ایک زمانہ تھا کہ جب عید سے کچھ روز پہلے پاکستان پوسٹ آفس کی طرف سے ایک مخصوص تاریخ کا اعلان کیا جاتا تھا کہ جس نے اپنے عید کارڈ پوسٹ کرنے ہی وہ فلاں تاریخ تک پوسٹ کر دے ورنہ مخصوص تاریخ کے بعد پوسٹ عید کے بعد منزل تک پہنچائی جائے گی۔
اب ایسا کوئی چکر نہیں ہے کیونکہ ایک تو پوسٹ آفس نے ایک دن میں ڈلیوری سروس متعارف کروا دی ہے لیکن جہاں تک عید کارڈ کی بات ہے تو اب لوگوں نے عید کارڈ پوسٹ کرنا تقریباً چھوڑ دیے ہیں۔
جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) لاہور میں لگے لال رنگ کے لیٹر باکس کو جب ڈاک اکٹھی کر کے ان پر مہریں لگانے کے لیے نعیم اختر نے کھولا تو اس میں رنگ برنگے یا سفید لفافے نہیں تھے جن میں عید کارڈز ہوں بلکہ سب کے سب دفتری ڈاک کے خاکی لفافے تھے۔ نعیم نے لفافے اپنے بیگ میں بھرے اور ان پر مہریں لگانے لے گئے۔
نعیم اختر 32 سال سے جی پی او میں کام کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ایک زمانہ تھا کہ عید کارڈ اتنے آتے تھے کہ لیٹر باکس کھولتے تھے تو وہ باہر گرتے تھے لیکن اب سوائے عام ڈاک کے کوئی اور ڈاک نہیں آتی۔‘
پوسٹ ماسٹر جنرل پنجاب ارم طارق نے انڈپینڈنت اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب لوگ عید کارڈز اس طرح پوسٹ نہیں کرتے جیسے پہلے وقتوں میں کیا کرتے تھے۔ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے یا واٹس ایپ کے ذریعے عید مبارک کہہ لیتے ہیں اور ظاہری بات ہے اس جدت کا اثر ہم پر بھی ہونا تھا۔
ارم کا کہنا تھا کہ بے شک اب کارڈز اس طرح پوسٹ نہیں ہوتے لیکن ان کی جگہ اب لوگ زیادہ تر تحفے بھیجتے ہیں۔
’صرف لاہور جی پی او کی بات کروں تو پچھلے مہینے یہاں 17 ہزار پارسل بک ہوئے جن کی تعداد عید سے پہلے 38 ہزار تک چلی گئی ہے۔ منی آرڈرز پچھلے مہینے 25 ہزار بھیجے گئے تھے جبکہ عید سے پہلے 52 ہزار 800 منی آرڈر لاہور جی پی او سے نکل چکے ہیں۔ بیرون ملک بھیجے جانے والے پارسلز گذشتہ ماہ 448 تھے لیکن اس مہینے 1600 پارسلز بک ہو چکے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارم نے بتایا کہ زیادہ تر عید کارڈز اب کارپوریٹ سیکٹر والے بھیجتے ہیں جیسے بینک یا دیگر ادارے یہاں تک کہ پوسٹ آفس خود بھی کارڈ بھیجتے ہیں کیونکہ کارپوریٹ سیکٹر والے ابھی بھی چاہتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ ایک کارڈ ان کے کلائنٹ کو جائے۔
لاہور کے رہائشی وقاص رئیس سے ہماری ملاقات جی پی اومیں ہوئی جہاں وہ تقریباً 14 کلو وزنی پارسل لیے پہنچے تھے۔
وقاص کے اس پارسل میں ان کی بہن کی عیدی تھی جسے وہ کراچی بھیجنے کے لیے آئے تھے۔
وقاص نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے جب عید کارڈ وغیرہ جاتے تھے تب ہم بھی بھیجا کرتے تھے لیکن اب چونکہ آن لائن کا زمانہ ہے تو ہم عید کی مبارک باد واٹس ایپ وغیرہ پر بھیج دیتے ہیں باقی رہ گئی عیدی تو وہ جیسے پہلے جاتی تھی ویسے ہی اب بھی جاتی ہے اسی لیے میں اپنی بہن کوعیدی بھیجنے آیا ہوں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیاں ہمارے ساتھ منا سکے۔‘
جی پی او آنے والے میاں وقاص کو بھی یہاں آ کر اپنا بچپن یاد آگیا۔ ان کا کہنا تھا: ’بچپن میں ہم ایک دوسرے کو کارڈز پوسٹ کیا کرتے تھے رشتے دار ہمیں بھیجتے ہم ان کو بھیجتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ چیزیں ختم ہوتی چلی گئیں۔ ہمیں اپنی ثقافت کو زندہ رکھنا چاہیے، آج پوسٹ آفس میں آیا تو میری بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں امید کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے سے پھر سے اسی طرح ملتے رہیں۔‘
ہماری ملاقات بلال آصف سے بھی ہوئی جنہیں عید کارڈز کا علم ہی نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’مجھے عید کارڈز کا معلوم نہیں ہے نہ کبھی میں نے کسی کو بھیجا نہ کسی نے مجھے کبھی بھیجا، ہم یا تو کال کر لیتے ہیں یا میسج کر کے عید مبارک کہہ دیتے ہیں۔‘
پوسٹ ماسٹر جنرل ارم طارق کا کہنا تھا کہ ’کاش عید کارڈ بھیجنے والا رواج واپس آئے کیونکہ اس جیسا پیار تو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اور اس میں جو خوشی ہوتی تھی اس سے موجودہ نسل لا علم ہے۔‘