مون سون کی بارشوں کے آغاز سے قبل پاکستان میں 14 سالہ شاملہ اور ان کی 13 سالہ بہن آمنہ کی پیسوں کے عوض شادی کر دی گئی، یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو ان کے والدین نے سیلاب کے خطرے سے بچنے کے لیے کیا تھا۔
شمائلہ نے ایک زیادہ خوش حال زندگی کی امید میں اپنے سے دگنی عمر کے شخص سے شادی کرنے کے بعد اے ایف پی کو بتایا: ’میں شادی کی خبر سن کر خوش تھی۔۔۔مجھے لگا کہ میری زندگی آسان ہو جائے گی۔
’میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ بارشوں کی وجہ سے جو کچھ تھا وہ بھی نہ رہا۔‘
پاکستان میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کی بلند شرح حالیہ برسوں میں کچھ کم ہوئی تھی لیکن 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اقتصادی عدم تحفظ کے باعث اب ایسی شادیاں بڑھ رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جولائی سے ستمبر تک جاری رہنے والا مون سون لاکھوں کسانوں اور فوڈ سکیورٹی کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انہیں زیادہ بھاری اور طویل بنا رہی ہے جس سے زمین کھسکنے، سیلاب اور طویل مدتی فصلوں کے نقصان کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
سندھ کی زرعی پٹی کے بہت سے گاؤں 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے ابھی تک نہیں نکل سکے۔ اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو پانی میں ڈبو دیا، لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا اور فصلیں تباہ کر دیں۔
کم عمری کی شادیوں سے نمٹنے کے لیے علما کے ساتھ مل کر کام کرنے والی این جی او سجاگ سنسار کے بانی معشوق برہمانی نے کہا کہ ’اس کی وجہ سے ’مون سون دلہنوں‘ کا ایک نیا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔
’خاندان زندہ رہنے کے لیے کوئی بھی ذرائع استعمال کریں گے۔ پہلا اور سب سے واضح طریقہ یہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کی پیسوں کے بدلے شادی کر دیں۔‘
معشوق برہمانی نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد سے ضلع دادو کے گاؤں میں بچوں کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے اور کئی مہینوں تک ایک جھیل کا منظر پیش کرتا رہا تھا۔
خان محمد ملاح گاؤں میں، جہاں جون میں شمائلہ اور آمنہ کی مشترکہ تقریب میں شادی ہوئی، گذشتہ مون سون کے بعد سے 45 کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، جن میں سے 15 اس سال مئی اور جون میں ہوئیں۔
گاؤں کی رہائشی 65 سالہ مائی حجانی نے کہا کہ ’2022 کی بارشوں سے پہلے ہمارے علاقے میں اتنی کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کی کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی۔
’وہ زمینوں پر کام کرتی تھیں، لکڑی کے بستر کے لیے رسی بناتی تھیں، مرد مچھلی پکڑنے اور زراعت میں مصروف رہتے تھے۔ ہمیشہ کرنے کے لیے کام ہوتا تھا۔‘
والدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غربت سے بچانے کے لیے ان کی جلدی شادی کی، عام طور پر پیسوں کے بدلے۔
شمائلہ کی ساس، بی بی سچل نے کہا کہ انہوں نے نوجوان دلہن کے والدین کو دو لاکھ پاکستانی روپے (720 ڈالر) دیے۔ یہ ایک ایسے علاقے میں بڑی رقم ہے جہاں زیادہ تر خاندان روزانہ تقریباً ایک ڈالر پر گزارہ کرتے ہیں۔
نجمہ علی کی جب 14 سال کی عمر میں 2022 میں شادی ہوئی تو وہ شروع میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہنے، جیسا کہ پاکستان میں رواج ہے، پر خوش تھیں۔
ان کا کہنا تھا: ’میرے شوہر نے میری شادی کے لیے میرے والدین کو دو لاکھ 50 ہزار روپے دیے، لیکن یہ قرض (تیسرے فریق سے لیا) تھا اور اب اسے واپس کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اپنے چھ مہینے کے بچے کو گود میں لیے انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے لگا کہ مجھے لپ سٹک، میک اپ، کپڑے اور برتن ملیں گے۔ اب میں اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ (والدین کے) گھر واپس آگئی ہوں کیونکہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔‘
ان کا گاؤں، جو مین نارا وادی میں ایک نہر کے کنارے واقع ہے، بنجر ہے اور آلودہ پانی میں مچھلیاں نہیں بچی۔
58 سالہ حاکم زادی اور نجمہ کی والدہ نے بتایا: ’ہمارے ہاں سرسبز چاول کے کھیت تھے جہاں لڑکیاں کام کرتی تھیں۔ وہ بہت سی سبزیاں اگاتی تھیں، جو اب سب ختم ہو چکی ہیں کیونکہ زمین کا پانی زہریلا ہے۔ یہ خاص طور پر 2022 کے بعد ہوا ہے۔
’اس سے پہلے لڑکیاں ہمارے لیے بوجھ نہیں تھیں۔ جس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہوتی تھی، اب ان کے پانچ بچے ہیں، اور وہ اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے واپس آ جاتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر بے روزگار ہیں۔‘
دسمبر میں شائع کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے بعض علاقوں میں بچوں کی شادیاں عام ہیں، جو کہ دنیا میں 18 سال سے پہلے شادی کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں چھٹے نمبر پر ہے۔
شادی کی قانونی عمر مختلف علاقوں میں 16 سے 18 سال تک ہوتی ہے، لیکن قانون پر عمل درآمد کم ہی ہوتا ہے۔
یونیسف نے کم عمری کی شادیوں میں ’قابل ذکر پیش رفت‘ کی اطلاع دی ہے، لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شدید موسمی تغیرات لڑکیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
ادارے نے 2022 کے سیلاب کے بعد ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ’ہم بچپن کی شادیوں میں 18 فیصد اضافے کی توقع رکھتے ہیں، جو کہ پانچ سال کی بہتری ختم کرنے کے برابر ہے۔‘
31 سالہ دلدار علی شیخ نے سیلاب سے بے گھر ہونے کے بعد ایک امدادی کیمپ میں رہتے ہوئے اپنی بڑی بیٹی مہتاب کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دیہاڑی دار دلدار علی نے اے ایف پی کو بتایا: ’جب میں وہاں تھا تو میں نے سوچا کہ ہمیں اپنی بیٹی کی شادی کر دینی چاہیے تاکہ کم از کم وہ کھانا کھا سکے اور بنیادی سہولیات حاصل کر سکے۔‘
اس وقت مہتاب صرف 10 سال کی تھی۔
ان کی والدہ سمبل علی شیخ، جو شادی کے وقت 18 سال کی تھی، نے کہا: ’جس رات میں نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا، میں سو نہیں سکی۔‘
این جی او سجاگ سنسار کی مداخلت سے یہ شادی ملتوی ہو گئی اور مہتاب کو ایک سلائی ورکشاپ میں داخل کروا دیا گیا، جس سے وہ اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے تھوڑے سے پیسے کما سکتی تھیں، لیکن جب مون سون کی بارش ہوتی ہے، تو انہیں یہ خوف گھیر لیتا کہ ان کی طے شدہ شادی کا معاملہ دوبارہ سامنے آ جائے گا۔
مہتاب نے کہا: ’میں نے اپنے والد سے کہا ہے کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں، میں اپنے ارد گرد شادی شدہ لڑکیوں کو دیکھتی ہوں، جن کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے اور میں اپنے لیے یہ نہیں چاہتی۔‘