ہمیشہ جوان: کیا سائنس موت کو شکست دے سکتی ہے؟

بائیوٹیکنالوجی کی مدد سے اگلے دس برس کے دوران بڑھاپے پر قابو پانے میں بڑی پیش رفت کی توقع ہے۔ کیا اس جدید ترین تحقیق سے انسان کو ہمیشہ جوان رکھا جا سکتا ہے؟

 سائنس دانوں کے مطابق بڑھاپے پر ہونے والی تحقیق کا مقصد زندگی کے صحت مند دورانیے کو بڑھانا ہے (پیکسلز) 

دل کی بیماری، فالج، کینسر اور ڈیمینشیا وہ چار حملہ آور ہیں جو ہمارے خاتمے کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن ان سے انفرادی سطح پر مقابلہ کرنے کے بجائے بائیو ٹیکنالوجی کا تیزی سے پھیلتا ہوا شعبہ اس سازشی جنرل کے خلاف برسرپیکار ہے جو ان سب کو میدان جنگ میں اتارتا ہے یعنی بذاتِ خود بڑھاپا۔

 ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی سے نامطمئن ٹیکنالوجی کے ارب پتی مالکان موت کو روکنے کے لیے بڑھتی ہوئی عمر کی رفتار پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یوری ملنر کے ساتھ مل کر اور امریکہ کی آلٹوس لیبارٹری میں خلیوں کو ازسرِ نو جوان بنانے کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے جیف ہیزوس حال ہی میں سلیکون ویلی کی ان دیو قامت شخصیات کی بھیڑ کا دوبارہ حصہ بنے ہیں جو ہماری بیالوجی کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 پے پیل کمپنی کے شریک بانی پیٹر ٹیل اور اوریکل کے لیری ایلیسن پہلے سے میدان میں ہیں، جبکہ گوگل 2013 میں ہی بڑھاپے پر قابو پانے کے لیے اپنے ذیلی ادارے کیلی کو کے قیام سے واضح طور پر ہراول دستے کا سوار ٹھہرتا ہے۔

 یہ دیکھتے ہوئے کہ بڑھاپے پر قابو پانے کی سائنس میں اگلے عشرے کے دوران بڑی پیش رفت متوقع ہے، ’جیرو سائنس بائیو ٹیکنالوجی‘ کا نیا شعبہ جرات مند سرمایہ کاروں کی نئی لہر کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے جو اپنی سرمایہ کاری کی جلد واپسی کا ادراک کر رہے ہیں۔  

لیکن ایک ایسی پُرعزم نئی دنیا کے سماجی اور اخلاقی مضمرات کیا ہیں جو جیف ہیزوس کو اپنی جوانی کا دورانیہ بڑھانے کی چھوٹ دے سکتی ہے جبکہ عام لوگ مائل بہ زوال ہو رہے ہیں؟

 کمپیوٹیشنل بائیولوجسٹ اینڈریو سٹیل اس عمومی غلط فہمی کی وضاحت کرتے ہیں کہ لمبی عمر، ردِ بڑھاپا تحقیق کا ضمنی نتیجہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد عمر کے صحت مند دورانیے اور ان برسوں کو بڑھانا ہے جن میں ہم صعیف کر دینے والی بیماریوں سے دور ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’مختلف قسم کے کینسر، امراض قلب اور فالج پراکسی وارز ہیں اور بالعموم ان سب کی وجہ بڑھاپا ہوتا ہے۔‘

طبی تحقیق کے لیے شفاف حکومتی فنڈنگ کے لیے آواز اٹھانے والے تجربہ کار ماہر کے طور پر سٹیل کو اس بات کا یقین ہے کہ موجودہ ماڈل کی ترجیحات بالکل غلط ہیں۔ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ برطانوی حکومت کینسر سے متعلق تحقیق کے لیے سالانہ فی شہری کے حساب سے 2.80 پاؤنڈ فنڈ جاری کرتی ہے۔ کینسر وہ بیماری ہے جو ہم ہر تین افراد میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہم ردِ بڑھاپا تحقیق پر کتنا خرچ کرتے ہیں تو کسی کو پتہ نہیں ہو گا۔

