شدید بارشیں بارانی علاقوں کے لیے بہتر ہیں: ماہرین

پاکستان میں حالیہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی شدید مون سون بارشیں جہاں بیشتر علاقوں میں جانی و مالی نقصان کا باعث بنی ہیں، وہیں ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ بارشیں ملک کے بارانی خطوں پر مثبت اثر ڈال کر ان کی قسمت بدل سکتی ہیں۔

صحرائے تھر، پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے، جس کا دنیا میں بڑی انسانی آبادی رکھنے والے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے (امر گرڑو/ انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں حالیہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی شدید مون سون بارشیں جہاں بیشتر علاقوں میں جانی و مالی نقصان کا باعث بنی ہیں، وہیں ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ بارشیں ملک کے بارانی خطوں (بارش کے پانی پر انحصار کرنے والے علاقوں) پر مثبت اثر ڈال کر ان کی قسمت بدل سکتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں شامل پاکستان کو شدید قدرتی آفات جیسے خشک سالی، سیلاب، ہیٹ ویو، فلیش فلڈز، سطح سمندر میں اضافے اور شمالی علاقہ جات میں برف باری کے اوقات میں تبدیلی جیسے واقعات کا سامنا ہے۔

2022 میں ملک بھر میں ہونے والی شدید بارشوں کے باعث ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی تھی، جس کے باعث سینکڑوں اموات کے ساتھ ساتھ شدید مالی نقصان ہوا تھا۔

چین اور انڈیا کی طرح وسیع رقبے کے بجائے پاکستان جغرافیائی طور پر ایک لمبائی میں پھیلا ہوا ملک ہے، جس کے شمال میں دنیا کے بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم اور جنوب میں بحیرہ عرب ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے دریا دریائے سندھ کے دونوں اطراف تقریباً ایک سو کلومیٹر تک دریائی پانی پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مشرقی حصے میں موجود بڑا رقبہ بھی دریا سے پانی حاصل کرتا ہے۔

مگر جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ کے مشرق میں واقع صحرائے چولستان، خیبر پختونخوا کے جنوب مشرق میں واقع بڑا رقبہ، ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا وسیع رقبہ، سندھ کے مشرق میں انڈین سرحد کے ساتھ پنجاب تک پھیلا صحرائی خطہ، دریائے سندھ کے مشرق میں بلوچستان کی سرحد کے ساتھ کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں واقع کوہستان اور ضلع دادو میں کاچھو سمیت وسیع علاقہ بارانی ہے۔

ان خطوں میں دریا کا پانی نہیں پہنچتا اور یہاں زندگی کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ ان بارانی خطوں میں تاریخی طور پر خشک سالی اور قحط عام بات سمجھی جاتی تھی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں ہر سال شدید مون سون بارشوں کا ان بارانی خطوں پر کس طرح مثبت اثر پڑ رہا ہے؟ یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل، عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے اور ماحولیاتی تبدیلی پر متعدد عالمی اداروں کے ساتھ تحقیق کرنے والے ماہر ڈاکٹر غلام رسول سے تفصیلی گفتگو کی۔

ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ’تاریخی طور پر پاکستان میں زیادہ مون سون بارشیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں برستی تھیں۔ ہر سال اس موسم کے آغاز میں مون سون کے گیٹ وے کے طور پر جانے جانے والے کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکرا کر اسلام آباد، فیصل آباد، ساہیوال سے پنجاب کے میدانی علاقوں میں بارشیں ہوتی تھیں۔

’اس کے علاوہ اس سسٹم کا دوسرا حصہ ہندوکش کے پہاڑوں سے ٹکرا کر خیبر پختونخوا میں بارش لاتا تھا، جبکہ بلوچستان اور سندھ میں تاریخی طور پر مون سون بارشیں کم ہی ہوتی تھی۔ ان خطوں میں عام طور پر خشک سالی اور قحط ریکارڈ کیے جاتے تھے۔‘

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’1997 اور 1998 کے درمیان عالمی درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھانے والے موسمیاتی مظہر ’ال نینیو‘ کی شدت کے باعث دنیا کے موسم یکسر تبدیل ہوئے، وہیں اس کے زیر اثر پاکستان کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔

’1998 میں پاکستان شدید قحط سالی کا شکار ہوا، جس کے تحت سندھ کے صحرائے تھر سمیت تمام صحرائی علاقوں، پنجاب کے چولستان، تھل اور بلوچستان کے مختلف خطوں میں شدید قحط شروع ہوا، جو 2002 تک جاری رہا۔

’قحط کے دوران غذائی کمی کے باعث ان خطوں میں متعدد انسانوں کی اموات کے ساتھ بڑی تعداد میں مویشی بھی مر گئے ہوئے، جو ان خشک خطوں میں روزگار کا بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’2000 کی دہائی سے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم تبدیل ہونا شروع ہوئے اور مون سون سسٹم کے تحت تاریخی طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بجائے مون سون کی بڑی مقدار سندھ اور بلوچستان میں برسنے لگی۔ یہ تبدیلی 2011 کے بعد سے مسلسل چل رہی ہے۔

’2011 میں تھر پارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر مٹھی میں تین سے چار روز میں 1400 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ یہ ایک نیا ریکارڈ تھا، جو اس سے پہلے اس خطے میں نہیں دیکھا گیا۔ شدید بارشوں کے باعث صحرائی علاقے میں کشتیاں بھی چلیں۔

’2011 کے بعد سے سندھ اور بلوچستان کے خشک خطوں میں مسلسل بارشیں ہو رہی ہیں۔ 2020، 2022، 2023 اور اس سال بھی تاریخی طور پر خشک ان خطوں میں مون سون بارشیں ریکارڈ کی جارہی ہیں، جس کے باعث ماضی میں بنجر رہنے والے یہ خطے سر سبز ہو رہے ہیں۔‘

پاکستان میں کتنے صحرائی علاقے ہیں؟

پاکستان میں سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں منفرد صحرا واقع ہیں، جو ملک کے جغرافیائی و موسمیاتی تنوع کا ایک حصہ ہیں اور اپنے اندر مختلف قسم کی نباتات اور حیاتیات کی خصوصیات رکھتے ہیں۔

۔ سندھ کے مشرق میں انڈین سرحد کے ساتھ پھیلا صحرائے تھر، پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے، جس کا دنیا میں بڑی انسانی آبادی رکھنے والے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے۔

۔ سندھ کے جنوب میں واقع ایک صحرا رن آف کچھ ہے، جس کا بڑا حصہ انڈیا میں ہے، مگر کچھ حصہ ضلع تھرپارکر میں واقع ہے۔ یہ نمکین زمین پر مشتمل ایک منفرد صحرا ہے۔

۔ سندھ کے شمال مغربی حصے میں صحرائے گوران واقع ہے۔ یہ ایک چھوٹا اور نسبتاً کم مشہور صحرا ہے۔

۔ پنجاب کے وسطی حصے میں صحرائے تھل واقع ہے۔ یہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع ہے اور اپنی منفرد ریتیلی زمین کی وجہ سے مشہور ہے۔

۔ پنجاب کے جنوبی حصے میں صحرائے چولستان واقع ہے، جسے ’روہی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

۔ بلوچستان کے مغربی حصے میں واقع صحرائے خاران ایک بنجر اور خشک صحرا ہے، جو اپنی سنگلاخ اور صحرائی زمین کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

صحرائے تھر دنیا کا ’قدرتی ہریالی والا واحد زرخیز‘ صحرا؟

صحرائے تھر کو کرہ ارض پر موجود تین درجن کے قریب صحراؤں میں ’واحد زرخیز‘ صحرا مانا جاتا ہے، جہاں قدرتی طور پر بارش کے بعد سبزہ اگ آتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل کے نیگیو صحرا کو جدید زرعی تکنیکوں جیسے ڈرپ ایریگیشن، پانی کو میٹھا کرنےکے لیے ڈی سیلینیشن اور ٹریٹ کیے ہوئے فضلے کے پانی کے استعمال کے ذریعے زرخیز اور پیداواری بنایا گیا ہے اور یہاں پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔

پیرو میں ایکا اور نازکا کے علاقوں کے ساتھ لگنے والے ساحلی صحرا کو زیر زمین پانی کے ذخیروں اور اینڈیز پہاڑوں سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی کو استعمال کر کے زرخیز بنایا گیا ہے۔ قدیم تہذیبوں جیسے نازکا نے جدید آبپاشی نظاموں کا استعمال کیا اور پانی کے انتظام کے طریقوں کے ذریعے یہاں جدید زراعت بھی پروان چڑھی ہے۔

ان دونوں صحراؤں کو پانی کا بندوبست کرکے آباد کیا جاتا ہے، مگر صحرائے تھر دنیا میں ایسا خطہ ہے جہاں قدرتی طور پر بارش کے نتیجے میں سبزہ اگ آتا ہے۔

صحرائے تھر کی زرخیزی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا: ’تاریخی طور دریائے سرسوتی موجودہ صحرائے تھر کے درمیان سے گزرتا تھا، جو ہزاروں سال قبل گم ہوگیا، مگر دریائے سرسوتی نے اس صحرا کی ریت کے ساتھ مٹی شامل کر دی۔

’اس مٹی کی وجہ سے یہ صحرا اتنا زرخیز ہے اور مسلسل بارشوں کے بعد اب یہ ایک آباد خطہ بنتا جا رہا ہے۔‘

خشک خطوں میں ماحولیاتی تبدیلی ایک موقع!

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے باعث جہاں مون سون کی شدید بارشیں سیلاب اور تباہی کا سبب بن رہی ہیں، وہاں ان بارشوں کو خشک اور بارانی خطوں میں مواقع کے طور پر لینا چاہیے۔

انہوں نے بتایا: ’تھر جیسے خشک سالی کے شکار خطے میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اب زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں، لہذا یہاں چھوٹے چھوٹے تالاب بنانے کی ضرورت ہے۔ اس خطے میں روایتی طور پر ایسے قدرتی تالاب ہوا کرتے تھے، جنہیں مقامی زبان میں ’ٹوبا‘ یا ’ترائی‘ کہا جاتا ہے۔

’ان تالابوں کے باعث بارش کا پانی ایک جگہ کھڑا ہو کر سیم کر زمین کے اندر چلا جائے گا، جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا اور اس سے وہاں قدرتی طور پر سبزہ اگنا شروع ہوجائے گا۔ یہ سبزہ مویشیوں کے چارے کے طور پر کام آئے گا۔ ایسا کرنے سے اس خطے میں معاشی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: 'اس عرصے کے بعد ان تالابوں میں مٹی جمع ہوگی اور تالاب کے برابر درخت اگ جائیں گے، جس کے باعث پانی بخارات کی صورت میں بھاپ بن کر اڑے گا نہیں اور یہ تالاب مستقل طور پر پانی سے بھرے ہوئے ہوں گی۔ اس پانی سے کھیتی باڑی بھی کی جاسکتی ہے۔‘

بقول ڈاکٹر غلام رسول: ’حکومت صرف لوگوں کو ایک بار سکھا دے، باقی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کر سکتے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اسی طرح بلوچستان کا پہاڑی علاقہ ہے، وہاں پہاڑی کے پتھر گھس کر زمین کو انتہائی زرخیز بنایا جا سکتا ہے۔ وہاں تالاب بنا کر بارش کا پانی جمع کرنے سے سبزہ اُگ سکتا ہے۔ اس سبزے سے ان خطوں میں روزگار کے بڑے ذریعے مویشیوں کو پالنے میں آسانی لائی جاسکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات