انڈونیشیا میں چین سے خریدی گئی کرونا (کورونا) ویکسین کی وسیع پیمانے پر مہم کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل ملک کی اعلیٰ ترین مسلم علما کونسل نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اس ویکسین کا استعمال اسلامی اصولوں کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔
دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں چین کی دوا ساز کمپنی ’سائنو ویک بائیوٹیک‘ سے حاصل کی گئی 30 لاکھ خوراکوں سے ملک بھر میں 13 جنوری سے ویکسینیشن کا عمل شروع ہونا ہے، تاہم اس سے قبل اس کے ’حلال‘ ہونے پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
انڈونیشیا میں اس سے قبل بھی ویکسینیشن پر اسی قسم کے تنازعات سامنے آ چکے ہیں۔ بشمول 2018 میں پیش آنے والے ایک تنازع کے جب انڈونیشین علما کونسل (ایم یو آئی) نے اپنے فتوے میں خسرے کی ویکسین کو حرام قرار دے دیا تھا۔
خوراک اور ادویات کو حلال سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے ایم یو آئی کے ایک عہدے دار مطیع ارنتاوتی نے بتایا: ’ہمارا ہدف ہے کہ ویکسین کے پہلے انجیکشن سے قبل ہی ہم (اس کے حلال یا حرام ہونے کا) فتویٰ جاری کر دیں۔‘
انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں کرونا کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، جہاں حکام ملک کو صحت اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے ویکسین پر انحصار کر رہے ہیں۔عوامی مزاحمت کے خطرے کے بارے میں پوچھے جانے پر وزارت صحت کے ایک عہدے دار نے کہا کہ حکومت ایم یو آئی کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔
قبولیت کو بڑھاوا دینے کے لیے صدر جوکو وڈوڈو نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے حفاظتی ٹیکہ لگوانے والے پہلے شخص ہوں گے۔ آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی کے محقق ڈکی بڈمین نے کہا کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے حکام کو حلال سرٹیفیکیشن کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چینی کمپنی سائنو ویک نے انڈونیشیا کی سرکاری دوا ساز کمپنی ’بائیو فارما‘ کو یقین دلایا ہے کہ اس ویکسین کی تیاری میں ’سور کے اجزا استعمال نہیں کیے گئے۔‘ بائیو فارما کے کارپوریٹ سکریٹری بامبنگ ہیریانٹو نے چینی کمپنی کا یہ بیان موصول ہونے کی تصدیق کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کو حلال سٹیٹس دینے کا فیصلہ ایم یو آئی نے کرنا ہے۔
دوسری جانب سائنو ویک نے فوری طور پر اس پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈونیشیا کی مرکزی دھارے میں شامل سب سے بڑی اسلامی تنظیم ’نہدلعطل العلما‘ کے ایک عہدے دار احمد اسماع الدین نے کہا کہ اگر کوئی اور متبادل نہ ہو تو ہنگامی حالات میں ایسی ویکسین بھی استعمال کی جاسکتی ہے جو حلال نہ ہو۔ جکارتہ کے جنوب میں ڈیپوک کے کچھ مسلمانوں نے اس رائے کی حمایت کی ہے۔
محمد فاریل نامی ایک طالب علم نے کہا: ’اگر واقعی اس ویکسین میں غیر حلال اجزا شامل ہیں اور ہنگامی حالات کے دوران کوئی متبادل دوا میسر نہ ہو تو یہ میرے مذہب کے مطابق جائز ہے۔‘ انڈونیشیا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی (بی پی او ایم) کو ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری درکار ہے۔
دوسری جانب پڑوسی مسلم ملک ملائیشیا میں مذہبی حکام نے اعلان کیا ہے کہ کووڈ 19 کی تمام ویکسینز مسلمانوں کے لیے جائز ہیں اور حکومت نے تمام افراد کے لیے اسے لازمی قرار دیا ہے۔
اگرچہ ملائیشیا میں کسی ویکسین کے لیے حلال سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں لکین حکام مسلمانوں کے خدشات دور کرنے کے لیے اس سال ایک سرٹیفیکیٹ فریم ورک متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