بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کو ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی حکومت اور وادی کی وفاقی انتظامیہ کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پابندیاں ہٹانے اور معمول کی زندگی بحال کرنے کا مشروط حکم دے دیا۔
بھارت نے پانچ اگست کو اچانک اپنے ہی آئین میں جموں و کشمیر سے الحاق کا قانونی معاہدہ ختم کر کے اس متنازع خطے میں نظام زندگی کو عملی طور پر مفلوج کر دیا تھا۔ اس فیصلے سے قبل ہی ہزاروں اضافی بھارتی فوجیوں کو کشمیر میں تعینات کر دیا گیا تھا۔
بھارت کے اس اقدام سے مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست جموں و کشمیر دو وفاقی خطوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ پانچ اگست کے اس فیصلے کے بعد سے اب تک پوری وادی میں مواصلات کا نظام معطل ہے جبکہ وسیع پیمانے پر گرفتاریوں اور مسلسل لاک ڈاؤن کے باعث کشمیری عوام اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ کے مطابق اخبار ’کشمیر ٹائمز‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسن نے بھارتی سپریم کورٹ میں ان پابندیوں کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اپیل کی سماعت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی، جس کی سربراہی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کر رہے تھے۔
اپنے فیصلے میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے دہلی حکومت اور کشمیر کے وفاقی حکام کو حکم دیا کہ وہ قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وادی میں معمول کی زندگی بحال کریں اور عوام تک تمام بنیادی سہولیات تک رسائی ممکن بنائیں۔
عدالت نے مرکزی حکومت کو کہا کہ وہ کشمیر میں ایسے اقدامات کریں جن سے وہاں جلد از جلد معمول کی زندگی بحال ہو سکے۔
بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے مرکزی حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے بینچ کو بتایا کہ کشمیر میں ابھی تک ایک گولی بھی فائر نہیں ہوئی اور وہاں عائد پابندیاں مقامی نوعیت کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے 88 فیصد تھانوں کی حدود میں پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں جبکہ وادی کے تمام اخبارات شائع ہو رہے ہیں اور حکومت ہر قسم کی مدد کی پیشکش کر رہی ہے۔
اس کے جواب میں عدالتی بینچ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ ان تمام حکومتی اقدامات، جن کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں، کی تفصیلات بیانِ حلفی پر دیں۔
چیف جسٹس گوگوئی نے کہا کہ وہ خود وادی جائیں گے اور جموں کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے پوچھیں گے کہ عوام کو عدالت تک رسائی کیوں نہیں دی جا رہی۔
بھارت نواز سیاست دان فاروق عبد اللہ گرفتار
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پارلیمنٹ کے رکن اور بھارت نواز سینئیر سیاست دان فاروق عبد اللہ کو ایک متنازع قانون کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ قانون حکام کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو کسی مقدمے کے بغیر دو سال تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ 81 سالہ فاروق عبداللہ ریاست جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انہیں سری نگر میں واقع ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔
پولیس کے اعلیٰ افسر منیر خان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے انہیں گرفتار کر لیا ہے اور ایک کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ وہ کب تک زیرِ حراست رہیں گے۔‘
فاروق عبداللہ پہلے بھارتی نواز سیاست دان ہیں جنہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے مہم چلانے والے افراد کے مطابق اس قانون کے تحت کشمیر میں 20 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے ’غیر قانونی قانون‘ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق بھارت اس قانون کا استعمال ریاستی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف کر رہا ہے۔ جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قوانین کے غلط استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
پبلک سیفٹی ایکٹ کا قانون 1978 میں فاروق عبد اللہ کے والد کی حکومت میں لاگو کیا گیا تھا۔ شروع میں اس قانون کا مقصد کشمیر میں لکڑی کاٹنے کے غیر قانونی عمل اور سمگلنگ کو روکنا تھا لیکن 1989 میں مسلح شورش کے بعد اس قانون کو عسکریت پسندوں اور بھارت کے خلاف مظاہرے کرنے والے افراد کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔
فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ کو پانچ اگست کو اُس وقت سب جیل قرار دے دیا گیا تھا، جب وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چھ اگست کو بھارت کے وزیر داخلہ اِمت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں اس بات کی تردید کی تھی کہ فاروق عبداللہ کو نظر بند کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر فاروق عبداللہ اپنے گھر سے باہر نہیں آنا چاہتے تو انہیں بندوق کی نوک پر گھر سے باہر نہیں لایا جا سکتا۔‘
بھارتی سپریم کورٹ نے بھی مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے فاروق عبداللہ کے عدالت میں پیش ہونے کی ایک درخواست پر جواب طلبی کی ہے۔