صوبہ سندھ کی کابینہ نے تھر پارکر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر جو ’جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہ‘ ہے میں گرینائٹ کی مائننگ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کابینہ کے فیصلے کے بعد محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے بھی کارونجھر پہاڑی سلسلے میں کسی قسم کی مائننگ کی اجازت نہ دیے جانے کا اعلان کیا۔
جمعرات کو وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر ترقی و معدنیات سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا کہ کابینہ نے متفقہ طور پر کارونجھر پہاڑ کو مکمل طور پر محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سید سردار علی شاہ نے کہا کہ گذشتہ نگران حکومت کے دور میں بہت ابہام پیدا کیے گئے اور اس معاملے کو متنازع بنایا گیا کہ سندھ حکومت کارونجھر پہاڑی کو کاٹنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کارونجھر پر مائننگ نہیں چاہتی۔‘
سید سردار علی شاہ کے مطابق: ’پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ کارونجھر سے منسلک تمام پہاڑ برقرار رہیں گے، کوئی بھی کسی قسم کی مائننگ نہیں ہو گی۔
’کارونجھر کا پہاڑ ہمیشہ برقرار رہے گا، ہم کارونجھر سے محبت کرتے ہیں۔ کارونجھر پہاڑی سمیت ننگر پارکر کا پورا علاقہ بشمول بھوڈیسر، چوڑیو پروٹیکٹیڈ وائلڈ لائف سینچوری ہے۔
’کارونجھر فقط پتھر کا نام نہیں، کارونجھر ایک تاریخ ہے مذہبی عقائد ہیں۔ کوئی بھی ترقی مقامی افراد سے رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘
سید سردار علی شاہ کے مطابق کارونجھر پہاڑی کی جو چھوٹی بڑی چوٹیاں ہیں ان سے بارش کا پانی آتا ہے اور سندھ حکومت کی جانب سے پارکر میں بنائے گئے چھوٹے بڑے ڈیم بھرتے ہیں اور اس پانی سے پارکر میں زراعت ہوتی ہے۔
بقول سید سردار علی شاہ: ’وہاں ہونے والی زراعت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ گذشتہ سال اس علاقے میں پانچ ارب روپے پیاز کی پیداوار سے حاصل کیے گئے۔‘
وزیر ترقی معدنیات سندھ کے مطابق اس وقت کارونجھر پہاڑ کے کسی بھی حصے میں مائننگ نہیں ہو رہی۔ ’صرف کھارسر سائٹ ہے جہاں سال 2000 میں پہلے کوہ نور نامی کمپنی کو لیز دی گئی تھی تاہم بعد میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو لیز دی گئی۔ وہاں اب بھی مائننگ ہو رہی ہے۔‘
کھارسر سائٹ کارونجھر کے پہاڑوں سے 25 کلومیٹر دور ویرا واہ کے قریب واقع ہے۔ یہ سائٹ بھی ’جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہوں‘ میں شامل ہے۔
سید سردار علی شاہ کے مطابق: ’کھارسر سائٹ پر دی جانے والی لیز کے متعلق ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس میں محکمہ جنگلی حیات، محکمہ جنگلات، آئی یو سی این اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے نمائندے شامل ہوں گے اور جو لیز کا جائزہ لیں گے۔
’کمیٹی کی شفارشات پر فیصلہ کیا جائے گا کہ لیز کینسل کی جائے یا جاری رکھی جائے۔‘
کارونجھر سے گرینائٹ نکالنے پر گذشتہ چند سالوں سے سندھ میں احتجاج ہو رہا ہے۔
کارونجھر پہاڑی سلسلہ تھرپارکر ضلع کے پارکر والے حصے میں واقع ہے۔ انڈین سرحد سے متصل اس منفرد پہاڑی سے لگنے والی انڈین سرحد کے اس پار انڈین ریاست گجرات کا رن آف کچھ واقع ہے۔
انڈین گجرات، راجستھان اور وادی مہران کی قدیم انسانی تہذیبوں کا سنگم کارونجھر 23 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے جہاں سندھ کے دیگر خطوں کی نسبت جنگلی حیات کی کئی اقسام، جڑی بوٹیوں اور پودوں کی اقسام کے لحاظ سے مالامال ہے اور ممکنہ طور پر اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کارونجھر اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں پہاڑ، رن آف کچھ اور ریت والے تھر کا سنگم ہوتا ہے۔
کارونجھر لال رنگ کے گرینائٹ پتھروں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ ہے، جو ویسے تو لال نظر آتا ہے مگر مقامی لوگوں کے مطابق یہاں سفید اور کالے پتھر کے علاوہ پانچ رنگوں کے پتھر پائے جاتے ہیں۔
یہ رنگ برنگے گرینائٹ کے پتھر گھروں میں ٹائلز اور عمارت سازی میں کام آتے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والا پتھر پاکستان کے دیگر علاقوں سے نکلنے والے گرینائٹ سے زیادہ قیمتی ہے۔
کارونجھر پہاڑ سے 1979 سے گرینائٹ نکالا جا رہا ہے مگر 2006 میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور حکومت میں تھر اور خاص طور پر نگرپاکر تک روڈ کی تعمیر کے بعد گرینائٹ نکلانے میں تیزی آئی۔
کارونجھر سے گرینائٹ نکالنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ دو بار فیصلہ دے چکی ہے۔ نگران سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی، جس پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔
سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد نگران حکومت نے محکمہ جنگلی حیات سے کارونجھر کے متعلق ایک رپورٹ طلب کی تھی، جس میں محکمہ جنگلی حیات نے واضح طور پر لکھا تھا کہ کارونجھر ’جنگلی حیات کا محفوظ مقام‘ قرار دیا گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کی مائننگ نہیں کی جاسکتی۔
جمعرات کو سندھ کابینہ نے اس رپورٹ کی توثیق کرتے ہوئے اعلان کیا کارونجھر میں کسی بھی قسم کی مائننگ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سید سردار علی شاہ کے مطابق سندھ حکومت سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے گی کہ کارونجھر اور ننگرپارکر پروٹیکٹیڈ ایریاز ہیں، جسے سپریم کورٹ بھی پروکٹیٹیڈ ایریا قرار دے۔