’زحل کے 128 نئے چاند:‘ ماہرینِ فلکیات کی حیرت انگیز دریافت

سورج سے چھٹے سیارے زحل کے اب کل 274 چاند ہیں جو نظام شمسی کے کسی بھی سیارے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

یہ ہینڈ آؤٹ تصویر سات فروری، 2024 کو اینیمیا سٹوڈیو - آبزرویٹری ڈی پیرس - پی ایس ایل، آئی ایم سی سی ای کی جانب سے جاری کی گئی، جو نظام شمسی میں موجود پانچ برفیلے چاندوں کو دکھاتی ہے جن میں مائع سمندر موجود ہیں اور جن میں 400 کلومیٹر قطر والا میمس (C) بھی شامل ہے، جو زحل کے چھوٹے چاندوں میں سے ایک ہے (فریڈریک ڈوریلون / اینیمیا سٹوڈیو | آبزرویٹری ڈی پیرس - پی ایس ایل، آئی ایم سی سی ای / اے ایف پی)

رواں ہفتے سیارہ زحل کو باقاعدہ طور پر 128 نئے چاند مل گئے جب انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین نے تائیوان کی اکیڈیمیا سینیکا میں ایڈورڈ ایشٹن کی سربراہی میں فلکیات دانوں کی ایک ٹیم کی ان دریافتوں کو تسلیم کر لیا۔ 

سورج سے چھٹے نمبر پر موجود اس سیارے کے چاندوں کی کل تعداد اب 274 ہو گئی ہے جو نظام شمسی کے کسی بھی سیارے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
 
یہ دریافت کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ چاندوں کو دیکھا کیسے جاتا ہے اور یہ پہلے کسی کو نظر کیوں نہیں آئے؟ کیا مشتری کے سب سے زیادہ چاند نہیں تھے؟ 
 
ان سب چاندوں کے نام کیا رکھے جائیں گے؟ کیا مزید چاند بھی باہر کہیں موجود ہیں؟ اور آخر کسی چیز کو چاند کہنے کا معیار کیا ہے؟
 
یہ نئی دریافتیں زحل کو نظام شمسی میں چاندوں کی دوڑ کا واضح فاتح بنا دیتی ہیں، کیوں کہ اس کے تصدیق شدہ چاندوں کی تعداد باقی تمام سیاروں کے چاندوں سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
 
مشتری کے چار بڑے چاند یعنی آئیو، یوروپا، گینی میڈ اور کیلسٹو، وہ پہلے چاند تھے جو کسی اور سیارے کے گرد گردش کرتے ہوئے دریافت کیے گئے۔ 
 
یہ چاند اطالوی ماہر فلکیات گیلیلیو گیلیلی نے 1610 میں، یعنی 400 سال سے بھی پہلے دریافت کیے۔ زحل کا پہلا معلوم چاند ٹائٹن 45 سال بعد ڈچ ماہر فلکیات کرسچین ہائیگنز نے دریافت کیا۔
 
زحل کے نئے 128 چاندوں کی دریافت ’کینیڈا، فرانس، ہوائی‘ دوربین سے حاصل شدہ تصاویر کے ذریعے کی گئی۔ زحل کے کچھ دیگر چاند خلائی مہمات کے دوران دریافت ہوئے جب کہ کچھ اس وقت دریافت ہوئے جب زحل کے حلقوں کو زمین سے اس زاویے پر دیکھا جا سکتا ہے جسے ’رِنگ پلین کراسنگ‘ کہا جاتا ہے۔
 
جب خلائی جہاز وائجر ون زحل کے قریب سے گزرا تو اس نے جو تصاویر لیں اُن کی مدد سے چاند کا اٹلس دریافت کیا گیا۔ بعد میں کاسینی مشن کے دوران زحل کے سات مزید نئے چاند دریافت ہوئے۔
 
رِنگ کراسنگ وہ لمحہ ہوتا ہے جب زمین سے دیکھنے پر زحل کے حلقے تقریباً غائب ہو جاتے ہیں، یعنی جب زحل ایسا زاویہ اختیار کرتا ہے کہ ہم اس کے حلقوں کو بالکل کنارے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر حلقے ایک باریک لکیر کی طرح نظر آتے ہیں۔
 
