خواتین کے حقوق افغانستان کا داخلی معاملہ ہے: افغان طالبان

افغانستان کے طالبان حکام نے دوحہ مذاکرات سے قبل کہا ہے کہ خواتین کے حقوق سے متعلق مطالبات حل کرنا ’افغانستان کا داخلی معاملہ‘ ہے۔

افغانستان کے طالبان حکام نے دوحہ میں اقوام متحدہ کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات سے قبل ہفتے کو کہا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق مطالبات حل کرنا ’افغانستان کا داخلی معاملہ‘ ہے۔

طالبان حکومت نے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جنہیں اقوام متحدہ ’صنفی امتیاز‘ قرار دیتا ہے۔

افغان طالبان اتوار کو قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں پہلی بار اپنا وفد بھیج رہاے ہیں۔

باضابطہ مذاکرات کے بعد سول سوسائٹی کے نمائندے بشمول خواتین کے حقوق کے گروپ منگل کو بین الاقوامی نمائندوں اور اقوام متحدہ کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں شرکت کریں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے افغان خواتین کو اہم اجلاسوں میں شامل نہ کرنے اور ایجنڈے میں انسانی حقوق کے مسائل کی عدم موجودگی کی مذمت کی ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ مذاکرات سے قبل کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ طالبان حکام ’خواتین سے متعلق مسائل کو تسلیم کرتے ہیں۔‘ تاہم ساتھ ہی کہا کہ یہ ’مسائل افغانستان کے ہیں۔‘

دوحہ میں افغان وفد کی قیادت کرنے والے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا: ’ہم افغانستان کے اندر ان مسائل کے حل کے لیے منطقی راستہ تلاش کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ خدانخواستہ ہمارا ملک دوبارہ تنازعات اور اختلافات کا شکار نہ ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت دوحہ میں شیڈول اجلاسوں میں پورے افغانستان کی نمائندگی کرے گی اور اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر صرف وہی افغان ہوں گے۔

انہوں نے کہا: ’اگر افغان متعدد چینلز کے ذریعے شرکت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اب بھی بکھرے ہوئے ہیں، ہماری قوم اب بھی متحد نہیں۔‘

یہ مذاکرات اقوام متحدہ نے مئی 2023 میں شروع کیے تھے، جن کا مقصد طالبان حکام کے ساتھ روابط پر بین الاقوامی تعاون میں اضافہ ہے۔

طالبان حکومت کو کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات میں خواتین کے حقوق سے جڑے مسائل بہت سے ممالک کے لیے اہم ہیں۔

طالبان حکام کو گذشتہ سال دوحہ میں ہونے والے پہلے مذاکرات میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دوسری کانفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بات چیت میں افغانستان کے واحد نمائندے ہوں گے۔

مذاکرات کے تیسرے راؤنڈ کے لیے ان کی یہ شرط پوری کردی گئی۔

ذبیح اللہ مجاہد نے آج پریس کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ طالبان حکومت تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کی خواہاں ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ دوحہ میں ’کوئی بنیادی یا اہم بات چیت نہیں ہوگی اور اس اجلاس میں مغربی ممالک کے ساتھ محض خیالات کا تبادلہ ہو گا۔‘

دوحہ مذاکرات کے ایجنڈے میں انسداد منشیات اور معاشی مسائل بھی شامل ہی، جو تباہ حال افغان حکام کے لیے اہم موضوعات ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’ہماری معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں، جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔ اگر معیشت ٹھیک ہو گئی تو دیگر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا