اسرائیل میں دو سال سے بھی کم عرصے میں ہونے والے چوتھے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اپنی فتح کا دعویٰ کیا ہے لیکن یہودی قوم پرست رہنما کو دوبارہ اکثریتی حکومت بنانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل میں سب سے طویل عرصے تک اس عہدے پر فائز رہنے والےوزیر اعظم نتن یاہو نے امید ظاہر کی تھی کہ منگل کو ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں وہ 2019 کے بعد سے تین غیر یقینی انتخابات کے بعد بالآخر دائیں بازو کی جماعتوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں دنیا میں کرونا (کورونا) وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کی تیز ترین مہم کا حوالہ دیا جس کے تحت اب تک اسرائیل کی تقریباً 90 لاکھ آبادی میں سے نصف شہریوں کو اس وبائی مرض کی ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
اسرائیل کے تین سرکردہ نشریاتی اداروں کے ایگزٹ پولز کے مطابق نتن یاہو کی دائیں بازو جماعت لیکود 120 نشستوں پر مبنی اسرائیلی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔
اگر یہ پیش گوئیاں اس ہفتے کے آخر میں متوقع حتمی نتائج میں سچ ثابت ہوتی ہیں تو لیکود 30 یا 31 نشستیں جیت سکتی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ نتن یاہو کا سخت گیر اور مذہبی حامی کیمپ 50 سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتا ہے۔
لیکن نتن یاہو کی سربراہی میں دائیں بازو کے اتحاد کے لیے اقتدار تک پہنچنے میں واحد رکاوٹ ان کے سابق اتحادی نفتالی بینیٹ ثابت ہو سکتے ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کے مخالف بلاک میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا ہے۔
نتن یاہو نے منگل کے انتخابات کے متوقع نتائج کو اپنی جماعت لیکود کے لیے ’بڑی جیت‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’میں ان تمام منتخب عہدےداروں سے رابطہ کروں گا جو ہمارے اصولوں میں شریک ہیں۔ میں کسی کو بھی نظر انداز نہیں کروں گا۔‘
دوسری جانب ٹیلی ویژن کے سابق اینکر اور اپوزیشن لیڈر یائیر لیپد، جن کی سنٹرلسٹ یش اتید پارٹی کی لکود کے بعد سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی توقع ہے، نے دعوی کیا ہے کہ نتن یاہو کا مخالف بلاک حکومت سازی کے لیے اکثریت حاصل کر سکتا ہے۔
تل ابیب میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس وقت نتن یاہو کے پاس (حکومت سازی کے لیے مطلوبہ) 61 نشستیں نہیں ہیں۔‘
بدھ کی صبح تک ووٹوں کی گنتی جاری رہی اور یہ عین ممکن ہے کہ بینیٹ کی حمایت کے باوجود بھی نتن یاہو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر پائیں۔
لیپد نے کہا کہ انہوں نے پارٹی رہنماؤں سے بات کرنا شروع کردی ہے اور ’ہم نتائج کا انتظار کریں گے لیکن ہم اسرائیل میں ایک باشعور حکومت بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔‘
یہاں تک کہ اگر بینیٹ اپنی ممکنہ سات نشستوں کے ساتھ تکنیکی طور پر نتن یاہو کی حکومت کے لیے حمایت بھی کر دیں تو بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ دونوں رہنماؤں میں اتحاد قائم ہوجائے۔
دونوں رہنما ایک بار قریبی اتحادی تھے اور دونوں ہی سخت گیر اور جارحانہ نظریاتی روابط کو برقرار رکھتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کے تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے۔
مذہبی قوم پرست بینیٹ نے ایک ریلی میں حامیوں سے کہا: ’آپ نے جو طاقت مجھے دی ہے میں اسے صرف ایک رہنما اصول کے مطابق استعمال کروں گا اور وہ یہ کہ اسرائیل کے لیے کیا اچھا ہے۔‘
نتن یاہو پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں جن پر بدعنوانی کے الزامات کے باضابطہ الزامات عائد ہونے کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کو نہیں روکیں گے اور بے گناہ ثابت ہونے کے منتظر ہیں لیکن ناقدین کو شبہ ہے کہ اگر وہ اکثریت کے بعد حکومت بناتے ہیں تو وہ اس عدالتی عمل میں تاخیر یا خاتمے کے لیے پارلیمانی کارروائی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