ضلع وہاڑی اور ضلع بہاولنگر کی سرحد پر ایک جنگل نما علاقہ ہے جہاں آبادی بہت کم ہے، کہیں کہیں ڈھاریاں (کچی مٹی اور گارے سے بنی چھوٹے چھوٹے عارضی مکان) دکھائی دیتی ہیں۔
تھانہ ساہوکا کا یہ وسیع و عریض جنگل دو اضلاع کی سرحد پر واقع ہونے کے باعث جرائم پیشہ افراد کا پسندیدہ ٹھکانہ تھا، چنانچہ اشتہاری مجرمان کے مختلف گروہ اسی جنگل کو اپنی آماج گاہ بنا کر آس پاس کے علاقوں میں وارداتیں کرتے تھے۔
اسی جنگل میں مرتضیٰ عرف مرتی ساہوکا کے گینگ نے بھی ٹھکانہ بنا رکھا تھا۔ مرتی ایک خطرناک اشتہاری مجرم تھا جو وہاڑی سمیت کئی اضلاع کی پولیس کو مطلوب تھا۔ اس کا گینگ پاک پتن، بہاولنگر، بہاولپور، وہاڑی اور ضلع خانیوال کے مختلف علاقوں میں قتل اور ڈکیتی کی متعدد وارداتوں میں مطلوب تھا۔
کم نفری، وسائل کی عدم دستیابی کے باعث پولیس وسیع و عریض جنگل نما اس علاقے میں آپریشن کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک دو مرتبہ ضلع وہاڑی اور بہاولنگر کی پولیس نے ساہوکا کے علاقے میں چھپے ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیے مگر اس میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
2001 میں مرتی ساہوکا گینگ ایک مرتبہ پھر متحرک ہو چکا تھا۔ ان کی ہے در پے وارداتوں کے باعث اس گینگ کے حوالے سے علاقہ مکینوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ اخباروں میں خبریں چھپتیں، دن بھر چوک چوراہوں میں مرتی گینگ اور اس کی وارداتوں کا تذکرہ زبان ہوتا، اور حسبِ معمول لوگ پولیس کی ناکامی اور نااہلی پر طرح طرح کے جملے کستے دکھائی دیتے۔
مُرتی گینگ کا سرغنہ مرتضیٰ عرف مرتی چونکہ اسی علاقے کا مستقل رہائشی تھا اس لیے وہاڑی پولیس پر دباؤ کا بڑھنا فطری بات تھی۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وہاڑی ڈاکٹر جمیل احمد نے اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس گینگ سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں بورےوالا سرکل کے تمام ایس ایچ اوز کی مشترکہ میٹنگ بلائی جس میں گینگ کے سرغنہ مُرتی ساہوکا کی گرفتاری کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی ایس پی بورےوالا کی قیادت میں سرکل کے تمام ایس ایچ اوز کو مُرتی گینگ کی ہنگامی بنیادوں پر گرفتاری کا کام سونپ دیا گیا۔ ڈی پی او وہاڑی ڈاکٹر جمیل اس سارے عمل کی خود نگرانی کر رہے تھے اور ڈی ایس پی بورےوالا سے روزانہ کی بنیاد پر پیش رفت کی رپورٹیں اور اپ ڈیٹس لی جا رہی تھیں۔
سب سے پہلے تو ہم نے مرتی کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ وہ کون ہے، اس کا ماضی کیا ہے، وہ کس طرح مجرم بنا، وغیرہ۔ اس دوران ایک بےحد دلچسپ بات سامنے آئی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ سفاک سے سفاک مجرم کے سینے میں بھی دل دھڑتا ہے۔
ساہوکا کے علاقے میں ایک ایسی خاتون کا پتہ چلا جو مبینہ طور پر مُرتی ساہوکا کی سابقہ منگیتر تھی۔ سن گن لینے سے معلوم ہوا کہ خاتون کے والدین نے مرتی ساہوکا کے مجرمانہ ریکارڈ کے باعث یہ رشتہ منسوخ کر کے خاتون کی شادی کسی مقامی کسان کے ساتھ کر دی۔
مرتی اس شادی سے دل برداشتہ نہ ہوا اور اس نے خاتون کے شوہر کو ڈرا دھمکا کر اسے مجبور کیا کہ وہ خاتون کو طلاق دے دے۔ اس کے بعد وہ خود زبردستی اس کے گھر آنے جانے لگا۔