’بڑھاپے کو محض طب کے شعبے تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر چیز اس کے زیر اثر آتی ہے۔ یہاں تک کہ ماہرین حیاتیات اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ آپ بائیو کیمسٹری کی پوری ڈگری اس موضوع پر کوئی لیکچر لیے بغیر کر جاتے ہیں۔ میں اس شعبے سے متعلق آگاہی پھیلانا چاہتا ہوں جو دنیا میں انسانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر تک نہیں سمجھتے۔

’میں ابھی 36 سال کا ہوں، سو اگلے برس تک میری موت کا امکان 100 کی نسبت ایک ہو گا۔ 90 سال کی عمر میں کم ہو کر یہ خطرناک حد پر پہنچ چکا ہو گا کیونکہ موت کا امکان چھ کی نسبت ایک ہو گا۔ ہماری موت کے امکانات ہر آٹھ سال میں دگنے ہو جاتے ہیں۔ لیکن خطرے میں ایک تسلسل کے ساتھ اضافے کا سبب بننے والی وہ عالمگیر چیز کیا ہے جو پہلے کمزوری اور پھر موت کا سبب بنتی ہے؟‘ 

یہ وہ سوال ہے جس نے سٹیل کو آکسفورڈ میں فزکس پی ایچ ڈی سے کمپیوٹیشنل بائیولوجسٹ کے طور پر ایک نئے کیریئر کے طرف جانے پر مجبور کیا، جو وسیع مواد میں ان خطوط کی تلاش کر رہے تھے جو بڑھاپے کا راز افشا کر سکتے ہوں۔

خوب داد و تحسین سمیٹے والی 2021 کی اپنی کتاب ’ایج لیس: دی سائنس آف گیٹنگ اولڈر ود آؤٹ گیٹنگ اولڈ‘ (Ageless: The New Science of Getting Older Without Getting Old) میں سٹیل ایک متاثر کن نظریہ قائم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کینسر کی دو سو سے زائد اقسام کے علاج کو بہتر بنانے کے بجائے تحقیق کی توجہ ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان پر مرکوز ہونی چاہیے جو ان سب کی بنیاد بنتا ہے۔ بڑھتی ہوئی عمر سے وابستہ دائمی سوزش جو انہیں شہ دیتی ہے، اور بتدریج کمزور اور ناکارہ ہوتا ہوا مدافعتی نظام جس کے سبب کینسر کو جڑ پکڑنے کا موقع ملتا ہے۔

بڑھاپے کی نو معروف نشانیاں ہیں جن میں سٹیم سیل کی کمزوری، مائٹوکانڈریا میں خرابی، خلیوں کی توڑ پھوڑ، اور ٹیلو میر کا گھِس کر ختم ہو جانا زیادہ مشہور ہیں۔

جب میں نے ڈاکٹر سٹیل سے پوچھا کہ اگلے عشرے کے دوران کس شعبے میں بڑی پیش رفت کا امکان ہے تو وہ بہت واضح تھے۔ ’یہ یقینی طور پر فرسودگی یا  senescence ہے۔ جب بوڑھے خلیے تقسیم ہونا بند کر دیتے ہیں تو وہ فرسودہ بن کر مالیکیولز کا زہریلا مادہ پیدا کرتے ہیں جو جسم میں پھیل جاتا ہے۔ چوں کہ نوجوانوں کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے سو وہ اس زہر سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن بوڑھے لوگوں میں زہریلے مادے ٹشوز میں جمع ہو کر نقصان دہ سوزش کا سبب بن جاتے ہیں۔‘

