تھرپارکر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر کی کھارسر سائٹ پر گرینائٹ کی مائننگ کی اجازت سے متعلق معاملے پر محکمہ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے ماہرین پر مشتمل جائزہ کمیٹی نے متفقہ طور پر مائننگ کی مخالفت کر دی ہے۔
سندھ کابینہ کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی نے کہا کہ ’جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہ‘ قرار دیے گئے کارونجھر کے کسے حصے میں گرینائٹ کی مائننگ نہیں کی جاسکتی۔
ارکان نے کمیٹی کی میٹنگ میں متفقہ طور پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کارونجھر پہاڑی سلسلہ حصوں میں نہیں بٹا ہوا، بلکہ تمام حصے ایک ہیں اور یہ سلسلہ محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے ’جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہ‘ قرار دیا گیا ہے۔
یہ سلسلہ رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچوری کا حصہ ہونے اور رامسر کنونشن کے تحت اس تمام علاقے کو عالمی طور پر تحفظ حاصل ہے، اس لیے وہاں کسی قسم کی مائننگ نہیں کی جاسکتی۔
کارونجھر پہاڑ سے 1979 سے گرینائٹ نکالا جا رہا ہے مگر 2006 میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور حکومت میں تھر اور خاص طور پر نگرپاکر تک روڈ کی تعمیر کے بعد گرینائٹ نکلانے میں تیزی آئی۔
کارونجھر سے گرینائٹ نکالنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ دو بار فیصلہ دے چکی ہے۔
کارونجھر پہاڑی کے رنگ برنگے پتھر نکلانے کے خلاف تھر سمیت سندھ بھر کے لوگ گذشتہ کئی سالوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ کارونجھر کے تحفظ کے لیے کئی شہروں میں ریلیاں نکالنے کے ساتھ ’سیو کارونجھر‘ کے نام سے متعدد بار سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بھی رہا۔
کمیٹی کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ انواع و اقسام کے خطرے سے دوچار پودوں، جانوروں، پرندوں، ممالیہ، رینگنے والے جانوروں، ایمفیبین (وہ جانور جو زمین اور پانی میں رہ سکتے ہوں) غیر فقاریہ (ان ورٹیبریٹ) جانوروں کا مسکن ہے۔ اس لیے اس پہاڑی سلسلے کے کسی حصے میں گرینائٹ کی مائننگ نہیں کی جاسکتی۔
جائزہ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے اس علاقے کو مکمل تحفظ دینے کے ساتھ اس علاقے سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے ’بائیو ٹورازم‘ یا جنگلی حیات کے مشاہدے والی سیاحت کا آغاز کرنا چاہیے۔
کارونجھر لال رنگ کے گرینائٹ پتھروں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ ہے، جو ویسے تو لال نظر آتا ہے مگر مقامی لوگوں کے مطابق یہاں سفید اور کالے پتھر کے علاوہ پانچ رنگوں کے پتھر پائے جاتے ہیں۔
یہ رنگ برنگے گرینائٹ کے پتھر گھروں میں ٹائلز اور عمارت سازی میں کام آتے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والا پتھر پاکستان کے دیگر علاقوں سے نکلنے والے گرینائٹ سے زیادہ قیمتی ہے۔
کارونجھر کے تحفظ پر تھر کے مقامی شاعروں کی جانب سے اشعار بھی لکھے گئے۔ جن میں شاعر خلیل کمبھر کی نظم ’ڈونگر نے نی واڈھو ویچو، ڈونگر مارو ٻا‘ (پہاڑ کو مت کاٹو، بیچو، پہاڑ ہمارا باپ ہے) کو گلوکار رجب فقیر نے گایا۔ اس نظم کو سوشل میڈیا پر خاصی پذیرائی ملی۔
سندھ کابینہ نے 11 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں کارونجھر میں گرینائٹ کی مائننگ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر ترقی و معدنیات سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا کہ کابینہ نے متفقہ طور پر کارونجھر پہاڑ کو مکمل طور پر محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بقول سید سردار علی شاہ: ’کارونجھر کا پہاڑ ہمیشہ برقرار رہے گا، ہم کارونجھر سے محبت کرتے ہیں۔ کارونجھر پہاڑی سمیت ننگر پارکر کا پورا علاقہ بشمول بھوڈیسر، چوڑیو پروٹیکٹیڈ وائلڈ لائف سینچوری ہے۔
’اس وقت کارونجھر پہاڑ کے کسی بھی حصے میں مائننگ نہیں ہو رہی۔ صرف کھارسر سائٹ ہے جہاں 2000 میں پہلے کوہ نور نامی کمپنی کو لیز دی گئی تھی تاہم بعد میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو لیز دی گئی۔ وہاں اب بھی مائننگ ہو رہی ہے۔‘
سید سردار علی شاہ کے مطابق کھارسر سائیٹ پر مائننگ کی لیز کا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک جائزہ کمیٹی بنائی جائے گی جو اس بات کا تعین کرے گی کہ مائننگ کی اجازت دی جائے یا نہیں۔