اس وقت تک مرتی نامی گرامی ڈاکو بن چکا تھا۔ پورے ضلعے میں ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا تھا اس لیے خاتون نے بھی اس تعلق کو باامر مجبوری قبول کر لیا۔
مرتی ساہوکا ہفتے دو ہفتے کے بعد اس گھر کا ضرور چکر لگاتا تھا۔ وہ اشتہاری ملزم تھا لیکن اس کی دہشت کی وجہ سے کوئی بھی شخص اس کی مخبری کے لیے تیار نہ ہوتا۔ پولیس کو جب اپنے خفیہ مخبروں کی جانب سے مجرم کی موجودگی کی اطلاع ملتی تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی۔
ایس ایچ او ساہوکا نے بہت خفیہ طریقے سے اس خاتون سے رابطہ کیا اور اسے اعتماد میں لیا۔ پہلے تو اس خاتون نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ نہ جانے مرتی اس کے ساتھ کیا سلوک کرے، لیکن جب اس کا اعتماد بحال ہوا تو اس نے پولیس کا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی۔
حقیقت میں وہ خاتون خود بھی اس کے آئے روز کے گھر آنے جانے سے عاجز آ چکی تھی اور اس اشتہاری مجرم سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی۔
چنانچہ اس خاتون کو ایک نئی سم اور نیا موبائل سیٹ لے کر دیا گیا تاکہ وہ اس موبائل کے ذریعے پولیس کے ساتھ رابطے میں رہے اور پولیس مُرتی ساہوکا کی نقل و حرکت سے آگاہ رہ سکے۔
لیکن مُرتی ساہوکا نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ وہ نہایت ہشیار، چالاک اور پختہ کار مجرم تھا، اس لیے وہ اس خاتون کے گھر میں جانے اور اس خاتون سے ملاقات کے دن اور وقت تبدیل کرتا رہتا تھا۔
ایک اور احتیاط وہ یہ کرتا تھا کہ ملاقات سے پہلے اپنے کسی کارندے کے ذریعے گھر کے چاروں طرف کے محل وقوع کا جائزہ لیتا اور پھر اوکے رپورٹ ملنے پر ہی اس گھر میں داخل ہوتا۔
یہ تین /چار مرلہ اراضی پر بنایا ہوا دو کمروں پر مشتمل کچا مکان تھا جس کی چھت گھاس پھوس اور مقامی میٹیریل کی تیار کردہ تھی۔ گھر کے صحن میں پانی کا نلکا لگا ہوا تھا۔
دس محرم الحرام کو ڈی ایس پی بورےوالا کی جانب سے ایک فوری پیغام موصول ہوا جس کے مطابق آج کسی بھی وقت مُرتی ساہوکا کی علاقہ تھانہ ساہوکا میں اس مخصوص گھر میں آمد متوقع تھی۔
میری تعیناتی اس وقت بطور ایس ایچ او تھانہ گگو تھی جو تھانہ ساہوکا کا قریب ترین تھانہ تھا اور دونوں تھانے ایک ہی سرکل (بورےوالا) میں شامل تھے، لہٰذا مجھے اخلاقی طور پر بھی سب سے پہلے پہچنا تھا۔
کیونکہ 10 محرم کی وجہ سے اس وقت زیادہ تر نفری عاشورہ کے جلوسوں کے ساتھ سکیورٹی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھی لہٰذا انہیں اس حساس ڈیوٹی سے نکالنا کسی طور مناسب نہیں تھا کیوں کہ اگر وہاں خدانخواستہ کوئی واقعہ ہو جاتا تو الزام پولیس ہی کے سر آتا۔ چنانچہ میں باقی نفری کو جلوس کی ڈیوٹی پر چھوڑ کر اپنے دو گن مینوں اور تھانے میں ڈیوٹی پر مامور تین سپاہیوں کو ساتھ لیا اور ضروری اسلحہ لے کر ساہوکا کی جانب روانہ ہو گیا۔
خاتون کے گھر کے دائیں جانب خالی پلاٹ جبکہ بائیں جانب ایک اور مکان تھا، جسے فوری طور پر خالی کروا لیا گیا اور دو تین پولیس کمانڈوز کی ایک ٹیم سادہ لباس میں اس گھر میں داخل کر دی گئی اور یہ کام اس قدر رازداری سے ہوا کہ کسی کو کان و کان خبر نہ ہوئی۔
تمام نقل و حرکت فطری انداز میں ہو رہی تھی تاکہ کسی راہگیر کو بھی شک نہ گزرے۔
پولیس کے دو سپاہی برف گولہ اور چھلیاں بیچنے والوں کے روپ میں ریڑھیاں لگا کر اس راستے کے آس پاس ڈیوٹی دے رہے تھے اور اسلحہ ان کی ریڑھیوں کے نیچے چھپایا ہوا تھا تاکہ بوقت ضرورت اسے کام میں لایا جا سکے۔
ایس ایچ او ساہوکا مقامی ایس ایچ او ہونے کی وجہ سے اس سارے آپریشن کو آن گراؤنڈ لیڈ کر رہے تھے۔ تھانہ فتح شاہ کے ایس ایچ او چوہدری رضوان یوسف بھی اپنے گن مینوں کے ساتھ ہمیں جوائن کر چکے تھے۔
ہم سرکاری گاڑیوں کی بجائے ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعے اس مکان کے قریب پہنچے تھے تاکہ رازداری برقرار ہے۔ اتنے میں مخبر نے اطلاع دی کہ مکان کی عقبی دیوار سے گرم چاردر اوڑھے ہوئے ایک شخص اندر داخل ہوا ہے۔ غالب امکان یہی تھا کہ یہ مشکوک شخص مُرتی ساہوکا ہے لیکن اس بات کی تصدیق کے لیے ہمیں اس پلانٹ کی گئی خاتون کی جانب سے ’مِس کال‘ کا انتظار تھا۔
غروب آفتاب کا وقت ہو چکا تھا۔ اندھیرا تیزی سے چھا رہا تھا، ہم نے اس مکان کو چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا۔
اسی دوران اندر سے ایک برسٹ فائر ہوا اور گولیاں نلکے کے ساتھ اس طرح ٹکرائیں کہ جیسے شب برات کو پھل جھڑیاں چلتی ہیں۔ دیوار کی اوٹ میں چھپے ہمارے دو نوجوان اس فائرنگ کی زد سے بال بال بچے
اتنے میں وہ خاتون اچانک ہاتھ میں گلاس پکڑے کمرے سے نکل کر صحن میں لگے نلکے کی طرف آئی اور گلاس پانی سے بھر کر واپس پلٹتے ہوئے اس نے اچانک دروازے کی جانب دوڑ لگا دی۔ اسی دوران اندر سے ایک برسٹ فائر ہوا اور گولیاں نلکے کے ساتھ اس طرح ٹکرائیں کہ جیسے شب برات کو پھل جھڑیاں چلتی ہیں۔ دیوار کی اوٹ میں چھپے ہمارے دو نوجوان اس فائرنگ کی زد سے بال بال بچے لیکن وہ خاتون جان بچا کر بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔
اب ہم نے مکان کو چاروں طرف سے مکمل طور پر گھیر لیا تھا ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ اندر کمرے میں موجود شخص کوئی اور نہیں بلکہ مرتی گینگ کا سرغنہ مُرتی ساہوکا خود ہے اور اس کے پاس کلاشنکوف اور میگزینز اور گولیوں سے بھرے دو تھیلے موجود ہیں۔
مکان کے باہر لگے لکڑی کے دروازے کو ہم باہر سے کنڈی لگا کر بند کر چکے تھے۔ مکان کے باہر ٹریکٹر ٹرالی کھڑی کر راستہ مسدود کر لیا گیا۔
میں نے اپنے گن مین جان محمد جو کہ پنجاب پولیس کی طرف سے کبڈی کے کئی بین الاضلاعی مقابلے جیت چکا تھا، اور انتہائی دلیر اور ماہر نشانہ باز تھا، اس کی ڈیوٹی اس دروازے کے باہر لگائی تاکہ اگر اشتہاری مجرم گھیرا توڑ کر باہر کی طرف بھاگنے کی کوشش کرے تو بچ نہ پائے۔
اگلے لمحے جان محمد میری ہدایت پر ٹرالی کی اوٹ میں پوزیشن سنبھال چکا تھا۔
ایس ایچ او ساہوکا، میگا فون پر بار بار اناؤنسمنٹ کر رہے تھے اور مرتی ساہوکا کو ہدایت دے رہے تھے کہ وہ ہتھیار پھینک کر گرفتاری دے دے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ساہوکا کی جانب سے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں ہوا اور مکان کے اندر مکمل خاموشی چھائی رہی۔
اندھیرا بہت تیزی سے پھیل رہا تھا۔ ایک طرف دسمبر کی شدید سردی اور دوسری جانب کھلی جگہ ہونے کے باعث دھند اترنے کے خدشے کے پیش نظر ہم نے گھاس پھونس سے بنی ہوئی مکان کی چھت کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا تاکہ روشنی بھی ہو اور مجرم کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور بھی کیا جا سکے۔
