بھیڑیوں کے ایک ڈار نے شمالی انڈیا کے کئی دیہاتوں میں دہشت پھیلا رکھی ہے جو رات کے وقت گنے کی لمبی فصلوں سے نکل کر مون سون کے حبس زدہ موسم میں کھلے آسمان تلے سوئے بچوں کو کھینچ کر لے جاتے ہیں۔
ریاست اتر پردیش کے بہرائچ میں ان درندوں کا ایک ہی ڈار کم از کم 10 بچوں کو مار کر کھا گیا۔
محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم کی نشاندہی کرتا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجوہات میں جانوروں کے مسکن کی کمی اور موسمیاتی بحران سمیت دیگر عوامل ہیں۔
محکمہ جنگلات کے عہدے دار نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ رات کے وقت 100 دیہاتوں میں خوف کی فضا طاری رہتی ہے جہاں یہ ڈار سوتے ہوئے بچوں کو اٹھا کر جاتا ہے اور گھنٹوں بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔.
اس خطے میں غربت کے شکار 35 سے زائد دیہات بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو مون سون میں 30 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ کی گرمی میں بغیر دروازوں اور ڈھلوانی چھتوں والے گھروں میں سوتے ہیں۔
انسانوں اور جانوروں میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تصادم سے پریشان محکمہ جنگلات کے حکام کو حل تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
خوف زدہ مقامی لوگوں کے لیے ان کا بنیادی مشورہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو گھر کے اندر رکھیں خاص طور پر رات کے وقت جب اس ڈار کا شکار کے لیے باہر جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
انڈین حکام نے بچوں پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں میں سے ایک کو پکڑ لیا ہے۔
بہرائچ کے محکمہ جنگلات کے افسر اجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں پہلی بار 18 مارچ کو ایک بچے کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ ملی لیکن ہمیں درندوں کے پنچوں کے نشان نہیں ملے۔
’مارچ میں ہمیں بچوں کی چند پراسرار گمشدگیوں کی رپورٹس ملیں لیکن اگلے تین ماہ تک خاموشی رہی۔ 17 جولائی کو ایک اور بچے پر حملے کے ساتھ ہی لوگ دوبارہ خوف زدہ ہو گئے۔‘
ان کے بقول: ’ہم نے محسوس کیا کہ ان بھیڑیوں کے منہ کو انسانی گوشت کا ذائقہ لگ گیا ہے اور ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔‘
اجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں چھ بھیڑیے شامل ہیں جن میں نر بھی ہیں جو شکار کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور کھیتوں میں گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چار درندوں کو پکڑ لیا گیا ہے جبکہ دو کا ابھی تک سراغ لگایا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تھرمل ڈرون، کیمرے، جنگلوں اور درجنوں اہلکار روزانہ رات دن گشت کرتے ہیں، گنے کے کھیتوں میں تلاشی کا کام کرتے ہیں، بھیڑیوں کا سراغ لگاتے ہیں اور انہیں پکڑتے ہیں۔
’ہم انہیں گاؤں سے دور لے جانے کے لیے بہترین دستیاب ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔‘
بہرائچ میں گنے کے گھنے کھیت بھیڑیوں کو آرام کرنے اور مکمل طور پر چھپنے میں مدد دیتے ہیں اور یہ اہلکاروں کے لیے انہیں بھگانا مشکل بنا دیتے ہیں کیوں کہ بہرائچ میں تقریباً 80 فیصد کھیت گنے کے ہیں۔
مزید برآں ماحولیاتی عوامل جیسے قریبی گھاگھرا دریا میں سیلاب نے بھیڑیوں کو دیہاتوں تک دھکیل دیا ہے جہاں وہ بھوکے ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ان جگہوں پر آسانی سے شکار نہیں کر پاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی اہلکار مونیکا رانی اور محکمہ جنگلات کے رینجرز نے اس علاقے میں گشت شروع کر دیا ہے اور دیہاتیوں کو گرمی کے باوجود ہر قیمت پر گھر کے اندر سونے کے لیے کہا ہے۔