اس کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے صوبائی سکریٹری نے یہ کمیٹی تشکل دی، جس میں محکمہ جنگلی حیات، محکمہ جنگلات کے افسران، تحفظ ماحول کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف، عالمی تنظیم برائے تحفظِ قدرت (آئی یو سی این) کے نمائندے شامل تھے۔
کمیٹی جائزہ
انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی کمیٹی اجلاس کے منٹس کی کاپی کے مطابق کمیٹی نے سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2020 کی دفعہ نو، 21 اور فورتھ شیڈول، رولز چھ اور سات، جنگلی حیات اور جنگلی حیات کے تحفظ گاہ کی قانونی تعریف، رن آف کچ وائلڈ لائف سینکچوری کی نوٹیفکیشن، رن آف کچ وائلڈ لائف سینکچوری کا نقشہ اور رامسر کنونشن کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ شدہ رامسر انفارمیشن شیٹ کا جائزہ لیا۔
اجلاس کے منٹس کے مطابق کمیٹی نے جائزہ لیا۔ رن آف کچ وائلڈ لائف سینکچوری کے اہم حصے کارونجھرمیں بڑی تعداد میں خطرے سے دوچار اور قریب قریب ناپید رینگنے والے جانور، پرندے اور ممالیہ جانور پائے جاتے ہیں۔
انتہائی خطرے سے دوچار ستارے دار کچھوے، سخت خطرے سے دوچار ایشیائی جنگلی گِدھ، نیل گائے، چنکارا، ریڈ فاکس، گولڈن جیکل، انڈین گرے مونگوز اور دھاری دار لکڑبگھے بھی کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں پائے جاتے ہیں۔
پانچ صفحات پر مشتمل کمیٹی اجلاس کے منٹس کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے ’سندھ کے پرندے‘ کے طور پر نامزد کیا جانے والا مور اس علاقے میں نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ سرمئی لنگور، گدھ کی انواع و اقسام جن میں شدید خطرے سے دوچار اورینٹل وائٹ بیکڈ گدھ، لمبی چونچ والے گِدھ، سرخ سر والے اور خطرے سے دوچار مصری گدھ شامل ہیں۔
مزید برآں، کارونجھر کے پہاڑ وہ واحد جگہ ہیں جہاں یہ گدھ آرام کرتے ہیں اور افزائش نسل کرتے ہیں۔ یہ گدھ اہم حیاتیاتی انواع ہیں کیونکہ وہ مردہ مویشیوں کو کھا کر قدرتی ماحول میں صفائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ گِدھ مویشیوں کی بیماریوں جیسے اینتھریکس، تپ دق، برسیلوسس، خسرہ، اور متعدی نمونیا کے جراثیم کے خاتمے کے ذریعے بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کمیٹی کے مطابق پاکستان حیاتیاتی تنوع کے کنونشن کا رکن ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو دستخط کنندگان ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی علاقائی حدود میں پائے جانے والے عالمی سطح پراہم حیاتیاتی تنوع یا زندگی کی اقسام کو محفوظ رکھنے کے لیے انفرادی طور پر اقدامات کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی کے مطابق: ’گِدھ کی آبادی میں کمی کی موجودہ شرح کی بنیاد پر، لمبی چونچ والا گدھ جنگل میں چند سالوں کے اندر معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور جلد ہی عملی طور پر معدوم ہو جائے گا۔ اگر اس نسل کو زندہ رہنے کی کوئی امید ہے تو اس کی افزائش نسل کے مقامات کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔
’کارونجھر کے پہاڑوں اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف لمبی چونچ والے گدھ بلکہ دیگر خطرے سے دوچار انواع کی افزائش نسل کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔
’یہ بات اہم ہے کہ کارونجھر کے پہاڑوں میں لمبی چونچ والے گدھوں کی افزائش کی کالونی پاکستان میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے بڑی آبادی ہے، اور اس کی حفاظت اس نسل کے پورے دائرہ کار میں اس کے تحفظ کے لیے اہم ہوگی۔‘
اجلاس کے منٹس میں مزید بتایا گیا کہ آئی یو سی این پاکستان کی جانب سے حالیہ سروے میں اس علاقے میں 149 پودوں کی انواع دریافت کی گئیں، جن میں سے کچھ اس خطے کے لیے پہلے نامعلوم تھیں۔
سروے میں اس علاقے میں کل 205 پرندوں کی انواع، 41 ممالیہ جانوروں کی انواع، 31 رینگنے والے جانوروں اور ایمفیبین کی انواع، اور 1,065 غیر فقاریہ جانوروں کی انواع کو بھی دستاویزی شکل دی گئی، جن میں شدید خطرے سے دوچارگگرال شامل ہے، جو تقریباً تمام پہاڑوں میں بکھرا ہوا پایا جاتا ہے اور جسے سندھ حکومت نے محفوظ قرار دیا ہے۔
کمیٹی ارکان کے مطابق رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچوری موسم سرما میں سرد ممالک سے آنے والے پرندوں کے کچھ وقت گزارنے کے لیے استعمال کی جانے والے انڈس فلائی وے کا اہم حصہ ہے۔
سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کی دفعہ 67 کثیرالجہتی ماحولیاتی معاہدوں کی پابندی کی ضمانت دیتا ہے، جس میں حکومت پاکستان رامسر کنونشن کا ایک فریق ہے۔
اجلاس کے شرکا نے متفقہ طور پر سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد کے 16 اکتوبر 2023 اور سندھ ہائی کورٹ میرپورخاص کے 2024 میں دیے گئے فیصلوں اور احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے محکمہ مائنگ کے اجلاس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔
کمیٹی نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ احکامات فریقین پر لازم ہیں اور ان پر پوری روح کے ساتھ عمل کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے رہنما اصول وضع کیے ہیں جو صوبائی، قومی اور بین الاقوامی قوانین اور کثیرالجہتی ماحولیاتی معاہدوں کے دائرے میں ہیں۔ سول سوسائٹی جن قوانین کے ذریعے چلتی ہے، ان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں حیاتیاتی تنوع اور انسانی فیصلوں کا تحفظ اہمیت رکھتا ہے۔
’جہاں انواع کا تنوع اور انسان کے فیصلے نازک ماحولیاتی نظاموں کے تحفظ سے جڑے ہوتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ وہ فیصلے کیے جائیں جو قومی اور بین الاقوامی مفادات دونوں کی حفاظت کریں۔ تاہم، متعلقہ محکمہ مائننگ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کو سندھ کابینہ کے سامنے پیش نہیں کیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے واضح احکامات جاری کیے تھے کہ کارونجھر پہاڑی میں تاریخی یادگاروں کی دریافت کے علاوہ کسی قسم کی کھدائی نہیں کی جاسکتی۔‘
کمیٹی نے مزید کہا: ’کارونجھر کی مکمل رینج قانونی طور پر ایک یادگار ہے اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی کسی حصے کو ممنوعہ کھدائی کے لیے دیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی قسم کی کھدائی نہ صرف اس کی خوبصورتی کو تباہ کرے گی بلکہ مائننگ کے باعث موجودہ جغرافیائی شکل کو بھی تباہ کر دے گا۔‘
کمیٹی کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کے جنگلات اور جنگلی حیات کے محکمے کو ان تمام جانوروں، پرندوں کے لیے پناہ گاہ کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تمام فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا، جن کا مسکن کارونجھر ہے یا تھا۔ اس کے علاوہ شجرکاری اور وہاں موجود جین مذہب کے قدیم مندروں کی بحالی اور تحفظ کا حکم دیا تھا۔
کمیٹی ارکان نے مزید کہا کہ جس طرح ماضی میں کیرتھر نیشنل پارک میں بین الاقوامی ماحولیاتی کنونشنز کے تحت موسمیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے یونیورسٹی آف میلبورن نے سٹڈی کی تھی، اسی طرح آزاد غیر جانبدار بین الاقوامی ماہرین سے کارونجھر پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
کمیٹی نے تجویز دی کہ رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچوری میں ’ایکو ٹورازم‘ کے لیے ڈبلیو ڈبیلو ایف اور آئی یو سی این فزیبلیٹی رپورٹ بنائے۔
کمیٹی نے مزید سفارش کی کہ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اور مینجمنٹ رولز 2022 کے رول سات کے ذیلی رول چھ کے تحت، کمیٹی کے اس اجلاس میں کی گئیں سفارشات وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس جمع کرائی جائیں، تاکہ ان سفارشات کی روشنی میں احکامات جاری کیے جائیں۔
ان سفارشات میں جنگلی حیات سینکچوری میں کان کنی کی ممانعت، نیشنل پارک، وائلڈ لائف سینکچوری، سمندری محفوظ علاقہ، گیم ریزرو کو قانون کے تحت تحفظ دینے، سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2020 کے شیڈول فور کے مطابق سندھ کے حیاتیاتی تنوع (بشمول زمینی، آبی، جینیاتی اور ثقافتی) کو محفوظ رکھا جائے گا اور کسی نئے قانون آنے تک اس طرح کے کاموں کے استعمال پر مکمل پابندی شامل ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سیکریٹری نے کمیٹی کی شفارشات چیف سیکریٹری کو ارسال کردیں۔
اس سلسلے میں سندھ حکومت کا موقف جاننے کے لیے وزیراعلی ہاؤس رابطہ کیا گیا تو وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’کمیٹی کی جانب سے دی گئیں سفارشات تاحال وزیراعلی ہاؤس کو نہیں ملیں ہیں۔ جب ملیں گی، تو ان سفارشات کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
’اگر کمیٹی نے سفارش کی کہ مائننگ نہیں کی جاسکتی تو پہلے سے جاری لیز کو منسوخ کر دیا جائے گا۔‘