اردو کا محاورہ ہے ’مرے پر سو درّے۔‘ پاکستانی سینیما کے لیے 2020 میں یہ محاورہ پوری طرح صادق آتا ہے کہ سینیما کی حالت پہلے ہی تباہی سے دوچار تھی کہ اسے کرونا (کورونا) نے دبوچ لیا۔
یاد رہے کہ فروری 2019 میں بھارت میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے پاکستانی سینیما گھروں میں بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس کے بعد پاکستانی سینیما کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جہاں سے ہر ہفتے اسے فلم مل سکے۔
پاکستانی سینیما کی بھوک اس کے احیا کے دنوں ہی سے بالی وڈ کی فلموں سے مٹائی جا رہی تھی اور اس دوران اگرچہ چند پاکستانی فلموں نے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی تاہم مجموعی طور پر ان کی تعداد اور خاص کر معیار وہ نہیں تھا، اس لیے وہ سینیما کی مانگ پورا کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ سال 2020 سے توقع تھی کہ یہ پاکستانی سینیما اور فلمی صنعت کے لیے اس لحاظ سے اچھا ثابت ہو گا کیونکہ اس میں پاکستانی تاریخ کی سب سے مہنگی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی نمائش عید الفطر پر طے تھی جبکہ عید الاضحیٰ پر ’قائدِ اعظم زندہ باد‘ اور ’لندن نہیں جاؤں گا‘ اور ’گھبرانا نہیں ہے‘ جیسی بڑی فلموں کی نمائش متوقع تھی۔
رواں سال جنوری میں پہلی پاکستانی فلم ’زندگی تماشہ‘ کی نمائش کی جانی تھی تاہم اس فلم پر بعض مذہبی حلقوں خصوصاً مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دھمکیوں کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا جس کے بعد یہ تاحال ریلیز نہیں ہو سکی ہے، اگرچہ پاکستان میں قائم آسکر ایوارڈ کے لیے کمیٹی، جس کی سربراہ شرمین عبید چنائے ہیں، نے اس فلم کو پاکستان کی جانب سے آسکر کی نامزدگی کے لیے منتخب کیا ہے۔
سال میں صرف ایک ہی فلم کا ’ریکارڈ‘
2020 میں صرف ایک ہی پاکستانی فلم ’ریکارڈ‘ 28 فروری کو سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی، یہ وہی تاریخ ہے جب پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا۔ یہ فلم چند نوجوانوں نے بنائی تھی اور اس کی پروڈکشن کا معیار بہت کم تھا۔ اس فلم کو ریلیز کرنے والے ادارے سنی پیکس کے جنرل مینیجر مرزا سعد بیگ کے مطابق یہ ایک تجرباتی فلم تھی جس سے زیادہ توقع نہیں تھی اور ایک ہفتے کی نمائش کے دوران اس فلم نے اتنا بزنس بھی نہیں کیا کہ اپنی ریلیز پر ہونے والا خرچہ ہی پورا کرپاتی۔
پاکستانی میں فلمی صنعت کا باقاعدہ آغاز ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پورے سال میں صرف ایک فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی۔
ڈرامے بڑی سکرین پر
اس سال کی ابتدا میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ جنوری میں اے آر وائی کے مقبول ترین ڈراما سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کی آخری قسط کی نمائش سینیما میں کی گئی اور دلچسپ امر یہ تھا کہ تمام کے تمام سینیما ہال مکمل طور بھرے ہوئے تھے۔
اس بعد ہم ٹی وی نے بھی رواں برس مارچ میں اپنے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ کی آخری قسط سینیما میں دکھانے کا منصوبہ بنایا تاہم اس سے پہلے ہی کرونا کی عالمی وبا کے سبب ملک بھر میں سینیما گھر بند کردیے گئے اور یوں مقابلے کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
ہالی وڈ بھی پھیکا رہا
2020 کے ابتدائی ڈھائی ماہ میں اگرچہ چند قابل ذکر ہالی وڈ فلمیں ضرور سینیما میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں مگر ان میں کوئی بھی بلاک بسٹر ثابت نہیں ہوئی، صرف ’انوزبل مین،‘ ’برڈز آف پرے‘ اور ’سانک‘ نے ہی کچھ قابل ذکر بزنس کیا۔
سینیما بند، ملازم بےروزگار
رواں برس 14 مارچ کو کرونا کی عالمی وبا کے سبب جو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا، اس کی زد میں سینیما بھی آئے اور مارچ کے وسط سے اگست کے وسط تک پاکستان میں سینیما کھولنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ اس دوران عید الفطر اور عید الاضحٰی بھی گزر گئیں۔ جب سینیما کھولنے کی اجازت ملی تو وہ بھی کرونا کی وبا کی وجہ سے محدود پیمانے پر تھی جس کے تحت صرف 40 سے 50 فیصد ہال ہی بھرا جاسکتا تھا۔
اس صورتِ حال میں ملک کے بیشتر سینیما مالکان نے اپنے سینیما بند رکھنے میں ہی عافیت جانی اور جن چند نے سینیما کھولے بھی تو ان کے پاس دکھانے کے لیے چند پرانی فلموں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند سینیما دوبارہ بند کر دیے گئے اور مالکان نے اچھے دنوں کی آس میں دن کاٹنے شروع کر دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران جو سب سے افسوس ناک پہلو رہا وہ سینیما سے وابستہ لوگوں کا بڑی تعداد میں بےروزگار ہونا تھا۔ انڈپینڈنٹ کے جائزے کے مطابق سینیما کی صنعت سے وابستہ اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد بےروزگار ہو چکے ہیں۔
ان میں سے اکثریت وہ ملازمین ہیں، جنہیں سینیما مالکان نے کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے فارغ کر دیا۔ سینیما مالکان کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ابتدائی چار مہینوں تک تو ملازمین کو تنخواہ دی جاتی رہی تھی مگر چونکہ کاروبار مکمل طور پر بند تھا تو ایسے میں کسی بھی ادارے کے لیے مستقل ملازمین کو رکھنا ممکن نہیں تھا۔
تاہم ملتان میں واقع ریکس سینیما کے مالک مسعود بٹ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے پاس آٹھ سکرینوں کے ساتھ 2500 افراد کی گنجائش ہے اور وہ کرونا کی وبا میں کسی نہ کسی طرح سینیما چلا رہے ہیں، تاہم آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس وقت ملازمین کی تنخواہیں جیب سے جا رہی ہیں، لیکن چونکہ یہ ان کا پرانا کام ہے اور ان کے ملازم عرصہ دراز سے ان کے پاس کام کر رہے ہیں اس لیے انہوں نے کسی کو ملازمت سے نہیں نکالا۔
وہ کہتے ہیں کہ اچھا وقت بھی دیکھا ہے اب برا بھی دیکھ لیں گے اور جب تک ہمت ہے سینیما چلائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی حکومت انجان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور انہیں کسی بھی بات کی سمجھ نہیں ہے، اس لیے وہ حکومت سے کسی بھی قسم کی مدد کی توقع نہیں کر رہے ہیں۔
مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ سینیما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سینیما مالکان کو امید ہے کہ آئندہ برس عیدالفطر سے کاروبار معمول پر آ جائے گا اور 2020 میں جو شدید نقصان ہوا ہے اس کا کسی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلموں کی بندش صرف مقامی نہیں بلکہ عالمی سطح پر تھی، اس لیے جب سینیما جب دوبارہ معمول کے مطابق کاروبار کر سکیں گے تو چند بڑی پاکستانی فلموں کے علاوہ متعدد ہالی وڈ کی فلمیں بھی قطار میں لگی ہوئی ہیں جیسے ’جیمز بانڈ،‘ ’فاسٹ اینڈ فیوریس،‘ ’بلیک وِڈو‘ جن کے بارے میں امید ہے کہ یہ باکس آفس پر اچھا پرفارم کریں گی۔
اس ضمن میں سنی پیکس کے جنرل منیجر ڈسٹری بیوشن مرزا سعد بیگ کا کہنا تھا کہ اب پاکستانی فلم سازوں کو اپنی فلموں میں مناسب وقفہ دینا ہو گا اور عید کے موقعے پر جو ہر پروڈیوسر فلم لگانے دوڑ پڑتا ہے اس کی جگہ بہتر شیڈول بنا کر فلمی صنعت اور سینیما کی بحالی کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔
2021 میں کون سی فلمیں آنے والی ہیں؟
اگر ہم اس وقت آنے والی چند بڑی پاکستانی فلموں کی بات کریں تو فواد خان اور حمزہ علی عباسی کی فلم ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘کی پروڈیوسر عمّارہ حکمت کے مطابق یہ فلم مکمل طور پر تیار ہے اور جب بھی موقع ملا اسے نمائش کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔
فہد مصطفیٰ اور ماہرہ خان کی فلم ’قائدِ اعظم زندہ باد‘ کی شوٹنگ تو جنوری میں مکمل ہو گئی تھی مگر اس کی پوسٹ پروڈکشن میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ تعطل آ گیا تھا۔ اس کی پروڈیوسر فضّہ علی مرزا کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر نمائش کے لیے تیار ہے۔
مہوش حیات اور ہمایوں سعید کی فلم ’لندن نہیں جاؤں گا‘ کی 70 فیصد عکس بندی مکمل ہو چکی ہے، تاہم اب اس کا وہ حصّہ جو لندن میں فلمایا جانا تھا ادھورا ہے اور برطانیہ کی موجودہ صورتِ حال میں وہاں جا کر فلم کی شوٹنگ ممکن نہیں، اس لیے یہ فلم ابھی کھٹائی میں پڑی ہے۔
دوسری جانب صبا قمر اور زاہد احمد کی فلم ’گھبرانا نہیں ہے‘ کی عکس بندی مارچ 2020 میں شروع ہوئی تھی اور صرف چار دن بعد ہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسے روکنا پڑا تھا۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب یہ فلم ایک بار پھر شروع ہو چکی ہے اور اب تک اس کا 80 فیصد سے زائد حصّہ فلمایا جا چکا ہے۔
توقع ہے کہ یہ 2021 میں عید الاضحیٰ پر سینیما گھروں کی رونق بن سکے گی۔
سال 2021 میں آنے والی ایک اور بڑی فلم ’دم مستم‘ ہے جسے عدنان صدیقی پروڈیوس کر رہے ہیں اور اس میں امر خان اور عمران اشرف مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ امر خان کا فنی سفر اگرچہ صرف تین برس پرانا ہے مگر ایسے میں ان کا ’بیلا پور کی ڈائن‘ میں ڈائن کا کردار خاص کر بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ امر خان نے یہ فلم خود لکھی ہے اور عدنان صدیقی اس فلم سے بہت پر امید ہیں۔