پاکستان کا صوبہ سندھ بھی قدرت کی بے پناہ خوبصورتی سے مالامال ہے، البتہ لمحۂ فکریہ ضرور ہے کہ سندھ کی دیہی خوبصورتی کو کھوجنے کی جستجو نہیں کی گئی یا کم کی گئی۔
سندھ کے وہ خوبصورت کھیت و کھلیان اور باغات، وقت کی دوڑ میں وقت سے آگے تاریخی و قدیم سابقہ شہر موئن جو دڑو، دنیا کا واحد زرخیز صحرا صحرائے تھر، سندھ کی تہذیب، ثقافت، امن و مذہبی رواداری اور کہیں پر خوبصورت پانی کے چشمے، نہریں، تالاب اور جھیلیں۔
ایسی ہی خوبصورتی دامن میں سمیٹے ایک خوبصورت نیلے پانیوں والی جھیل بھی ہے جسے کلانکر کہتے ہیں۔
یہ جھیل صوبہ سندھ کے ضلع عمرکوٹ اور سانگھڑ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے چاروں اطراف بلند و بالا اونچے ریت کے ٹیلوں کا پہرا ہے، اور ان ٹیلوں کے بیچ بستی ہے یہ خوبصورت قدرت و فطرت کے عاشقوں کی نگاہ کی مرکز کلانکر جھیل۔ یہ عمرکوٹ کے شہر ڈھورونارو سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ عمرکوٹ جو خود ایک تاریخ رکھتا ہے، اور تاریخی طور پر مغل بادشاہ اکبر کی جنم بھومی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
تاریخی دریائے ہاکڑو کا تسلسل
کلانکر جھیل ہاکڑو دریا کا تسلسل ہے۔ ہاکڑو دریا جو کہ مٹی میں دب چکا۔ یہ دریا قلعہ عباس کے قریب دریا کا خشک ہوا خلیج ہے جو ہندوستان میں دریائے گگر کا تسلسل ہے۔ مسلسل تو نہیں، لیکن متعدد بار ہاکڑو نے کانسی کے دور میں ستلج اور گگر کا پانی سمیٹا۔ اس علاقے میں دریائے سندھ کی تہذیب کی بہت ساری ابتدائی بستیاں پائی گئی ہیں۔
ہاکڑو دریا تو خشک ہو چکا، لیکن وہ ان جھیلوں کی صورت میں اپنی عکس چھوڑ گیا جو آج بھی سندھ کے علاقوں خیرپور، نوابشاہ، سانگھڑ اور تھرپارکر میں پائی جاتی ہیں۔ دریائے گگر۔ ہاکڑا کے ساتھ ساتھ بہاولپور ضلع کے وسط سے جنوب کی سمت میں بہت سارے ابتدائی آثار قدیمہ موجود ہیں جن کا تعلق وادی سندھ کی تہذیب سے ہے۔
یہ گمان کیا جاتا ہے کہ سرسوتی ندی یہاں بہت ساری جھیلوں کے تسلسل میں ختم ہوئی۔ کچھ ماہرین کا یہ خیال ہے اس کا پانی شدید بارشوں کے موسموں میں دریائے سندھ یا سمندر تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سیٹلائٹ تصاویر اس کے برخلاف ہیں، وہ دریائے سندھ کے مغرب اور ہاکڑا کے اختتام میں دریائے سندھ میں دریائے سندھ کے درمیان ٹیلوں میں ذخیروں زیر زمین پانی نہیں دکھاتیں۔
پاکستان کے معروف ماہر آثارِ قدیمہ محمد رفیق مغل نے لکھا ہے کہ ہاکڑو دریا 1900 قبل مسیح تک خشک ہو چکا تھا، البتہ بعض ماہرین کے مطابق یہ دریا اس سے بھی پہلے خشک ہو چکا تھا۔ ہاکڑو کے خشک ہونے کی بنیادی وجہ بارشوں کا کم پڑنا بتائی جاتی ہے۔ جبکہ جنگلوں کی کٹائی بھی اس کے خشک ہونے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس جنوبی علاقے میں کلانکر اور اس طرح کی بہت ساری جھیلیں ہاکڑو کی یادگار ہیں، جس میں کلانکر سمیت دیگر مختلف جھیلوں کا ایک سلسلہ خیرپور سے شروع ہوتا ہے اور ضلع عمرکوٹ کے شہر چھور پر ختم ہوتا ہے۔ چھور میں پاکستان کی ایک چھاؤنی بھی واقع ہے، جس کا شمار پاکستان کی بڑی اور اہم ترین چھاؤنیوں میں ہوتا ہے۔
موجودہ وقت میں کلانکر جھیل تقریباً 70 فٹ گہری اور 800 ایکڑ سے بھی زائد کے رقبے پر محیط ہے۔
یہ جھیل ایک بڑے عرصے تک مقامی لوگوں اور حکومت کی طرف سے عدم توجہ کا شکار رہی۔ حال ہی میں مقامی لوگوں کی انتھک کوششوں اور محنت کے بعد حکومت سندھ کا دھیان اس طرف ہوا۔ حکومت سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت کی طرف سے یہاں پر سیاحوں کے قیام کے لیے ریزورٹ کی تعمیر کرایا گیا اور ایک کشتی بھی فراہم کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس جھیل کی جغرافیائی انفرادیت اس کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کر دیتی ہے۔ جھیل جانے والے دشوارگزار راستے طے کرنے کے بعد جب ابن آدم کی اس پر پہلی نظر پڑتی ہے گویا کہ یہ جھیل اس راستے کی ساری تھکان اور مشکل کو جذب کر دیتی ہے اور انسان کو ترو تازہ کر دیتی ہے۔
حال ہی میں پڑنی والی بارشوں میں پورے پاکستان بالخصوص پورے صوبہ سندھ سے سیاح اس جھیل کی خوبصورتی کی طرف مائل ہوئے۔ اس جھیل کی خوبصورتی میں حکومت اور مقامی لوگوں کی محنت کی وجہ سے اضافہ ضرور ہوا، لیکن ابھی بھی یہ جھیل کافی توجہ کی طلبگار ہے۔
اس جھیل تک پہنچنے کے لیے سیاحوں کی تقریباً چار کلومیٹر کا بیحد دشواگزار راستہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ حکومت سندھ اگر چاہے تو اس خوبصورت جھیل تک رسائی اور اس کے فطری حسن سے پرلطف ہونے کے لیے آسان راستے کی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