بالی وڈ کے سنہرے دور کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن کے پردے پر دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند کے نام گردش کرنے لگتے ہیں۔ اداکاروں کی یہ ویسی ہی مثلث تھی جیسی 90 کی دہائی میں عامر، شاہ رخ اور سلمان خان کی صورت میں ابھری اور تقریباً 30 برس سے بالی وڈ پر راج کر رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے خانز کی بالی وڈ میں انٹری کے وقت بمبئی کی فلم انڈسٹری نئے چہروں کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے لیے بے چین تھی۔
50 کی دہائی میں بھرپور عروج دیکھنے کے بعد 60 کے آخر تک ٹریجڈی کنگ اور بالی وڈ شو مین کے کیریئر ہچکولے کھانے لگے تھے جنہیں راجیش کھنہ کی رومانوی لہر نے ’آرادھنا‘ (1969) سے زمین بوس کر دیا۔ 1976 میں دلیپ کمار پانچ سال کی چھٹی پر چلے گئے اور ’کرانتی‘ سے کریکٹر رول میں بھرپور واپسی کی۔ انہوں نے اپنی دوسری اننگز میں بھی اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جس کی لاجواب مثال ’شکتی‘ (1982) ہے۔
بالی وڈ شو مین راج کپور کی توجہ اداکاری سے پروڈکشن اور ہدایت کاری کی طرف مرکوز ہو گئی، جہاں ان کی توانائیاں اپنے بیٹوں کو لانچ کرنے میں صرف ہونے لگیں۔
البتہ اس دوران اور اس کے بعد بھی سٹار آف سٹائل کا رومانی امیج دھندلا نہ ہو سکا۔ جب راجیش کھنہ کو اینگری ینگ مین کا چیلنج نڈھال کر رہا تھا، تب بھی سدا بہار دیو آنند اپنی ترنگ میں سکرین پر گیت گائے چلے جا رہے تھے۔ بطور ہیرو ابھی تک بالی وڈ میں اتنی لمبی اننگز کوئی دوسرا نہیں کھیل سکا۔
یوں تو 1980 کی دہائی میں امیتابھ بچن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا لیکن اس دوران ’قیامت سے قیامت تک‘ (1988) اور ’میں نے پیار کیا‘ (1989) سے عامر خان اور سلمان خان کے روپ میں دو نئے ستارے بالی وڈ کے افق پر جگمگانے لگے۔ ’دیوانہ‘ (1992) سے ایک اور خان نمودار ہوا اور تب شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آئندہ تین عشروں تک یہی تین خان سکرین کے بادشاہ ہوں گے۔
بالی وڈ میں خانوں کی انٹری کا فوری ردعمل عوام کا وی سی آر کو چھوڑ کر سینیما گھروں کا رخ کرنا تھا۔ نئی نسل نئے چہروں میں اپنے خوابوں کے نقش تلاش کر رہی تھی۔ اب ہیرو اینگری ینگ مین کی سماجی زبان کے بجائے اپنی نفسیاتی الجھنوں اور محبت سے جڑے انفرادی تجربات کی بات کر رہا تھا۔ ہندی سینیما کی روایت میں بحیثیت مجموعی خانوں کی کنٹروبیوشن سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فلمی سفر پر الگ الگ مختصر نظر ڈال لی جائے۔
مسٹر پرفیکٹ عامر خان
بالی وڈ میں آشا پاریکھ اور آر ڈی برمن کے قدم جمانے میں اہم کردار ادا کرنے والے معروف فلم ساز اور ہدایت کار ناصر حسین عامر خان کے انکل تھے۔ اپنے بھتیجے کو شاندار طریقے سے بالی وڈ میں اتارنے کے لیے انہوں نے لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا کی طرز پر جدید ٹریجک سٹوری لکھی اور اسے پروڈیوس بھی کیا۔
29 اپریل 1988 کو ریلیز ہوتے ہی ’قیامت سے قیامت تک‘ نے قیامت برپا کر دی۔ عامر خان اور جوہی چاولہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔
90 کی دہائی میں ’دل،‘ ’راجہ ہندوستانی،‘ ’دل ہے کہ مانتا نہیں،‘ ’سرفروش‘ اور ’ارتھ‘ جیسی فلموں نے بالی وڈ کی زمین میں عامر کے قدم گہرے گاڑ دیے۔