ہم نے پولیس کی گاڑیاں بذریعہ وائرلیس اس مکان کے قریب منگوا لیں تھیں۔ اسی دوران پولیس لائن سے اضافی نفری سے بھری دو گاڑیاں بھی جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھیں۔
ہم نے ایک کانسٹیبل کی موٹر سائیکل سے پٹرول نکال کر اسے چھت کی ایک طرف پھینکا اور کنارے کو آگ لگا دی۔ دیکھتے ہی آگ کے شعلوں نے پوری چھت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
مُرتی ساہوکا کا کمرے کے اندر جہاں بھی تھا اب اس کے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔
اسی دوران اندر سے فائرنگ کی آواز برآمد ہوئی کچھ ہی دیر میں باہر کھڑی ٹرالی کے ساتھ گولیاں ٹکرانے کی آواز آئی۔ یہ یقیناً مجرم کی فائرنگ تھی کیونکہ اگر یہ فائرنگ ہمارے جوان کرتے تو اس کا رخ اندر کی طرف ہوتا۔
ہمارا خدشہ درست ثابت ہوا اگلے لمحے مُرتی ساہوکا لکڑی کے بیرونی دروازے کے ایک حصے کو توڑ کر، گھومتا ہوا، کلاشنکوف سے فائرنگ کرتا ہوا باہر نکلا۔ مکان کے باہر سڑک پر خطرے سے نابلد پولیس لائن سے آیا ہوا اضافی نفری کا ایک جوان، جو سگریٹ پینے میں مگن تھا اس اندھا دھند فائرنگ کی زد میں آ گیا۔
صرف پولیس کی اضافی نفری وقوعے پر نہیں پہنچی تھی، ساہوکا کے ساتھیوں کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ ان کا سرغنہ گھیرے میں آ گیا ہے اور وہ آن پہنچے تھے۔ کچھ فاصلے پر جنگل کے اندر سے گھوڑوں پر سوار ساہوکا کے ساتھی پولیس کو للکار رہے تھے اور اپنی موجودگی جتانے کے لیے وقفے وقفے سے ہوائی فائرنگ بھی کر رہے تھے۔
اس سے پہلے کہ وہ بدنام زمانہ اشتہاری مجرم مزید نقصان کرتا، ٹرالی کی اوٹ میں پوزیشن سنبھالے جان محمد کنسٹیبل نے یکے بعد دیگرے ایس ایم جی کے دو برسٹ اس کے جسم میں اتار دیے۔
برسٹ لگنے کے بعد وہ کئی فٹ ہوا میں اچھلا اور پھر وہیں زمین پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔
مُرتی ساہوکا کی لاش کو شناخت کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوایا گیا۔ اس کی تلاشی کے دوران اس کے پاس سے ایک روسی ساختہ کلاشنکوف، 30 بور پستول، ایمونیشن کے دو تھیلے، ڈیڑھ سو روپے اور ایمبیسی فلٹر سگریٹ کی ایک ڈبیا برآمد ہوئی۔
اس طرح وہ خطرناک ڈکیت، سفاک قاتل اور دہشت کی علامت سمجھا جانے والا مُرتی ساہوکا اپنے انجام کو تو پہنچا لیکن پولیس لائن سے آنے والی اضافی نفری کے ایک نوجوان کے جانی نقصان نے اس ساری کامیابی کی خوشی کو خاک میں ملا دیا۔
اس آپریشن کے دوران مجھے دو سبق ملے۔ ایک تو یہ کہ اس طرح کے خصوصی آپریشن کے دوران، صورت حال سے ناواقف اضافی نفری کو پولیس لائن یا گاردات سے منگوانے سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے۔
اور اگر بہت ضروری ہو تو انہیں آپریشن کی جگہ سے دور مناسب فاصلے پر رکھا جائے اور مکمل بریفنگ کے بعد انہیں جائے آپریشن پر بھجوایا جائے۔
میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اگر اس رات پولیس لائن سے آنے والی اضافی نفری کی گاڑیوں کو جائے وقوعہ سے کچھ فاصلے پر روک لیا جاتا تو شاید ایک پولیس اہلکار کی جان بچ جاتی۔