سٹیل سینولیٹک ادویات (Senolytic drugs) کی نئی قسم کے بارے میں بہت پرجوش ہیں جنہیں چوہوں پر تجربات میں سوزش اور بڑھاپا کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔ ’چوہے حیاتیاتی طور پر زیادہ جوان، گول مٹول اور طاقتور ہو جاتے ہیں، دوڑنے والی مشین پر وہ تیز دوڑنے لگتے ہیں اور ان کی سوجھ بوجھ بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ دراصل وہ بہت شاندار نظر آتے ہیں۔‘

دنیا بھر میں تقریباً 30 جیرو سائنس کمپنیاں سینولیٹک ادویات تیار کر رہی ہیں۔ وہ پھیپھڑوں کے فائبروسس اور جوڑوں کی بیماری آسٹیو آرتھرائٹس جیسی بیماریوں کا موثر علاج کرتے ہوئے اس نظریے کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے پرامید ہیں جو عالمگیر اینٹی ایجنگ دوا کے اجازت نامے کا راستہ ہموار کرے گا۔

فی الحال ردِ بڑھاپا ادویات دستیاب نہیں ہیں تو پھر ہم کیسے جسم کو ان سوزش پیدا کرنے والے مادوں سے بچا سکتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بھوکا رہنے یا خوراک محدود کرنے سے مچھلیوں اور چوہوں میں عمر کے دورانیے میں قابلِ قدر اضافہ ہو جاتا ہے کیوں کہ اس طرح ٹشوز کے اندر آٹو فیجی‘ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔’

لفظی ترجمہ کیا جائے تو آٹوفیجی کا مطلب ہے خود خوری، یعنی خود کو کھانا۔ بیالوجی میں اس کا مطلب صاف کرنے کا عمل ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب ’بھوکے‘ خلیوں کو تازہ گلوکوز کی فراہمی معطل کر دی جاتی ہے اور اس کے بجائے وہ خلیوں کو ’ری سائیکل‘ کرتے ہوئے اسے کھانے لگتے ہیں جس سے بڑھاپے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زہریلے مادوں کی مقدار کم ہوتی ہے۔

طویل عمری کی بات کرنے والی برادری میں بہت سے بااثر لوگ غذا محدود کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں حیاتیات اور جینیات کے پروفیسر ڈیوڈ سنکلیئر کا کہنا ہے کہ یہ اہم نہیں کہ آپ کیا کھاتے ہیں بلکہ یہ کہ کب کھاتے ہیں۔

 شام کے اوائل میں کیلوریز کی بھاری مقدار لے کر وہ ناشتہ بلکہ کبھی کبھار دوپہر کا کھانا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح سنکلیئر اس چیز کی مشق کر رہے ہیں جسے وہ لو بلڈ شوگر کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔

سنکلیئر بالکل جوان نظر آتے ہیں: 53 برس کے ہونے کے باوجود پہلی نظر میں وہ آرام سے یہی کوئی 30 کے قریب کے لگتے ہیں۔

لیکن یہ ایک متنازع نقطہ نظر ہے خاص طور پر اس لیے کہ ماہرین وقت کی طوالت پر متفق نہیں ہو سکتے، آٹوفیجی کی موثر حالت پیدا کرنے کے لیے انسان جیسے بڑے میملز کو بھوک رہنا پڑے گا۔ 

سٹیل مکمل غذائی پابندیوں کا مشورہ دینے سے اجتناب کرتے ہیں کہ ’انسان پر ہونے والے تجربات میں شریک کئی افراد کو اس لیے واپس ہٹنا پڑا کہ انہیں خون کی کمی یعنی انیمیا ہونے لگا تھا اور کسی حد تک اس سے ہڈیاں کمزور ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں۔ تجربات میں شریک کئی افراد نے مستقل طور پر سردی محسوس کرنے کی شکایت کی اور یقیناً ایک مسئلہ مستقل بھوک کا ہے جس کی عادت بعض لوگ کبھی نہیں ڈال سکتے۔‘

