہوتا؟
فلم بنتے ہوئے بہت سی چیزیں موقعے پر سکرپٹ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک کردار جو خاص طور پر نمایاں رہا وہ سورما بھوپالی کا ہے۔ اسے جگدیپ نے ادا کیا تھا۔ یہ مزاحیہ اور پیارا کردار بھوپال کے ایک حقیقی شخص کی زندگی سے متاثر ہو کر لیا گیا جو محکمہ جنگلات میں افسر اور جگدیپ کا جاننے والا تھا۔ اس کا آئیڈیا جگدیپ نے دیا تھا۔
باکس آفس پر دھوم مچانے والی ’شعلے‘ نے امجد خان اور امیتابھ بچن کے کیریئر کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کیا، دھرمیندر کی ڈانواں ڈول کشتی کو سہارا دیا۔ یہ فلم بلاشبہ رجحان ساز تھی، لیکن سلیم جاوید کی وراثت پر بات کرتے ہوئے گفتگو ہمیشہ یک طرفہ ہوتی ہے۔
مکالمہ نگاری کی حد تک یہ جوڑی ہندی سینیما میں بہت بہتری لائی، ڈائیلاگ چست اور دلچسپ تھے لیکن کہانی اور سٹائل سطحی تفریح سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ جاوید صاحب آج کے فلم سازوں پر تنقید کرتے ہوئے اکثر یہ دلیل رد کرتے ہیں کہ ’عوام یہی دیکھنا چاہتی ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ فلم سے وابستہ بااثر شخصیات عوامی ذوق بگاڑنے یا بنانے میں اہم کردار کرتی ہیں۔
اپنی فلموں کی روشنی میں جاوید صاحب خود کو کہاں کھڑا کریں گے؟ وہ ’شعلے‘ کے بارے میں ہر بات بتا چکے، یہ کب بتائیں گے کہ اس کا مرکزی خیال کہاں سے لیا؟