ٹائٹن نامی اسی طرح کی ایک رِنگ پلین کراسنگ کے دوران دریافت ہوئی۔ اس کے علاوہ زحل کے 12 اور چاند بھی۔ زحل کے حلقے 2025 میں دو بار یعنی مارچ اور نومبر میں زمین سے ایک بار پھر پتلی لکیر جیسے نظر آئیں گے۔
 
2019 سے 2023 تک مشتری اور زحل چاندوں کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے رہے۔
 
2019 میں زحل نے 20 نئے چاندوں کی دریافت کے ساتھ مشتری کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس وقت زحل کے چاندوں کی تعداد 82 اور مشتری کے چاند 79 ہو گئی۔
 
چند ہی سال بعد فروری 2023 میں مشتری نے 12 نئے چاندوں کی دریافت کے ساتھ ایک بار پھر سبقت حاصل کی جس کے بعد اس کے چاندوں کی تعداد 95 ہو گئی جب کہ اس وقت زحل کے چاند 83 تھے۔ 
 
لیکن اسی سال کچھ ہی وقت بعد وہی ماہرین فلکیات جنہوں نے حالیہ 128 چاند دریافت کیے، انہوں نے زحل کے گرد 62 مزید چاند دریافت کیے جس سے زحل کو دوبارہ واضح برتری مل گئی۔
 
نظام شمسی کے دوسرے سیاروں کی بات کی جائے تو زمین کا ایک چاند ہے، مریخ کے دو، مشتری کے 95، یورینس کے 28 اور نیپچون کے 16 چاند ہیں، جو سب ملا کر 142 بنتے ہیں۔
 
اگر زحل کے گرد صرف 10 مزید چاند دریافت ہو جائیں تو اس کے چاندوں کی تعداد باقی تمام سیاروں کے مجموعے سے دگنی ہو جائے گی۔
 
نئے دریافت شدہ تمام چاند بہت چھوٹے ہیں۔ ہر ایک کی چوڑائی صرف چند کلومیٹر ہے۔ اگر اتنا چھوٹا وجود بھی چاند کہلا سکتا ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر چاند کہلانے کے لیے معیار کیا ہے؟
 
ناسا کے مطابق ’قدرتی طور پر بننے والے وہ اجرام فلکی جو سیاروں کے گرد گردش کرتے ہیں، چاند کہلاتے ہیں‘ لیکن یہاں تک کہ کچھ سیارچوں  کے بھی چاند ہو سکتے ہیں۔
 
2022 میں ہم نے ایک سیارچے کے چاند سے ایک خلائی جہاز کو ٹکرا دیا۔ زمین کے بھی کچھ چھوٹے مون رہ چکے ہیں جن کی جسامت صرف چند میٹر تھی۔ یوں کون سا چاند اور کون سا نہیں، اس کے درمیان لکیر کچھ دھندلی سی ہو جاتی ہے۔
 
نظام شمسی میں سیاروں کے گرد گردش کرنے والے چاند یا تو ’باقاعدہ‘ ہوتے ہیں یا ’بے قاعدہ‘۔ یہ نئے سب چاند بے قاعدہ یعنی غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔
 
باقاعدہ چاند وہ ہوتے ہیں جو سیارے کے بننے کے ساتھ ہی اس کے گرد وجود میں آ جاتے ہیں، جب کہ بے قاعدہ چاند غالباً چھوٹے سیاروں کی شکل میں ہوتے ہیں جنہیں کوئی سیارہ اپنی تشکیل کے عمل کے اختتام پر اپنی کشش ثقل کی مدد سے اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور بعد میں تصادم کے نتیجے میں وہ ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں۔
 
باقاعدہ چاند عموماً اپنے سیارے کے گرد خوبصورت، گول مدار میں سیارے کے خط استوا کے ساتھ ساتھ گردش کرتے ہیں جب کہ بے قاعدہ چاند عام طور پر بڑے بیضوی مدار میں، سیارے سے کچھ فاصلے پر، مختلف زاویوں پر گردش کرتے ہیں۔ زحل کے 24 باقاعدہ چاند اور 250 بے قاعدہ چاند ہیں۔
 
ان چاندوں کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ چاند کیسے بنتے ہیں اور یہ بھی کہ نظام شمسی کس طرح وجود میں آیا اور وقت کے ساتھ کیسے ترقی کرتا گیا۔
 