کاش کوئی ایسی دوا ہوتی جو باآسانی بھوک کا کردار ادا کرتے ہوئے خون میں شوگر کی مقدار کم کرتی اور اینٹی ایجنگ فوائد سمیت آٹوفیجی کا عمل متحرک کرتی۔ ممکن ہے ایسا ہو۔

میٹ فارمن Metformin نامی دوا کو کئی دہائیوں سے ٹائپ 2 ذیابیطس کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس نے پہلی بار توجہ اس وقت کھینچی جب سائنس دانوں نے دیکھا کہ جن مریضوں نے اسے اپنی دائمی مرض کے علاج کے لیے استعمال کیا وہ ان لوگوں کی نسبت زیادہ عرصہ زندہ رہے جنہیں کبھی ذیابیطس تھا ہی نہیں۔

میٹ فارمن خون کی گردش کے دوران پیدا ہونے والے اضافی گلوکوز کی مقدار کو محدود کرتے ہوئے بلڈ شوگر کم کرتی اور آنتوں میں کاروبوہائیڈریٹ کے انجذاب کو روکتی ہے۔ یہ جگر کے نئی گلوکوز کی پیداوار کو بھی روکتی ہے۔

اگر کوویڈ سے متعلق ٹرائلز کا جھنجھٹ نہ پڑتا تو TAME نامی ٹرائل (Targeting Ageing with Metformin کا مختصر نام) ابھی تک کسی نتیجے پر پہنچنے والا ہوتا۔ ایک بے ترتیب ڈبل بلائنڈ ٹرائل ہے جس میں پلیسیبو بھی شامل ہے، اور یہ پچھلے چھ سال سے جاری ہے۔ سو بہت جلد ہم جان لیں گے کہ آیا میٹ فارمن استعمال کرنے والے 15 سو مریض کینسر، امراض قلب اور ڈیمینشیا جیسی بڑھاپے سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کا دوسرے زیر نگرانی متوازی گروپ کی نسبت کم شکار ہوتے ہیں۔

 جب ایک دوا سے بہت سارے فوائد برآمد ہو رہے ہوں تو اس عنصر کی نشان دہی کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا جو کامیاب نتائج کا سبب ہوتا ہے سو اسی گو مگو کا شکار تجرباتی معالجین اسے ’ڈرٹی ڈرگ‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے!

اینٹی ایجنگ کی اصطلاح میں سٹیل کے مطابق میٹ فارمن ’بالکل غلیظ دوا‘ (absolutely filthy drug) ہو سکتی ہے۔

 میٹ فارمن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نہ صرف آٹوفیجی میں اضافے کا سبب بنتے ہوئے بڑھانے کے اثرات کم کرتی ہے بلکہ سٹیم سیل کو کمزور ہونے سے بچاتی اور کروموسومز کے سروں (telomeres) کو اکھڑنے سے باز رکھتے ہوئے ڈے این اے کو نقصان سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایسا بھی مانا جاتا ہے کہ یہ این اے ڈی کی سطح کو بلند رکھتی ہے، ایک مالیکیول جو سیلیولر اور پورے حیاتیاتی نظام میں توانائی کے اخراج کو کنٹرول کرتا ہے۔

 چاہے میٹ فارمن استعمال کرنے کے فوائد معمولی اور عمر میں اضافہ برسوں کے بجائے مہینوں پر محیط ہو مگر سٹیل وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں TAME ٹرائل طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

میٹ فارمن نہ صرف سوچنے کا انداز بلکہ نگرانی کے طور طریقے بھی بدل سکتی ہے۔ اِس وقت آپ بڑھاپے کو روکنے کے لیے کوئی دوا استعمال کرنے کی اجازت حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) بڑھاپے کو بیماری تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن TAME ٹرائل نے ایف ڈی اے کے ساتھ مل کر ضوابط طے کرنے کے لیے کام کیا ہے جو اسے اینٹی ایجنگ کے لیے منظور شدہ پہلی دوا بننے کا موقع فراہم کرے گا اور یہ مستقل میں اینٹی ایجنگ ادویات کی منظوری کے لیے ایک نمونہ ہو گا۔‘

