اگر آپ موجودہ دور میں کوئی حکومت بطرز ’بنانا رپبلک‘ دیکھنا چاہتے ہیں تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو اپنے ہی ملک میں ہی یہ نظر آ جائے گی۔ کون سی حکومت اپنے ہی اٹارنی جنرل کے سپریم کورٹ سے کیے گئے وعدے سے ایک ماہ کے اندر مکر جاتی ہے؟
کون سی حکومت اپنے ہی اٹارنی جنرل کی بات کی نفی بھی کرتی ہیں لیکن اسے عہدے پر برقرار بھی رکھتی ہے؟ کس حکومت کا وزیر قانون صرف ایک موکل کے ایک کیس کی پیروی کے لیے چار دنوں کے لیے استعفیٰ دیتا ہے اور پھر ڈھٹائی سے کابینہ میں واپس آ جاتا ہے؟ کس ملک کے وفاقی وزیر آپ کو ویڈیو اور فوٹیج کا فرق سمجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں؟ کہاں ایک حاضر سروس جنرل ایک وزیر کے ساتھ پریس کانفرنس میں وزیر کی غلط بیانی پر سر ہلا رہا ہوتا ہے؟ کہاں احتسابی ادارے کے سربراہ کی مبینہ قابل اعتراض ویڈیو سامنے آتی ہے اور وہ پھر بھی پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے عہدے سے چپکا رہتا ہے؟ اور وہ کون سی حکومت ہے جو ایسے شخص کے خلاف آئینی احتساب شروع نہیں کرتی؟ کہاں جج مبینہ ویڈیو میں اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ اس سے من پسند فیصلے اس کی اخلاق سے گری ہوئی مبینہ فلمیں دکھا کر حاصل کیے گئے؟ اور وہ فیصلے پھر بھی برقرار رکھے جاتے ہیں؟ جی ہاں یہ سب ممکن ہے اس دور میں۔
حکومت کی کم فہمی یا شرارت کی تازہ ترین مثال جنرل باجوہ کے عہدے کی توسیع کے بارے میں عدالتی کارروائی اور فیصلے میں نظرثانی کی درخواست ہے۔ اول تو اس توسیع کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں سابق چیف جسٹس کی غیر ضروری مداخلت بعید از عقل ہے۔ عدالت کے فیصلے نے، جو کسی موجودہ قانون کی بنیاد پر نہیں تھا، ملک میں پہلی مرتبہ آرمی چیف کی توسیع کو قانونی حیثیت دے کر ایک انتہائی خطرناک راستہ کھول دیا ہے۔ اب مستقبل میں ہر آنے والا آرمی چیف اس نئی مثال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
پاکستان کو کوئی ایسے سنجیدہ سلامتی کے مسائل درپیش نہیں ہیں جن سے کوئی نیا آرمی چیف موثر طریقے سے نمٹ نہیں سکتا۔ جب جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو اس وقت سلامتی کے مسائل زیادہ گمبھیر تھے۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے اثرات کا مقابلہ کیا جا رہا تھا اور آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد پورے زوروں پر تھے۔ لیکن جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کاوشوں میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ نئے چیف جنرل باجوہ کی کمان میں فوج نے اسی تندہی اور ہمت سے قومی سلامتی کو درپیش ان خطرات کا کامیابی سے سامنا کیا۔ اس لیے یہ فرض کر لینا کہ نیا آرمی چیف ان مسائل کا موثر طریقے سے مقابلہ نہیں کر پائے گا بظاہر انتہائی ناقص سوچ ہے۔
اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ جنرل باجوہ کی توسیع کی معیاد مکمل ہونے کے ساتھ ہی ففتھ جنریشن وار ختم ہو جائے گی اور تین سال بعد نئے چیف کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ مستقبل قریب میں دشمن کی ہمارے ملک کے خلاف کارروائیاں بند ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ اب تو یہ کارروائیاں معمول کا ایک حصہ ہیں اور کسی طور پر کسی عہدے کی توسیع کی وجہ نہیں بننی چاہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کشمیر میں جاری ایک بہت بڑے بھارتی فوجی آپریشن کے باوجود ان کے آرمی چیف مدت ملازمت ختم ہونے پر اس سال کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔
اس سلسلے میں ایک اہم پہلو عسکری ادارے کی اپنی ساکھ ہے۔ کسی بھی ادارے کے سربراہ کی ملازمت میں توسیع دراصل اس ادارے پر اعتماد کی کمی کا اظہار ہے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک طرح سے بہت سے دوسرے افسران کی قابلیت پر شکوک کے سائے ڈالتی ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران نے کھلے عام جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کی مخالفت کی ہے۔
جنرل کیانی کی مدت ملازمت کی توسیع کے بعد یہ بات زبان زد عام تھی کہ یہ توسیع اس وقت کی حکومت پر شدید دباؤ ڈال کر حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور خود یوسف رضا گیلانی بھی بعد میں ذاتی محفلوں میں یہ کہتے پائے گئے کہ ان کی حکومت کو اس قدر مجبور کر دیا گیا تھا کہ مدت ملازمت میں توسیع کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ تاثر کسی طرح بھی فوج جیسے اہم اور حساس ادارے کے لیے مناسب نہیں۔ جنرل کیانی کی توسیع کو فوجی حلقوں میں بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