زحل کے حلقے برف اور چٹانوں کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ حلقے دم دار ستاروں، سیارچوں، اور چاندوں کے ٹکڑوں سے بنے جو زحل کی کشش ثقل کی وجہ سے ٹوٹ گئے۔
 
لہٰذا خاص طور پر زحل کے لیے بے قاعدہ چاند اس کے دلکش حلقوں کی تشکیل کے بارے میں ہمیں مزید معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجرام فلکی کے نام رکھنے کا نظام انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین (آئی اے یو)  کے تحت ہے۔ شروع میں نظامِ شمسی کے تمام چاندوں کے نام یونانی و رومی داستانوں سے لیے جاتے تھے۔

لیکن جب چاندوں کی تعداد بڑھتی گئی، خاص طور پر زحل اور مشتری کے،  تو آئی اے یو  نے ناموں کے دائرے کو دیگر دیومالائی کرداروں، مثلاً دیووں اور دیوتاؤں تک بڑھا دیا۔ اور اس میں باریکیوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ 
 
اگر بائنری چاند (دو چاند جو ایک ساتھ گردش کرتے ہوں) دریافت ہوں، تو ان کے نام جڑواں یا بہن بھائیوں کے ناموں پر رکھے جانا ضروری ہوتا ہے۔
 
زحل کے پہلے سات چاندوں کو ابتدا میں نمبرز دیے گئے تھے، نام نہیں۔ 1847 میں، جان ہرسل نے ان چاندوں کو یونانی ٹائٹنز کے نام دیے۔ جب یہ فہرست مکمل ہو گئی اور یونانی اساطیر کے دیووں کے کردار ختم ہونے لگے، تو ناموں کا دائرہ انیوئٹ (Inuit)، گیلک  (Gallic) دیوتاؤں اور نورس (Norse) دیو قامت کرداروں تک پھیلا دیا گیا۔
 
نئے چاند دریافت کرنے والے ماہرین کو ان کے نام تجویز کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور ان کے تجویز کردہ ناموں کو آئی اے یو  کی جانب سے ترجیح دی جاتی ہے۔ ماضی میں مشتری اور زحل کے نئے چاندوں کے لیے نام رکھنے کی مقابلے بازی بھی ہو چکی ہے۔
 
اب جب کہ زحل کو ایک ساتھ 128 نئے چاند ملے ہیں، تو آئی اے یو کے اصولوں کے مطابق ان کے لیے نام تلاش کرنے میں شاید کچھ وقت لگے۔ 
 
ہو سکتا ہے کہ ہمیں مستقبل میں مختلف تہذیبوں کی اساطیر سے بھی نئے نام دیکھنے کو ملیں۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا۔ فی الحال ہر چاند کو ایک کوڈ نما نام دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر’ایس 2020، ایس 27۔‘
 
چوں کہ چاند کی کوئی ٹھوس اور حتمی تعریف موجود نہیں، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم انہیں دریافت کرنا کب مکمل کریں گے  یا کیا یہ کام کبھی مکمل بھی ہو پائے گا۔ 
 
سب اس بات پر متفق ہیں کہ زحل کے حلقوں میں موجود ہر چھوٹے پتھر کو چاند کہنا درست نہیں، لیکن بنیادی حد کہاں قائم جائے، یہ واضح نہیں۔
 
یہ ضرور ہے کہ ایک مقام پر آ کر ماہرین فلکیات خود بھی مزید چاند جیسے اجسام کو فہرست میں شامل کرنے سے رک جائیں گے۔ 
 
ایڈورڈ ایشٹن، جنہوں نے یہ نئے چاند دریافت کیے، ان کا خیال ہے کہ جب تک ہماری ٹیکنالوجی میں نمایاں بہتری نہیں آتی، تب تک مزید چاندوں کی دریافت نہیں ہو گی۔
 
نوٹ: یہ مضمون پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق لورا نکول ڈریئسن، ، ریڈیو آسٹرونومی، یونیورسٹی آف سڈنی، کی تحریر ہے۔ یہ مضمون دا کنورسیشن  سے کری ایٹیو کامنز لائسنس کے تحت دوبارہ شائع کیا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس