بھارت کے ایک سکول میں بچوں کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ’شکریہ‘ کا خط لکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ طلبہ کو بطور ہوم ورک دی گئی اس ذمہ داری نے سوشل میڈیا پر ایک تنازع کو جنم دے دیا ہے۔
یہ کام ریاست ہریانہ کے ضلع پنچکولہ میں واقع ہنس راج پبلک سکول کے چھٹی جماعت کے 11 سے 12 سال کی عمر کے بچوں کو اس ہفتے دیا گیا ہے۔
ایک خاتون نے اس بارے میں ٹویٹ کی کہ ان کے بھائی کہ یہ ہوم ورک دیا گیا ہے۔ خاتون کے مطابق یہ ’پروپیگنڈا ‘ہے اور وہ اس پر ’شدید غصے‘ میں ہیں۔ ان کی ٹویٹ کو ہزاروں بار شیئر کیا جا چکا ہے جبکہ اس پر سینکڑوں لوگوں نے جواب بھی دیے ہیں جن میں سے کئی لوگ سکول اور حکومت کا جارحانہ انداز میں دفاع بھی کر رہے ہیں۔
مودی حکومت نے 5 اگست کو کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا۔اس قانون کے تحت بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو اپنے قوانین بنانے کی اجازت تھی جبکہ غیر کشمیریوں کی وادی میں مستقل رہائش پر پابندی تھی۔ تاہم جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کم کرتے ہوئے انہیں انڈین یونین کے زیرِ حکومت علاقے قرار دے دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اعلان کے ایک دن قبل سے ہی کشمیر کا علاقہ احتجاج کے خدشے کے پیش نظر لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ کشمیری سیاست دان اور مقامی افراد حکومت پر مسلم اکثریتی کشمیر کی آبادیاتی تشکیل کو بدلنے کا الزام عائد کرتے ہیں، لیکن نئی دہلی حکومت اپنے فیصلے کے دفاع میں مصروف ہے، جس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ علاقے میں معاشی خوشحالی لائے گا اور کشمیر میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک کا خاتمہ کر دے گا۔ حکومت اسے ملک بھر کے لیے ایک مقبول فیصلہ بھی قرار دے رہی ہے اور اس حوالے سے علاقے میں پائی جانے والی بے امنی کو کچھ خاص نہیں سمجھا جا رہا۔
دی انڈپینڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹویٹ (جو اب وائرل ہو چکی ہے) کرنے والی خاتون کا کہنا تھا کہ جس طرح سے یہ ہوم ورک دیا گیا وہ اس وجہ سے پریشان تھیں۔ ان کے مطابق’11، 12 سال کے بچوں کے لیے یہ معاملہ سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔‘
انہوں نے ہوم ورک ایپ کا سکرین شاٹ پوسٹ کیا جس میں درج تھا کہ:’ تمام بچوں کو ہندی میں وزیر اعظم مودی کے نام ایک خط لکھنا ہے اور آرٹیکل 370 (کشمیر کی خصوصی حیثیت پر مبنی آئینی شق) کے خاتمے پر ان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔‘
ایپ کے مطابق یہ خط جمعرات کو بھارت کے یوم آزادی کی تقریبات سے پہلے سکول لائے جانے تھے۔
ہنس راج پبلک سکول بھارت کی غیر سرکاری سکولوں کی ایک بڑی چین ڈی اے وی کالج مینیجنگ کمیٹی کا حصہ ہے۔ جس کے مطابق وہ بھارت بھر میں 900 تعلیمی ادارے چلا رہی ہے۔
منگل کو ریاست اڑیسہ کے ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا گیا کہ سکول نیٹ ورک نے وزیر اعظم مودی کے کشمیر کے حوالے سے کیے گئے فیصلے کی تعریف میں کھلے خط لکھنے کا کہا گیا ہے۔
خط کے مسودے میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کو ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا گیا جو ’دہشت گردی کو ختم کر دے گا۔‘ خط میں مودی کی تعریف کرتے ہوئے ان کی حکومت کو ’قابل اور دور اندیش‘ کہا گیا ہے۔ سکولوں کو خط پر بچوں اور ان کے والدین کے دستخط لے کر جلد سے جلد خط جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ طلبہ میں خط کی کاپیاں بھی تقسیم کی گئیں۔
وہ خاتون جن کے 11 سالہ بھائی کو ہریانہ میں یہ ہوم ورک دیا گیا، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا:’ یہ ناقابل یقین تھا کہ وہ ایک سیاسی معاملے پر اس قدر جانبدارانہ اسائنمنٹ دے رہے ہیں۔ بجاے اس کے کہ بچوں کو اس معاملے پر اپنے خیالات لکھنے کا اسائنمنٹ دیا جائے، بچوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ انہیں کیا سوچنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین نے اس حوالے سے سکول کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں یہ بتایا جائے گا کہ ان کے بھائی یہ ہوم ورک نہیں کریں گے۔
خاتون نے آن لائن شدید بحث اور سکول میں اپنے بھائی کو لاحق خدشات کے پیش نظر گمنام رہنے کی درخواست کی ہے۔
48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ان کی ٹویٹ کو دس ہزار سے زیادہ لائیکس اور ری ٹویٹس مل چکے ہیں جبکہ سینکڑوں لوگوں نے اس پر جواب بھی دیے ہیں، جن میں اس اسائنمنٹ پر غصے کے اظہار کے ساتھ خاتون پر ذاتی نوعیت کے حملے بھی کیے گئے ہیں۔
کئی لوگوں نے مودی کی حمایت کرتے ہوئے مذکورہ خاتون سے کہا کہ ’اگر انہیں یہ پسند نہیں ہے تو انہیں بھارت سے چلے جانا چاہیے۔‘ یہ جملہ بھارت میں آن لائن بحثوں میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس اسائنمنٹ کا موازنہ گذشتہ نسل کو بھارت کے پہلے اور عوامی طور پر قابلِ عزت رہنما جواہر لعل نہرو کی کامیابیوں پر مضمون لکھنے کی ہدایت سے بھی کیا جا رہا ہے۔
لوگوں کی ایک نسبتاً کم تعداد نے اس ہوم ورک کو ’برین واشنگ‘ قرار دیا ہے۔ نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی سیاست دان یاسمین کدوائی نے اس ہوم ورک کو ’مضحکہ خیز‘ کہا۔
ٹویٹ پوسٹ کرنے والی خاتون کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی ٹویٹ کو اس قدر وائرل ہوتے نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا: ’میں پورا دن اس پر آنے والے ردعمل کو دیکھتی رہی ہوں لیکن میں نے ان میں سے کسی کا جواب نہیں دیا۔ یہ مجھے پریشان کرتا ہے کہ اکثریت سوچتی ہے کہ ہماری حکومت کچھ غلط نہیں کر سکتی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کی شخصیت پسندی کے گرد موجود سوچ قوم کی ترقی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔‘
ہنس راج پبلک سکول اور ڈی اے وی سی ایم سی نے اس حوالے سے کی جانے فون کالوں اور ای میلز کا کوئی جواب نہیں دیا۔