اس سے پہلے جنرل مشرف نے بھی اپنے زور بازو سے اور اپنی مرضی سے یکے بعد دیگرے توسیع لے لیں۔ کئی سالوں پر محیط ان اقدامات نے اور ملکی سیاست میں دخل اندازی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے فوج کے مورال اور ادارہ جاتی ہم آہنگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان حالات میں قوم کے وسیع مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب تو یہ تھا کہ جنرل باجوہ توسیع قبول نہ کرتے اور کسی دوسرے سینیئر جنرل کو خدمت کا موقع دیتے۔
موجودہ حکومت عدالتی فیصلے کے بعد جس طرح سے توسیع کےمعاملے سے نبرد آزما ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ یا تو اس حکومت میں ایسے حساس معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے یا وہ اس معاملہ کو جان بوجھ کر زیادہ متنازعہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت بڑی آسانی سے سپریم کورٹ کو دی ہوئی یقین دہانی کے مطابق پارلیمان سے آرمی ایکٹ میں ضروری ترمیم منظور کروا کر اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر سکتی تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آرمی چیف کے متعلق کسی قانون سازی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے۔
نظرثانی کی درخواست میں بہت سے ایسے نکات اٹھائے گئے ہیں جن کو سننے اور کوئی فیصلہ کرنے میں دو سے تین ماہ لگ سکتے ہیں جس سے ملکی سیاست میں غیریقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ اگر نظرثانی کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے، جس کا اس طرح کی درخواستوں میں غالب امکان ہوتا ہے، تو پھر دوبارہ حکومت کو پارلیمان سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال میں کافی وقت ضائع ہو چکا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک پارلیمان کے موڈ میں بھی تبدیلی آ چکی ہو۔ سپریم کورٹ اور پارلیمان میں ناکامی حکومت کی مزید سبکی اور فوج میں بےچینی کا باعث بنے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت نے نظرثانی کی درخواست میں کچھ ایسے نکات بھی اٹھائے ہیں جن میں عدالتی فیصلے کی بادی النظر میں توہین بھی کی گئی ہے۔ مثلا گستاخانہ طریقے سے عدالت کی توجہ اس طرف دلائی گئی ہے کہ اس کا فیصلہ مفاد عامہ کے خلاف تھا اور عدالت نے ایک طرح سے مفاد عامہ کے خلاف کام کیا۔ نظرثانی کی درخواست میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اس فیصلے سے حکومت اور آرمی چیف کے کام میں مداخلت کی گئی۔ درخواست میں یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ حکومت انتظامی فیصلے کرنے میں آزاد ہے اور عدالت ان میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ کچھ قانونی ماہرین اسے عدالت کو ایک طرح کی دھمکی بھی تصور کر رہے ہیں۔
ان تمام نکات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یا تو یہ اقدامات کم عقلی اور کم فہمی کا نتیجہ ہیں، جیسا کہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے، یا پھر حکومت نے جان بوجھ کر یہ راستہ اختیار کیا ہے تاکہ وقت ضائع کیا جائے۔ کچھ تجزیہ کار اسے جنرل باجوہ کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی سازش سمجھتے ہیں۔
پارلیمان کا آسان راستہ چھوڑ کر نظرثانی کا مشکل اور غیریقینی راستہ اختیار کرنے کے اقدام سے اس شک کو تقویت ملتی ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عدالت سے محاذ آرائی کے راستے پر گامزن ہے اور ملک ایک بڑے ادارہ جاتی تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔
نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران اگر حکومت کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا تو اس سے موجودہ حکومت کے ختم ہونے کے امکانات بھی پیدا ہو جائیں گے۔ یہ صورت حال کسی طرح بھی ملکی یا جمہوری مفاد میں نہیں ہوگی۔ ملک کو ایک خطرناک بحران سے بچانے کے لیے حکومت کو اپنی حکمت عملی میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے اور اسے نظرثانی کی درخواست واپس لے کر پارلیمان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