فارن فلم کی کیٹگری میں آسکر کے لیے نامزد ہونے والی ’لگان‘ (2001) عامر خان کی ایک اور بڑی جست تھی، جس کے پروڈیوسر بھی وہ خود تھے۔ چار برس کی بریک کے بعد 2005 میں ’منگل پانڈے‘ سے ان کی واپسی ہوئی، جس کے بعد ’رنگ دے بسنتی‘ میں ایک بار پھر وہ ’ارتھ‘ جیسا المیہ کردار نبھاتے ہوئے نظر آئے۔
’تارے زمین پر‘ (2007) سے عامر خان نے ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا جسے عوام اور ماہرین نے برابر پسند کیا۔ ’تھری ایڈیئٹس،‘ ’گجنی،‘ ’دھوم تھری،‘ ’پی کے‘ اور ’دنگل‘ جیسی فلموں میں مختلف کردار نبھاتے ہوئے عامر خان نے ’مسٹر پرفیکٹ‘ کے نام سے شہرت حاصل کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سلمان اور شاہ رخ کے مقابلے میں عامر کے ہاں فلم کے موضوعات اور کرداروں میں کہیں زیادہ تنوع ہے۔ اداکاری میں ٹام ہینکس کی نقل کرنے کی کوشش کرنے والے عامر خان کی نئی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ اگست میں ریلیز ہونے والی ہے جو ٹام ہینکس کی کلاسک فلم ’فورسٹ گمپ‘ کا ہندی ورژن ہے۔
بالی وڈ کے بھائی جان سلمان خان
یہ سلیم جاوید کی ایکشن سے بھرپور کہانیاں اور تیکھے مکالمے تھے جنہوں نے امیتابھ بچن کو اینگری ینگ مین کے روپ میں پردے پر پیش کیا اور بالی وڈ میں ایک نئے دور کا دروازہ کھولا۔ سلیم خان اور جاوید اختر دونوں کی اولاد فلم انڈسٹری میں آئی لیکن جیسی شہرت سلیم کے بیٹے سلمان کو ملی ویسی کوئی دوسرا نہ سمیٹ سکا۔
1988 میں ’بیوی ہو تو ایسی‘ میں ثانوی کردار ادا کرنے والے سلمان خان کو اگلے ہی برس ’میں نے پیار کیا‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ نہ صرف سال کی بلکہ 80 کی پوری دہائی کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم تھی۔
اگلے عشرے میں سلمان خان مسلسل کامیابیوں کے نئے زینے چڑھتے گئے۔ 90 کی دہائی میں ان کی کامیاب ترین فلموں میں ’ہم آپ کے ہیں کون،‘ ’انداز اپنا اپنا،‘ ’کرن ارجن‘ اور ’بیوی نمبر ون‘ شامل ہیں۔
21 ویں صدی کی پہلی دہائی سلو بھائی کے لیے بہت خوشگوار نہ تھی، جس کے دوران ان کا چاند گہنایا ضرور مگر ڈوبا نہیں۔ البتہ اگلی دہائی میں ’دبنگ،‘ ’ایک تھا ٹائیگر،‘ ’کِک،‘ ’سلطان‘ اور ’ٹائیگر زندہ ہے‘ جیسی فلمیں انہیں شہرت اور مقبولیت کی نئی بلندیوں پر لے گئیں۔
کنگ آف رومانس شاہ رخ خان
عامر اور سلمان کے برعکس شاہ رخ خان کا تعلق بالی وڈ کے کسی معروف گھرانے سے نہیں تھا۔ 1980 کی دہائی میں ٹی وی سیریز سے شوبز کے میدان میں اترنے والے شاہ رخ کو 1992 کی اپنی پہلی فلم ’دیوانہ‘ سے ہی خوب پذیرائی ملی۔ ’بازیگر‘ اور ’ڈر‘ میں منفی کردار ادا کرنے کے بعد انہوں نے ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے،‘ ’دل تو پاگل ہے‘ اور ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ جیسی فلموں سے اپنے رومانوی امیج کو پختہ کیا۔
گذشتہ 20 برس کے دوران ان کی سامنے آنے والی فلموں میں ’کبھی خوشی کبھی غم،‘ ’دیوداس،‘ ’چک دے انڈیا،‘ ’مائی نیم از خان‘ اور ’چینائی ایکسپریس‘ شامل ہیں۔
اگلے برس شاہ رخ خان کی تین فلمیں ریلیز ہوں گی۔
بالی وڈ خانوں کی ہندی سینما میں کنٹروبیوشن کیا ہے؟
دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند نے جب اداکاری شروع کی اس وقت انڈین سینیما ابتدائی مراحل میں تھا، جسے زمین ہموار کرنے اور بنیادیں رکھنے کا چیلنج درپیش تھا۔ فلم سازوں اور اداکاروں کی ایک لمبی قطار تھی۔