گذشتہ ہفتے ایک شیر خوار بچے پر حملے کے بعد مونیکا رانی نے گاؤں والوں کو بتایا کہ ’لوگوں کو کھلے آسمان تلے نہیں سونا چاہیے، انہیں اپنے گھروں کے اندر یا چھتوں پر سونا چاہیے اور کچھ دن احتیاط کرنی چاہیے۔ بھیڑیوں کا ڈار نئے دیہاتوں پر حملہ کر رہا ہے۔‘
پیر کو ڈار کے ہاتھوں ایک اور بچے کی موت سے چند گھنٹے قبل انہوں نے کہا: ’ہم نے ان دیہاتوں میں بھیڑیوں کے خلاف ایک اہم فورس تعینات کی ہے جہاں یہ واقعات پیش آئے یا لوگ زخمی ہوئے، لیکن ہمارا چیلنج یہ ہے کہ بھیڑیے بہت چالاک ہیں اور اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں۔‘
گاؤں والے بھی اپنی اپنی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ ایک دیہاتی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’جب بھی ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہم گروپس میں جاتے ہیں، ہم رات کو کہیں بھی اکیلے جانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ حال ہی میں بھیڑیوں کے حملوں کے ایسے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔‘
سینیئر فارسٹ اہلکار آکاش دیپ بدھوان، جنہوں نے اس ڈار میں شامل ایک بڑے بھیڑیے کی تلاش کرنے اور اسے پکڑنے کی مہم کی قیادت کی، کہتے ہیں کہ وہ ان کو تلاش کرنے کے لیے جانوروں کی بنیادی جبلت کے مطابق کارروائی کر رہے ہیں۔
بھیڑیوں کو گاؤں والوں کے قریب آنے سے روکنے کے لیے لاؤڈ سپیکر، فلڈ لائٹس، ہاتھی کے گوبر اور پیشاب کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول: ’ہم نے رہائشی علاقوں سے بھیڑیوں کے ڈار کو دور رکھنے کے لیے ہاتھی کے گوبر اور پیشاب کا استعمال کیا۔ خشک گوبر کو جلانے سے علاقے میں ہاتھیوں کی موجودگی کا احساس پیدا ہو جائے گا اور چونکہ بھڑیے فطرتاً شرمیلے جانور ہیں اور تصادم سے بچتے ہیں۔
’اس لیے ہم ان کی اس جبلت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں لیکن گنے کے کھیت بہت گھنے ہیں جو تھرمل ریڈنگ میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔‘
یہ کوئی عام واقعہ نہیں کیوں ایسے صرف تین دیگر دستاویزی کیسز ہیں جہاں لوگوں کو بھیڑیوں کے خلاف ایسے حفاظتی اقدامات کرنے پڑے اور تینوں واقعات 1997 اور 1999 کے درمیان اتر پردیش ہی میں سامنے آئے۔
وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سینیئر سائنس دان بلال حبیب، جنہوں نے 24 سال تک بھیڑیوں کا مطالعہ کیا، کہتے ہیں کہ یہ جانور محض حالات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
بلال حبیب نے بتایا: ’ان کے گھروں کے ارد گرد (لمبی گھاس) کا احاطہ بھیڑیوں کو انسانی آبادیوں سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جو اس قسم کے حالات یا واقعات کو جنم دیتا ہے۔
’ایک بار جب بھیڑیے کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ انسانی بچوں کو لے جانا آسان ہے تو اس کے بعد وہ اسے اپنی عادت بنا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں کہ اس جانور نے انسانوں کو مارنے کا فیصلہ کیا ہو بلکہ ایسا ان حالات کی وجہ سے ہے جو انہیں بچوں کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
بلال نے کہا کہ ایک بار بھیڑیے پکڑے جائیں اور جب حکام یہ ثابت کریں کہ وہ ہی بچوں کی موت کے پیچھے تھے تو بھی ان جانوروں کو انسانی آبادیوں سے بہت دور چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
ان کے بقول: ’90 فیصد سے زیادہ انڈین بھیڑیے انسانوں کے قریب رہتے ہیں لیکن اگر انسانوں اور جانوروں میں تصادم بڑھتا ہے تو دیہات والے ممکنہ طور پر زہر کے ذریعے گاؤں کے قریب موجود تمام بھیڑیوں کو مار ڈالتے ہیں لیکن ہمیں ایسا ہونے سے روکنا چاہیے۔‘
© The Independent