یکم جولائی کو ڈونلڈ بلوم نے چار سال بعد پاکستان میں امریکی سفیر کا عہدہ سنبھال لیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا پاکستان امریکہ تعلقات میں بڑی تبدیلی کی وجہ بنا۔
بائیڈن انتظامیہ نے واشنگٹن کی شکست کا ذمہ دار اسلام آباد کو ٹھہرایا جبکہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی پالیسی کی ناکامیوں کے لیے اسے قربانی کا بکرا بنانے پر احتجاج کیا۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے دوران پیدا ہونے والی تلخی کو پسِ پشت ڈال کر تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت دوطرفہ تعلقات تعمیرِ نو کے مرحلے میں ہیں۔
پچھلی چار دہائیوں میں یہ تیسرا موقع ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک دوراہے پر ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا نے دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کی تشکیلِ نو کا ایک نیا موقع فراہم کیا ہے۔
افغانستان گذشتہ 40 سالوں سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا بنیادی عنصر رہا ہے۔ افغانستان میں 1979 کے روسی حملے نے دو طرفہ تعلقات کو ایک نئی جہت دی جس کے تحت دونوں ممالک کمیونزم کے خلاف صف آرا ہوئے۔ اسی طرح ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان میں امریکی مداخلت نے انسداد دہشت گردی کے گرد گھومتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا۔
اب اگرچہ تعلقات کی تعمیرِ نو کا مرحلہ جاری ہے تاہم شکوک و شبہات کی دبیز چادر سے مستقبل میں جھانکنا دشوار ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے حالانکہ پاکستان نے 2020 کے امریکہ اور طالبان کے معاہدے اور افغانستان سے امریکہ کے انخلا میں سہولت فراہم کی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِثانی کرنے کی دھمکی دی۔ دوسری طرف امریکی الزام تراشی سے مایوس ہو کر عمران خان نے ایک میڈیا انٹرویو میں افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے امریکہ کو فوجی اڈے دینے کے سوال پر ’افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں‘ اور ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ جیسے بیانات دے کر جوابی حملہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر بائیڈن کی جانب سے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عمران خان کو فون نہ کرنے نے پہلے سے ہی نازک تعلقات میں ایک اور تناؤ ڈال دیا۔
اپریل میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اپنی برطرفی کو امریکی ایما پر تیار ہوئی سازش کا نتیجہ قرار دینا اور مغربی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے روس کا دورہ کرنے کے خان کے فیصلوں نے دو طرفہ تعلقات کو اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔
پاکستان کے نئے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے مئی میں واشنگٹن کے پہلے دو روزہ دورے نے دو طرفہ تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔
بلاول کے دورے سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معطل شدہ پروگرام پر دوبارہ بات چیت کرنے میں مدد ملی۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ ایک وسیع مفاہمت پر پہنچ گیا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں سٹاف لیول معاہدہ متوقع ہے۔
اسی طرح بلاول نے کامیابی سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو قائل کیا کہ وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایکشن پلان پر مکمل تعمیل کرنے کے بعد اس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کریں۔
جون میں جرمنی میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس نے پاکستان کے مکمل تعمیل کے دعوؤں کو قبول کیا۔ ایف اے ٹی ایف نے زمینی حقائق کی تصدیق کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کامیاب ہونے کی صورت میں اکتوبر میں پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموار کرے گا۔
تعمیرِ نو کے مرحلے میں ہونے کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اب بھی بنیادی تضاد ہے۔ اسلام آباد اپنے نئے جیو اکنامک وژن کے تحت تعلقات کے نئے مرحلے کی بنیاد تجارت، معیشت اور دو طرفہ تعلقات کی اندرونی قدر پر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن ان تعلقات کو چین کی زاویے سے دیکھ رہا ہے۔
پاکستان عالمی طاقتوں کے بلاک سے وابستگی کی سیاست سے دور رہنے اور امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ایسی باتیں کرنا آسان اور نبھانا مشکل ہوتی ہیں۔ ایک پل کی بجائے پاکستان اب تیزی سے خود کو امریکہ اور چین کے مابین طاقت کے مقابلے میں سینڈوچ بنتا محسوس کر رہا ہے۔
اب جب کہ دونوں فریقین نے افغانستان میں شکست کی شدت کو پسِ پشت ڈالنے پر اتفاق کیا ہے تو بین الاقوامی دہشت گردی کے ممکنہ خطرے اور افغان ریاست کی کمزوری کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات پر اب بھی افغانستان کا سایہ منڈلا رہا ہے۔
امریکہ نے اندازہ لگایا ہے کہ دولت اسلامیہ صوبہ خراسان (آئی ایس کے پی) ایک سال میں افغانستان سے بین الاقوامی دہشت گرد حملے کر سکتی ہے جب کہ القاعدہ دو سالوں میں اتنی ہی صلاحیت حاصل کر لے گی۔ القاعدہ کے ساتھ طالبان کے مسلسل تعلقات اور افغانستان میں آئی ایس کے پی کی موجودگی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں ناکامی اس چیلنج کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
اگرچہ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے طویل المدتی سٹریٹجک مفادات کو فروغ دیا ہے اور امریکہ خطے میں چین سے متعلق اپنی پالیسی کے لیے بھارت کا سہارا لے رہا ہے، لیکن امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں انتہاؤں کے درمیان پھلنے پھولنے کے لیےکافی جگہ ہے۔
امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے معاملات میں توازن پیدا کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے ہنرمند سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔ بظاہر نظر آتی واضح بہتری کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے تعلقات لین دین، ایشوز اور الٹ پھیر کا شکار رہیں گے۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سنگاپور میں محقق ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