آج 60، 70 برس گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ فلم انڈسٹری پر سب سے گہرا اثر دلیپ کمار نے چھوڑا۔
فلم کے بیشتر اداکاروں کی تربیت تھیئٹر کی تھی، جہاں سین کوئی بھی ہو مکالمہ گلہ پھاڑ کر بولنا پڑتا تھا۔ دلیپ کمار نے اپنے گہرے مشاہدے اور دھیمی طبیعت سے فلم کو تھیئٹر سے الگ کرتے ہوئے اداکاری کا نیا رجحان متعارف کروایا۔ مکالمے کی ادائیگی میں ٹھہراؤ اور بغیر کچھ بولے چہرے کے تاثرات سے بات کہنے کا ہنر ان سے شروع ہوا، جس کے اثرات آج تک برابر محسوس کیے جاتے ہیں۔
تین برس قبل اپنے انٹرویو میں نواز الدین صدیقی برملا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میری ڈائیلاگ ڈیلیوری میں دلیپ صاحب کا اثر نظر آتا ہے تو حیرت کی بات نہیں، میں نے انہیں بہت غور سے (فلموں میں) دیکھا اور متاثر ہوا۔‘
اگرچہ راج کپور کی اداکاری چارلی چیپلن کی نقل کے سوا کچھ نہ تھی لیکن موضوعاتی سطح پر انہوں نے ہندی سینما کو ایڑھ لگائی۔ ’سنگم،‘ ’میرا نام جوکر،‘ ’ستیم شیوم سندرم‘ اور ’رام تیری گنگا میلی‘ میں انتہائی بولڈ مناظر فلم بند کرتے ہوئے انہوں نے دقیانوسی معاشرے میں خطرہ مول لیتے ہوئے سینیما کی آزادی کا عملی اظہار کیا۔
یہ بنیادیں تھیں جن پر عظیم الشان عمارت کھڑی کرنے کی ذمہ داری بعد میں آنے والے فلم سازوں اور سپر سٹارز کے کندھے پر تھی جنہوں نے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ایسا لگتا ہے بالی وڈ کے بتدریج زوال اور حد سے بڑھے ہوئے کمرشل ازم کو سمجھنا ہو تو شاہ رخ، سلمان اور عامر کے سٹارڈم کا مطالعہ کافی رہے گا جو اب اپنی اپنی پروڈکشن کمپنیاں کھول کر مافیا کا روپ دھار چکے ہیں اور جن کے لیے فلم ایک آرٹ کے بجائے محض دھندہ ہے۔
فلم ساز کو اقتصادی نقطہ نظر سے سوچنا ہرگز جرم نہیں، لیکن اگر اس کا جھکاؤ موضوعات، مواد کی پیشکش اور جمالیاتی احساس کو نظر انداز کرتے ہوئے محض باکس آفس تک محدود رہ جائے تو وہ بیوپاری ہے فنکار نہیں۔ ایسا لگتا ہے گذشتہ دو دہائیوں سے بالی وڈ بری طرح بیوپاریوں کے نرغے میں ہے جن کا شکنجہ روز بروز سخت ہوتا جا رہا ہے۔
ایران کے عالمی شہرت یافتہ فلم ساز مجید مجیدی اپنے ایک انٹرویو میں بالی وڈ کے ماضی کا موجودہ صورت حال سے موازنہ کرتے ہوئے ’شاعرانہ وژن‘ اور ’اسلوب‘ کی بتدریج رخصتی پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’بھارتی فلموں کی روح کہیں کھو گئی ہے۔ ساری توجہ پیسہ بنانے پر مبذول ہونے لگی ہے جس کا براہ راست اثر بھارت میں بننے والی فلموں کے معیار پہ ہو رہا ہے۔‘
ہندی سینیما میں کمرشل ازم کی بے لگام دوڑ کا بلاواسطہ ہی نہیں بلکہ براہ راست تعلق تینوں خانوں سے ہے۔ خانوں کی بالی وڈ فلم سازی پر گرفت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی تک ہندی سینیما کی تاریخ میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی پانچ کی پانچ فلمیں خانوں کی ہیں۔ ’دنگل‘ (عامر)، ’بجرنگی بھائی جان‘ (سلمان)، ’سیکرٹ سپرسٹار‘ (عامر)، ’پی کے‘ (عامر)، اور ’سلطان‘ (سلمان)۔ ان میں سے تین فلمیں ایسی ہیں جن کی پروڈکشن میں خانوں کی ذاتی کمپنیاں براہ راست شراکت دار تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرانسیسی ہدایت کار فرانسوا تروفو (François Truffaut) نے امیتابھ بچن کو ’ون مین انڈسٹری‘ کہا تھا لیکن بگ بی کا تسلط کبھی بھی انڈسٹری میں ایسا نہیں تھا جیسا تینوں خانوں کا ہے۔ من موہن ڈیسائی تو ایک طرف ٹینو آنند تک اینگری ینگ مین کی ہدایت کار کے کام میں مداخلت پر انہیں ٹوک دیا کرتے تھے۔ دوسری طرف خانز اپنے ساتھی اداکاروں، موسیقاروں اور پلے بیک سنگرز کے انتخاب میں حتمی فیصلہ ساز ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں اپنی قائم کردہ پروڈکشن کمپنیوں کی چھتری میسر ہوتی ہے جو سٹارڈم کا دائرہ اداکاری تک محدود نہیں رہنے دیتی۔
جب انڈسٹری میں یہ تاثر عام ہو کہ خانوں کی ناکام فلمیں بھی دوسروں کی کامیاب فلموں سے زیادہ بزنس کرتی ہیں تو مواد اور موضوعات پر سر کھپانے کی ضرورت کس احمق کو ہے۔
یش راج فلمز، عامر خان فلمز اور سلمان خان فلمز جیسی تین چار پروڈکشن کمپنیاں مل کر کسی بھی اول فول سکرپٹ میں کسی خان کو کاسٹ کریں۔ اگر مرکزی کردار میں سلمان ہے تو شرٹ اتارنے اور شاہ رخ ہے تو رونے دھونے کا سین ضرور شامل ہونا چاہیے کہ یہی ان کا ٹریڈ مارک ہے۔
ویسے تو فلم کے اعلان کے ساتھ ہی پروموشن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن شوٹنگ مکمل ہوتے ہی مارکیٹنگ باقاعدہ ایک ہنگامہ خیز سرگرمی بن جاتی ہے۔ آج کل فلم بنانے پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی مارکیٹنگ پر کیوں کہ بےجان سکرپٹ میں روح پھونکنے کا یہ موثر طریقہ ہے۔
اس دوران تھینک ٹینکس بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ریلیز کی بہترین تاریخ کون سی ہو گی، جس کے مطابق ملٹی پلیکس سینما گھروں میں سکرینیں حاصل کر لی جاتی ہے۔ فلم کا معیار کہیں پس منظر میں چلا جاتا ہے، بس فلم کو سو کروڑ کلب بلکہ اب تو ہزار کروڑ کلب کا حصہ بننا چاہیے اور اس ریس میں جوا کھیلنے کے لیے سلمان، عامر یا شاہ سے بہتر انتخاب کوئی نہیں۔
خانز کے سٹارڈم نے بمبئی فلم انڈسٹری کا توازن بری طرح متاثر کیا۔ اپنے کردار کے ایک خان اتنے پیسے اینٹھ لیتا ہے جس میں پوری فلم بن سکتی ہے۔ اس بات پر قطعاً کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بالی وڈ کے خان اپنے معاصر ہالی وڈ اداکاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
امریکہ کے مشہور بزنس میگزین فوربز کی پانچ اگست 2015 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جونی ڈیپ، بریڈ پٹ اور لیونارڈو ڈی کیپریو کے مقابلے میں سلمان خان زیادہ معاوضہ وصول کرنے والے اداکار تھے۔ کیا سلو بھائی کی پٹاری میں کوئی ایک بھی ایسی فلم ہے جو انہیں ڈی کیپریو کے برابر تو کیا نزدیک بھی لا سکے؟
عامر خان اداکاری کے معاملے میں دیگر خانوں سے تھوڑا آگے نظر آتے ہیں۔ ان کی فلمیں مواد کے اعتبار سے بھی بہتر ہوتی ہے لیکن خالص اداکاری کی بات کی جائے تو دلیپ کمار، بلراج ساہنی، سنجیو کمار اور نصیر الدین شاہ کی روایت کے علم بردار عرفان خان، نواز الدین صدیقی، منوج باجپئی اور پنکج ترپاٹھی ہیں، عامر خان نہیں۔
کیا بالی وڈ فلم انڈسٹری ہیرو سے اداکار کی طرف سفر کرے گی؟ کیا سرمایہ کار بڑے بڑے ناموں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے مواد اور اچھوتی کہانی کی طرف رخ کرے گا؟ کیا جتنی توجہ مارکیٹنگ پر دی جاتی ہے اتنی فلم بنانے پر صرف ہو سکے گی؟
بالی وڈ کے مجموعی مزاج کو دیکھتے ہوئے میرا جواب نفی میں ہے۔ بالخصوص جب تک تینوں خان موجود ہیں، تب تک تو ہرگز نہیں۔