 ایسا لگتا ہے ردِ بڑھاپا ادویات کی نئی اقسام اس نئی پیش رفت کا سب سے پہلے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گی۔

کیوں کہ کافی مدت گزرنے کے بعد اب اس کے مالکانہ حقوق کا مسئلہ نہیں رہا سو میٹ فارمن کے جینیاتی ورژن بآسانی بڑے پیمانے پر تیار کیے جا سکیں گے۔ مالکانہ حقوق کی بندش سے آزاد ایک اور پرانی دوا ریپامائسین rapamycin نے بھی کافی توجہ سمیٹی ہے۔ اگرچہ یہ ممکنہ طور پر مدافعتی نظام کو کمزور کرنے والی نقصان دہ دوا ہے جو گردے کی پیوندکاری میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتی ہے لیکن ریپامائسین کی نسبتاً محفوظ، ہلکی خوراکیں  جانوروں کے ٹرائلز میں عمر کا دورانیہ بڑھانے کے لیے بھی کارگر ثابت ہوئی ہیں۔

سٹیل وضاحت کرتے ہیں کہ بڑھاپے کے خلاف تحقیق انتہائی مہنگی اور ناقابل عمل ہوا کرتی تھی کیونکہ سیدھے سیدھے الفاظ میں سائنس دانوں کو معنی خیز مواد کے حصول کے لیے شرکا کی موت کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ چوہوں کی نسبت انسانی زندگی بہت زیادہ طویل ہوتی ہے سو یہ اچھی خاصی مصیبت تھی۔

ایک چیز ہے جسے کہتے ہیں ایپی جینیٹک کلاک epigenetic clock۔ یہ ایسا ٹیسٹ ہے جس کی مدد سے آپ کسی کے جسم میں بڑھاپے کے اثرات ناپ سکتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کی حالیہ ترقی، ڈی این اے کی ہوبہو بائیوکیمیکل ایجنگ، کا مطلب ہے کہ اب ہم کسی مریض کی موت کا انتظار کیے بغیر ٹرائلز کے دوران ہی عمر بڑھنے کی شرح پر دوا کے اثرات کا پتہ لگا سکتے ہیں۔

ایپی جینیٹک کلاک ردِ بڑھاپا تحقیق کی رفتار میں اضافے کا باعث بنے گی جس کا ایک بار پھر سینولیٹک ادویات فائدہ اٹھا لے جائیں گی۔

سٹیل کا خیال ہے کہ اگر آپ موت کے دہانے پر نہیں کھڑے تو ہر شخص آئندہ عشروں میں ردِ بڑھاپا تحقیق سے ممکنہ طور پر مستفید ہو گا لیکن اپنی کتاب میں متنبہ کرتے کہ یہ فوائد محض ضمنی ہوں گے: ’بڑھاپے کا علاج مختلف علاجوں کا مجموعہ ہو گا جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرے گا، مختلف ٹیکنالوجیز کا ایک سلسلہ جو بتدریج متوقع عمر بڑھاتے ہوئے اس مقام تک جا پہنچے گا جہاں لوگ محسوس کریں گے کہ انہوں نے بڑھاپے کے آگے بند باندھ دیا ہے، نہ کہ انفرادی طور پر کسی عبقری کی بصیرت افروز دریافت کے نتیجے میں سامنے آنے والی کوئی جادوئی گولی۔‘ 

