ایبٹ آباد کے رہائشی محمد اشفاق بچپن سے ہائیکنگ اور ٹریکنگ کرتے آ رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ہائیکنگ کے طریقوں میں بھی جدت آ رہی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان میں تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں جن کو ہم قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے نام سے جانتے ہیں تو میں نے تینوں سلسلوں میں ٹریکنگ کی ہوئی ہے۔ زیادہ میں نے ٹریکس ہندو کش میں کیے ہیں۔‘
محمد اشفاق نے کہا کہ جب کیمرے نہیں ہوتے تھے تو بس صرف چلے جاتے تھے اور گھوم کر کے واپس آجاتے تھے۔ اب اچھے کیمرے لے لیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شوٹنگ بھی شروع کر دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جھیلوں کی بات کریں تو ایک وہ عام جھیلیں ہیں جو سارے پاکستانی جانتے ہیں۔ جیسے سیف الملوک ہو گئی، لولوسر جھیل ہو گئی، رتی گلی ہو گئی، عطا آباد جھیل ہے، یہ وہ جھیلیں ہیں جن سے سارے پاکستانی واقف ہیں لیکن میں نے ان کے علاوہ دور افتادہ ہائی الپائن جھیلوں کا بہت دورہ کیا ہے۔ چاہے وہ چترال ہو، سوات ہو، گلگت بلستان کے مختلف اضلاع ہوں سکردو ہو، کشمیر ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مختلف ڈیمز ہیں جو قبائلی علاقوں میں ہیں جیسے بنوں، کوئٹہ، چکوال میں آبی ذخائر، جھیلیں اور ڈیمز ان کے پسندیدہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ویسے تو وہ سو سے زائد جھیلوں کا سفر کرچکے ہیں اور اعداد و شمار نہیں یاد رکھتے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ’2017 میں نے کوئی 52 جھیلیں (کا سفر) کی تھیں۔ ایک سال میں، وہ میں نے گنی تھی۔‘
’سادہ ٹریکنگ کے لیے کسی سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ نے مارگلہ کا ٹریل کرنا ہے، 80 فیصد ٹریلز وہ ہیں جہاں پہ آپ کو کوئی سپیشل سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے صرف جوتے اچھے ہونے چاہیے ٹریل شوز ہونے چاہیے۔ جن کو جو ہائی اینکل شوز بھی کہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر اپ کسی ایسی جگہ جاتے ہیں یہاں پہ سردی کا خدشہ ہے تو اپنے ساتھ جیکٹ رکھ لیں۔ جیسے کے ٹو ٹریک پہ آپ نے کرنا ہے تو اس کے لیے کریم کونز شوز کے نیچے لگتے ہیں جو لوہے کے ہوتے ہیں۔ یہ بس برف میں دھنس جاتے ہیں، آپ سلپ نہیں ہوتے پھر اپ کو روپس چاہیے ہوتی ہیں، جب آپ پاسز کراس کرتے ہیں تو وہ رسی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔‘