سپریم کورٹ کے 28 نومبر کے فیصلے نے ملکی استحکام، فوج کے مورال اور آزادی اظہار پر نئے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ غیر یقینی برقرار رہے گی۔
جب جنرل باجوہ کی دوبارہ تقرری/توسیع کو ایک ایسے شخص نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس کی تاریخ غیر سنجیدہ درخواستیں دینے سے بھرپور تھی، تو یہ ایک غیر سنجیدہ خبر تھی لیکن جب اسے کاز لسٹ میں شامل کرکے اس کی سماعت کے لیے ایک ایسا تین رکنی بنچ بنایا گیا جس کی سربراہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ خود کر رہے تھے تو یہ ایک سنجیدہ اور اہم خبر تھی۔
ہر خبر پر نظر رکھنے والے کئی درجن نیوز ٹی وی چینلوں اور اخباروں نے اس خبر کا بائیکاٹ کیا۔ اس ملک میں سنسر شپ اور ازخود سنسرشپ کے ایک تلخ اور بھیانک حقیقت ہونے کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز ہے، جب تک سماعت شروع نہ ہوئی تھی تب تک یہ خبر نہ نشر ہوئی اور نہ پرنٹ اور نہ آن لائن شائع ہوئی۔
عمران سرکار کے لیے یہ آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے والی بات ہے۔ معاشی بحران، ایف اے ٹی ایف، سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد، کشمیر بحران کے بعد ابھی یہ حکومت سنبھلی نہ تھی کہ اکتوبر میں مولانا فضل رحمٰن ہزاروں لوگوں کو لے کر اسلام ٓباد پر چڑھ دوڑے۔
بڑی مشکل سے مولانا واپس گئے تو اب ایک صاحب کی درخواست نے پورے ملک کو ایک بڑے سیاسی ہیجان میں مبتلا کر دیا۔ تین دن تک وہ کیس جس کی خبر دینے سے میڈیا ہاؤس گھبراتے رہے بعد میں تمام خبروں پر حاوی رہا۔
اس کیس سے پہلے ہزارہ ۔ حویلیاں موٹروے کے افتتاح کے موقعے پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے عدلیہ کو طعنہ دیا کہ لوگوں میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ عدالتی معیار کے تاثر کو ختم کیا جائے۔
عمران خان کی تقریر سے پہلے لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ملک سے باہر علاج کے لیے بھیجنے سے پہلے ساڑھے سات ارب روپے کے بھاری بھرکم شورٹی بانڈ کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔
اگلے روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٓاصف سعید کھوسہ نے جواب ِشکوہ میں وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ کس طرح انہی عدالتوں نے دو سابق وزرائے اعظم کو نا اہل قرار دےکر گھر بھیجا تھا۔
تین دن تک حکومت اور اس کی قانونی مشینری کی کارکردگی پر جو گفتگو سپریم کورٹ کے کمرہ ِنمبر ایک میں ہوئی ،اس نے پورے ملک میں لوگوں کی تفریح طبع کے لیے بہت مواد فراہم کیا۔
بات صرف جنرل باجوہ کی تقرری اور توسیع کے طریقہ کار میں غلطیوں کی نہیں تھی۔ ایسی ایسی غلطیاں کی گئیں جن کا تصور بھی محال تھا۔ آخری دن تک یہ سلسلہ جار رہا۔
یہاں تک ہوا کہ وزیر اعظم ہاؤس سے صدر کو سمری تقرری کی بھیجی گئی جبکہ صدر نے سمری توسیع کی منظور کی۔ یہ تمام غلطیاں اس کے باوجود کی گئیں کہ عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ جنرل باجوہ کی توسیع کا فیصلہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کےساتھ ہی کر لیا تھا۔ یہ حال ہے اس فیصلے پر عمل درآمد کا ،جو پندرہ ماہ پہلے کر دیا گیا تھا۔
جمعرات کی صبح جب برف پگھلی اور عدالت نے نرمی دکھائی تو بہت سے حلقوں کی سانس میں سانس آئی، لیکن جو فیصلہ آیا اس نے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک طرف فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 243 ، آرمی ایکٹ اور آرمی ریگولیشنز میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور بعد از ریٹائرمنٹ از سرنو تعیناتی کی گنجائش نہیں ، لیکن نرمی اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے چھ ماہ تک انہیں کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے بشرطیکہ حکومت پارلیمان کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مناسب ترمیم اور آئین کے آرٹیکل 243 کی حدود کو واضح کرے اور یہ کام چھ ماہ کے اندر مکمل کرلے۔
اس حکم کا مطلب تو یہ ہوا کہ باوجود اس بات کہ کہ قانون اور آئین میں اس کی گنجائش نہیں، عدالت ایک قانونی استثنا پیدا کرتے ہوئے فوج کے سربراہ کی ان کے عہدے پر ریٹائرمنٹ کے باجود اجازت دیتی ہے۔
کئی قانونی ماہرین نے اس فیصلے کو نظریہِ ضرورت کو دوبارہ زندہ کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایک غیر قانونی تقرری کو ایک ایسے قانون کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے جو ممکنہ طور پر اگلے چھ ماہ کے اندر تخلیق ہوگا۔
اس فیصلے نے کئی اور سوالات کو بھی جنم دیا۔ مثال کے طور پر اگر عدالت نے موجودہ توسیع کو برقرار بھی رکھنا تھا تو ایک طرف غیر سنجیدہ درخواستیں دینے والے شخص، جس نے دوسرے دن اپنی درخواست واپس لینے کی خواہش بھی ظاہرکی تھی، کیس ختم کیا جاسکتا تھا اور مستقبل کے حوالے سے قانونی سقم دور کرنے کا مشورہ بھی دیا جا سکتا تھا۔
اور اگر نتائج کی پرواہ کیے بغیر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا مقصود تھا توعدالت سیدھا سیدھا حکم دے سکتی تھی کہ فوری طور پر فوج کے نئےسربراہ کا تعین کیا جائے۔
یہ کہنا کہ فوج کے موجودہ سربراہ کی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے ایک دن پہلے نئے سربراہ کے تعین کے حکم دینے سے کوئی بحران پیدا ہوتا، حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔
ہماری فوج کا نظام ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔حالیہ تاریخ میں جب جنرل ضیا کا 1988 میں اور جنرل آصف نواز جنجوعہ کا 1993 میں دوران فوجی سربراہی انتقال ہوا تو کسی قسم کا بحران پیدا نہیں ہوا۔
عام حالات میں بھی جب فوجی سربراہ ملک سے باہر ہو تو سب سے سینیئر جنرل ان کے امور نمٹاتا ہے، یہ عہدہ کبھی خالی نہیں رہتا۔ اس لیے یہ بات کرنا غلط ہے کہ اگر28 تاریخ کو عدالت وزیر اعظم کو حکم دیتی اور حکومت اس فیصلے میں ہفتہ بھر بھی لگاتی تو مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا۔ اس عرصے میں سب سے سینیئر جرنیل معاملات کو خوش اسلوبی سے چلا سکتا تھا۔ بحران کی باتیں صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو فوج کے نظام سے واقف نہیں ۔
فی الحال تو حکومت نے اس فیصلے کو بادل ناخواستہ قبول کر لیا ہے، لیکن دسمبر میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی رخصتی کے بعد حکومت کیا کرتی ہے وہ واضح نہیں ۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت جسٹس کھوسہ کی رخصتی کے بعد اس فیصلے سے متعلق جائزے کے لیے عدالت سے رجوع کرے۔
سب سے دلچسپ امر عمران خان کا رد عمل ہے۔ اپنی حکومت کی قانونی ٹیم کی نا اہلی تسلیم کرنے کے بجائے انہوں نے اپنی توپوں کا رخ حزب اختلاف کی طرف کردیا ہے۔
ان کے رد عمل نے بہت سے تجزیہ کاروں کو حیران کردیا ۔ توسیع کے عمل پر حزب اختلاف کی کسی جماعت نے اب تک کوئی منفی بیان دینے سے اجتناب برتا ہے ،پھر بھی عمران خان کی حزب اختلاف پر گولہ باری کا کیا مطلب ؟
حقیقت یہ ہے عدالت نے فوج کے سربراہ کی دوبارہ تقرری یا توسیع کا اختیار وزیر اعظم سے لےکر اس پارلیمان کو دے دیا ہے جس میں حکمران پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ۔
یہ وہ پارلیمان ہے جسے حکمران جماعت نے عملاً تالہ لگایا ہے اور حکومت آرڈیننس کارخانے کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ عمران خان کے اس رد عمل کے پیچھے عدالت کی طرف سے وزیر اعظم کے اختیار میں کٹوتی کی کسک شامل ہے۔
وزیر اعظم کے رد عمل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ اب دوبارہ تقرری اور توسیع کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے ، لہٰذا اب پارلیمانی عمل کی ساری ذمہ داری وزیر اعظم پر نہیں ۔
فوج اس پر کیا ردعمل دے گی، یہ دیکھنا باقی ہے لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو جنرل باجوہ کی دوبارہ تقرری چاہتے ہیں، وہ یہ ضرور سمجھیں گے کہ عمران خان ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں پارلیمان میں قانون سازی کا عمل نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائےگا۔
جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ ایک متنازع عدالتی فیصلے کے بعد سیاسی انتشار کم از کم اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک متعلقہ قانون سازی مکمل نہیں ہوجاتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج اور اس کے سربراہ سے متعلق بحث و مباحثہ اگلے کئی ماہ تک پارلیمان کے اندر اور باہر، ذرائع ابلاغ میں جاری رہے گا۔