درایں اثنا سٹیل بڑھاپے سے بچنے کے لیے اپنا بہترین مشورہ کتاب کے ایک باب میں پیش کرتے ہیں جس کا نام ہے ’How to live enough to live even longer‘: سگریٹ نوشی سے اجتناب کریں، سبزیوں پر مشتمل کم کاربوہائیڈریٹ والی غذا کھائیں، وزن نہ بڑھنے دیں اور اچھی نیند لیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت ورزش کی ہے۔ سٹیل حکمت سے بھری اسی بات کو دہراتے ہیں جو حالیہ برسوں میں طبی سائنس کا منتر بن چکی ہے ’اگر ورزش کوئی دوا ہوتی تو یہ مہنگا ترین طبی نسخہ ہوتا۔‘

جہاں تک بڑھاپے پر قابو پانے کا تعلق ہے تو ان فوائد کے اعتبار سے ورزش ممکنہ طور پر ’غلیظ ترین‘ دوا ہوتی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ورزش نہ صرف پٹھوں کے خلیوں میں فرسودگی اور سوزش کم کرتی ہے بلکہ ٹیلومیئر کی لمبائی، سٹیم سیلز اور مائٹوکانڈریا کو بھی طاقتور کرتی ہے۔

سلیکون ویلی کے ارب پتیوں کی کوششوں کے علاؤہ بھی اینٹی ایجنگ ایک کاٹیج انڈسٹری بن چکی ہے جس میں نام نہاد بائیو ہیکرز کی فوج نہ صرف تازہ ترین پیش رفتوں کو نہایت قریب سے دیکھ رہی اور میٹ فارمن، ریپامائسین اور دیگر متعلقہ مواد پر تجربات کر رہی ہے بلکہ غذائی اجزا اور طرز زندگی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے بڑھاپے کی رفتار کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اب ایک کمپیوٹیشنل بائیولوجسٹ سٹیل وسیع مواد اکٹھے کرنے کے مواقع کھونے کا افسوس کرتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ کاش بائیو ہیکرز کی کوششوں کو کنٹرولڈ ٹرائل کے ڈھانچے میں کسی طرح بخیر و خوبی منظم کیا جا سکتا۔

اگرچہ سٹیل (ابھی) کسی اینٹی ایجنگ دوا کا استعمال نہیں کر رہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ مڈل ایج کے اگلے مراحل میں پہنچے ہوئے لوگ کیوں بڑھاپے کو روکنے کے لیے کوئی بھی چیز استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ 65 برس کے ہو جائیں گے تو ان کے خیال میں وہ بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ اس وقت آپ کے پاس کھونے کے لیے بہت کم اور پانے کے لیے کافی کچھ ہوتا ہے۔

  موجودہ صورت حال میں اوسطاً ایک بزرگ شہری 80 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک دوسرے سے جڑی پانچ الگ الگ بیماریوں میں مبتلا ہو چکا ہوتا ہے، عمر کی آخری دہائی میں بے توقیری اور محتاجی کی ایسی کیفیت الگ ہے جس میں اپنے پیارے تو دور آپ اپنے کسی بدترین دشمن کو بھی نہیں دیکھنا چاہیں گے۔

اس وقت جس طرح مہم جو سرمایہ دار تحقیق کا سلسلہ آگے بڑھا رہے ہیں سٹیل بہت شکرگزار ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ کسی مرحلے پر بڑھاپے کی روک تھام کے لیے حکومت کو آگے بڑھ کر طبی شعبے میں ’انقلابی جست‘ کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہوئے ذمہ داری اٹھانا ہو گی۔

 ’ممکن ہے یہ بات بہت معمولی محسوس ہو لیکن میں لوگوں کو اکلوتا سب سے اہم مشورہ یہی دے سکتا ہوں کہ اپنے ارکان اسمبلی کو لکھیں اور اینٹی ایجنگ ریسرچ کو لوگوں تک پہنچائیں۔ یہ واحد سب سے اہم چیز ہے جو آپ اپنے پیاروں کی صحت بہتر بنانے اور خوشی کے لیے کر سکتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس