کیا افغان کرنسی کو بہترین کرنسی قرار دینا درست ہے؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ تجارتی اعدادوشمار میں بہتری سے کرنسی بہتر ہوئی یا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت مداخلت سے۔

20 دسمبر 2021 کو کابل میں ایک شخص افغان کرنسی کے نوٹ گن رہا ہے (اے ایف پی/ محمد رسفان)

بہرام خان پشاور میں رہتے ہیں۔ وہ افغان شہری ہیں اور طالبان کی حکومت آنے کے بعد خاندان سمیت پاکستان آ گئے تھے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں محدود معاشی سرگرمیاں اور سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان آئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بلوم برگ کے مطابق افغانستان کی کرنسی کارکردگی کے اعتبار سے 2023 کی تیسری بہترین اور سہ ماہی کی پہلی بہترین کرنسی قرار پائی ہے، تو اب وہ واپس افغانستان جا کر کیوں نہیں رہتے؟
 
اس پر بہرام نے کہا کہ ’کرنسی بہتر ہے یا بری، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، یہ حکومتی معاملات ہیں۔‘
 
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں معاشی حالات پہلے سے بھی برے ہو گئے ہیں۔ ورلڈ بینک نے بتایا کہ لگ بھگ 66 فیصد شہری بنیادی ضروریات زندگی مشکل ہی سے افورڈ کر پاتے ہیں۔ روزگار نہیں ہے، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، ہسپتالوں کے لیے پاکستان آنا پڑتا ہے۔ اکثریت دو وقت کی روٹی کھانے سے قاصر ہے۔
 
’ایسے حالات میں کرنسی کی کارکردگی بہتر ہو یا بری، کیا فرق پڑتا ہے۔ میں اُس وقت افغان کرنسی کو بہتر مانوں گا جب مجھے اور میرے خاندان کو تین وقت پیٹ بھر کے کھانا ملے، میرا کاروبار چلے گا، میرے بچے اچھے سکول جا سکیں گے۔ مجھے علاج اور روزگار کے لیے پاکستان نہ آنا پڑے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو میرے لیے افغان کرنسی کی بہتری بے معنی ہے۔‘ 

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف معاشی ماہرین سے بات کی اور ان کی رائے جاننا چاہی۔

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک حکومت جسے دنیا نے آج تک تسلیم نہیں کیا، اس کی کرنسی کو کس طرح بہترین کرنسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’کرنسی کے بہترین ہونے کا معیار صرف ڈالر کے مقابلے میں کم یا زیادہ ہونا سمجھا جاتا ہے جو مناسب نہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، لارج مینوفکچرنگ یونٹس، سود کی ادائیگی، قرضوں کی ادائیگی سمیت سینکڑوں پیرامیٹرز ہیں جن سے کرنسی کی قیمت طے کی جاتی ہے۔ جب کہ افغانستان میں ایسا کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ اس کے علاوہ افغان کرنسی کی دنیا میں کہیں خریدوفروخت نہیں ہوتی۔‘
 
انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں افغان کرنسی کی قدر طے کرنا غیر ضروری ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے ایسا کر رہی ہیں۔

ظفر پراچہ کے مطابق: ’افغانستان میں ڈالر کی طلب پاکستان سے سمگلنگ کی صورت میں پوری ہوتی ہے۔ وہ اپنے ڈالرز بینکوں میں جمع رکھتے ہیں اور پاکستان سے ڈالرز سمگل کر کے اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب سے پاکستان میں ڈالر سمگلنگ کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے افغانستان کی کرنسی 80 سے کم ہو کر 76 پر آ چکی ہے اور مزید نیچے کی طرف ٹرینڈ جاری ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’افغانستان میں دنیا کی بڑی منی ایکسچینج کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ان کا نیٹ ورک بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ بینکنگ چینلز کے ذریعے ترسیلات آتی ہیں لیکن بینکوں سے ڈالرز لینا تقریباً ناممکن ہے، یعنی کہ ڈالر آنے کا قانونی راستہ ہے جانے کا نہیں۔ 
 
’طالبان کی حکومت آنے کے بعد ابھی تک کوئی کنفرم اعدادوشمار سامنے نہیں آ سکے ہیں کہ دنیا بھر میں پھیلے افغان شہری کتنے ڈالر افغانستان بھیجتے ہیں۔ آخری آفیشل ڈیٹا 2021 کا ہے، جس کے مطابق 300 ملین ڈالر افغان شہریوں نے بھیجے تھے۔ بلوم برگ کو چاہیے کہ وہ مکمل حقائق سامنے لائے۔‘
 
ہارون، ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہیں اور افغان ٹریڈ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغان شہری پاکستان سے بی گریڈ کپڑا خریدتے ہیں اور وہ یہ ادائیگی ڈالرز کی بجائے پاکستانی روپے میں کرتے ہیں۔ جب افغان شہری پاکستان آ کر کپڑا خرید کر غیر قانونی طریقے سے افغانستان لے جا سکتے ہیں تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ آفیشل چینل سے درآمدات کریں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان کرنسی کی کارکردگی بہتر آئی ہے۔ غیر قانونی تجارتی راستے بند کرنے سے افغانی کرنسی کی اصل قدر سامنے آ سکے گی۔‘
 
 
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے دعویٰ کیا کہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کی سالانہ نو ارب ڈالر کی درآمدات کی قیمت پاکستان ادا کرتا ہے۔ 
 
’جب ڈالر ہی پاکستان نے دینے ہیں تو افغان کرنسی کی قیمت زیادہ ہی رہے گی۔ افغان ٹرانزٹ پر پابندیاں لگنے اور ٹیکسز لاگو کرنے کے بعد افغان کرنسی نیچے گر رہی ہے۔‘
 
انہوں نے مزید کہا کہ ’سٹیٹ بینک آف افغانستان اعداد و شمار کا ہیر پھیر بھی کر رہا ہے، لیکن یہ سب عارضی ہے۔ افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کے بعد افغان کرنسی کی اصل قیمت سامنے آ سکے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا کہ کرنسی کا بہتر ہونا معیشت کے بہتر ہونے کی نشانی ہوسکتی ہے لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ تجارتی اعدادوشمار میں بہتری کی وجہ سے کرنسی بہتر ہو رہی ہے یا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت مداخلت سے بہتر ہوئی ہے۔ 

’افغانستان میں شاید حکومتی مداخلت سے کرنسی بہتر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہاں مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
’افغانستان جیسے ممالک میں کرنسی ایکسچینج ریٹ ملک کی معاشی ترقی کی سمت بتانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتے۔ کرنسی بہتر ہونے کا تعلق خوشحالی سے نہیں۔ اگر افغانستان کی کرنسی تجارتی اصولوں کے تحت بہتر ہوئی ہوتی تو پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افغان شہری پاکستان کی بجائے افغانستان میں رہنے کو ترجیح دیتے۔‘
 
اسی طرح لنک ون ایکسچینج کے سی ای او سلیم امجد نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کے مطابق 2021 میں طالبان کے ملک پر قابض ہونے کے بعد سے اقوام متحدہ نے 5.8 ارب ڈالر امداد کی غرض سے بھیجے ہیں۔ اس کی علاوہ کسی بڑی ترسیلات کی رپورٹ نہیں۔ افغان شہری پاکستانی روپے سے ڈالر خرید کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔‘
 
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ پاکستانی بینکوں سے باہر تین ہزار ارب روپے جو کیش موجود ہے اس کی بڑی مقدار خصوصی طور پر پانچ ہزار کے نوٹ افغان شہریوں کے پاس ہیں۔ ’اگر پاکستان میں بڑے کرنسی نوٹ تبدیل کر دیے جائیں تو بھی افغان کرنسی بری طرح متاثر ہو گی۔‘
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت