امریکہ میں موجود سابق سفارت کاروں اور سکالرز پر مشتمل ایک مطالعاتی گروپ نے تجویز دی ہے کہ افغانستان سے متعلق دیرینہ عدم اعتماد کے باوجود پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنا امریکہ کی ضرورت ہے۔
اس گروپ نے اپنے نتائج وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورے کے ایک ہفتے بعد اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ واشنگٹن کے دوران جاری کیے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس مطالعاتی گروپ میں امریکی حکومتی عہدیدار شامل نہیں تھے جبکہ سکالرز اور پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر ریان کروکر، کیمرون منٹر اور رابن رافیل کے علاوہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی شامل تھے۔
گروپ کے مطابق امریکہ کا پاکستان سے سرمایہ کاری اور ماحولیات میں تعاون پاکستان کے چین پر بڑھتے ہوئے انحصار کو کم کرنے کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
پاکستان اور امریکہ سرد جنگ اور سرکاری طور پر افغان جنگ میں شراکت دار تھے۔ لیکن امریکی حکام کا پاکستان پر یہ شبہ کہ پاکستان خاموشی سے طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا سبب ہے۔ طالبان نے گزشتہ سال امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کامیابی حاصل کی تھی۔
مطالعاتی گروپ نے کہا، ’موجودہ اختلافات کی بنیاد پر شراکت داری کو وضع کرنے کی بجائے دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ باہمی دلچسپی کے امور پر کام کرنے کا راستہ تلاش کرسکیں۔‘
مطالعاتی گروپ کی تجاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ امداد کے ذریعے پاکستانی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی سے آگے بڑھے کیونکہ یہ ایک ثابت شدہ ناکام حربہ ہے۔ بدلے میں اسلام آباد کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ’پاکستان کے تمام مسائل، بالخصوص دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا الزم امریکہ پر نہیں دھرا جا سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے چین کے ساتھ تیزی سے قریبی تعلقات استوار کیے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے انتباہ جاری کیے جاتے رہے ہیں کہ کہ بیجنگ، جسے واشنگٹن کا اہم عالمی حریف سمجھا جاتا ہے، معاشی طور پر کمزور ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دے گا۔
گروپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پہلے افغانستان یا اس کے روایتی حریف انڈیا کے حوالے سے دیکھنے کے بعد امریکہ کو چاہیے کہ اب پاکستان کے ساتھ تعلقات کو چین کے زاویے سے نہ دیکھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے بجائے امریکہ چینی قرضوں پر’ شفافیت اور تعمیل کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو بڑھانے‘ میں مدد اور امریکی کمپنیوں اور دیگر کی جانب سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرکے چین پر انحصار کم کرسکتا ہے۔
امریکہ ماحولیات کی بہتری پر بھی توجہ دے سکتا ہے جو حال ہیں میں سیلاب سے متاثرہ پاکستان کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
اگرچہ امریکہ افغانستان سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے لیکن گروپ کا کہنا ہے کہ زمین پر امریکی انٹیلی جنس کے اثاثوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعاون برائے انسداد دہشت گردی کی ضرورت ’بڑھ گئی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ اکثر افغانستان، چین یا انڈیا کے معاملے پر متفق نہیں ہوتے لیکن خطے میں استحکام کے حصول، انتہا پسندی کے مسئلے سے نمٹنے اور جوہری جنوبی ایشیا میں مسلح تنازعات کو روکنے کے لیے ان کے باہمی مفادات مشترک ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکہ میں حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق پاکستان اور امریکہ نے معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ اتفاق رائے جنرل قمرجاوید باجوہ اور امریکہ کے وزیر دفاع جنرل (ر) لائڈ آسٹن، قومی سلامتی کے مشیر جیکب سلیون اور نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن کے درمیان ملاقاتوں میں طے پایا۔
ملاقاتوں کے دوران باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
آرمی چیف نے سیلاب متاثرین کے لیے امداد فراہم کرنے پر امریکی حکام کا شکریہ ادا کیا۔
آرمی چیف نے امریکی ریاست فلوریڈا میں آئے طوفان سے ہونے والی ہلاکتوں پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو متاثرہ خاندانوں کی تکالیف کا مکمل ادراک ہے کیونکہ پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کے ایسے ہی اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق دونوں فریقین میں افغانستان سمیت اہم بین الاقوامی مسائل پر ہم آہنگی پائی گئی اور علاقے میں انسانی بحران سے بچنے اور امن اور استحکام کو بہتر بنانے کیلئے تعاون کی ضرورت پر زور دیا گیا۔