طالبان سے پہلے اور بعد کا افغانستان: کہاں بہتری آئی، کہاں تنزلی؟

طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان کی معاشی صورت حال اور گذشتہ تین سال میں ان کی کارکردگی کا موجود اعداد و شمار سے موازنہ

 15 اگست کو افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے تین سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس عرصے میں افغانستان کی معاشی و سماجی صورت حال پر مختلف خبریں سامنے آئی ہیں، تاہم سب سے اہم سوال ہے کہ ایک عام افغان شہری کی زندگی میں کیا فرق آیا اور ان کی معاشی صورت حال کیسی رہی۔

اس رپورٹ میں ہم نے طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان کی معاشی صورت حال اور گذشتہ تین سال میں ان کی کارکردگی کا موجود اعداد و شمار سے موازنہ کیا ہے۔

شرح نمو

2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل افغان معیشت کی شرح نمو بڑھ رہی تھی۔ 2019 میں معاشی شرح نمو 4 فیصد کے قریب تھی، جس میں زیادہ تر حصہ زراعت کا تھا، تاہم 2020 میں کرونا وبا کے باعث شرح نمو منفی 2 فیصد کے قریب رہی۔

2021  میں افغانستان میں طالبان کی عسکری کارروائیاں اپنے عروج پر پہنچیں اور 15 اگست 2021 کو انہوں نے اقتدار حاصل کر لیا۔ اُس سال معاشی شرح نمو کی صورت حال خطرناک حد تک گری اور شرح نمو منفی 20 فیصد رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021  میں خراب معاشی صورت حال کے بعد سے حالات بتدریج بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ 2022 میں شرح نمو منفی 6 فیصد رہی جبکہ 2023 میں یہ شرح جمود کا شکار (یعنی صفر) ہو گئی ہے۔ ورلڈ بینک کی پیش گوئی کے مطابق 2024 میں بھی افغانستان کی معیشت جمود کا شکار رہے گی۔

غربت

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 2016 میں کُل افغان آبادی کا 54.5 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔

2020 میں ورلڈ بینک کے مطابق صورت حال میں کچھ درجہ بہتری آئی اور یہ شرح 47.1 فیصد تک آ گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2023 میں یہ شرح 48 فیصد رہی ہے۔

ڈالر ریٹ

14 اگست 2021 کو امریکی ڈالر کا ریٹ 80 افغانی تھا۔ افغان طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد چار ماہ میں ہی ڈالر کا ریٹ 20 افغانی سے بڑھ کر 102 افغانی تک پہنچ گیا تھا۔

تاہم جنوری 2022 سے ڈالر کے ریٹ میں کمی آنا شروع ہو گئی اور 11 اگست 2024 تک یہ ریٹ کم ہو کر 70 افغانی ہو گیا ہے، جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے ریٹ سے بھی کم ہے۔

مہنگائی

طالبان نے جب اقتدار سنبھالا تو اس سے پہلے ہی افغانستان میں افراطِ زر کی شرح بڑھ رہی تھی۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گھریلو اشیا کی قیمتوں میں جنوری 2021 سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس اضافے کے پیچھے طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیاں تھیں۔

جولائی 2020 کے مقابلے میں جولائی 2021 میں بنیادی گھریلو اشیا کی قیمت میں 13.6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ اگست 2021 میں یہ اضافہ 24.2 فیصد تک پہنچ گیا۔

 

تاہم اپریل 2023 سے افغانستان میں پچھلے سال کے مقابلے میں مہنگائی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اپریل 2023 سے اپریل 2024 تک پچھلے سال کے مقابلے میں اوسط مہنگائی میں ہر ماہ 2 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ہسپتال اور صحت کا نظام

افغان اعداد و شمار کے حوالے سے سرکاری ادارے نیشنل سٹیٹسٹکس اینڈ انفارمیشن اتھارٹی کے مطابق 2021 میں ملک بھر میں کل سرکاری ہسپتالوں کی تعداد 189 تھی۔ طالبان دورِ حکومت میں 16 سرکاری ہسپتالوں کا اضافہ ہوا ہے، جس سے یہ مئی 2024 تک 205 ہو گئے۔

 

ملک بھر میں جرائم

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرائم میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

2021  کی پہلی سہ ماہی میں افغانستان بھر میں کل ریکارڈ کیے گئے جرائم چار ہزار تین سو 96 تھے جبکہ 2023 کی آخری سہ ماہی میں جرائم کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 2023 کی آخری سہ ماہی میں تین ہزار آٹھ سو 65 جرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

نوٹ: اس رپورٹ کے لیے ورلڈ بینک اور افغان سرکاری اعداد و شمار کا سہارا لیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا