سندھ کے ایک بریڈر نے 25 سال تک صحرائے تھر کی گائے کو خالص رکھ کر دودھ کی پیداوار میں تین گنا سے زیادہ اضافے کا دعویٰ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ فارمولا پورے تھر میں لاگو کیا جائے تو غذائی قلت دور کی جا سکتی ہے جس کا شکار ہزاروں بچے ہو چکے ہیں۔
محکمہ لائیو سٹاک سندھ نے اس کسان کی کامیابی کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
مال مویشی کے حساب سے صحرائے تھر پاکستان کا سب سے بڑا علاقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں تقریباً 70 لاکھ جانور پائے جاتے ہیں۔ ان جانوروں میں تھر کی مقامی گائے تھر پارکر بریڈ بھی ہے۔ تاہم اس کی خالص نسل تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔
65 سالہ غلام اکبر درس نے صحرائے تھر کے گیٹ وے کے علاقے کنری کے نواح میں ایک تحقیقی مرکز کھول رکھا ہے جہاں انہوں نے گذشتہ دو دہائیوں سے زیادہ تھر پارکر بریڈ کے علاوہ سندھ کی مقامی گائے کی نسلوں کو بچا کر رکھا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ ان پر تحقیق بھی کر رہے ہیں۔
غلام اکبر کا کہنا ہے کہ مقامی گائیوں کی نسلوں کو انہوں نے اس لیے بچا کر رکھا ہے کیونکہ وہ ناپید ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نسل سخت موسموں کو بھی برداشت کر لیتی ہیں اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں ان کی قوت مدافعت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ دودھ اور گوشت کی پیداوار بھی زیادہ دیتی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے آغاز ایک بیل اور تین گائے سے کیا تھا اور آج ان کے پاس 140 تھرپارکر نسل کے خالص جانور ہیں۔
سندھ کے مختلف علاقوں میں تھر پارکر نسل کی خالص گائے مشکل سے پانچ سو ہی بچی ہیں۔ غلام اکبر تھر پارکر نسل کے خالص جانوروں کے سب سے بڑے بریڈر بھی بن چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غلام اکبر نے بتایا کہ جانوروں کو مکس ہونے سے بچانے کے لیے ان کو باڑ کے اندر رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ان کی اصلیت برقرار رکھنے کے لیے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ تھر پارکر نسل کے بیل کا کسی دوسری نسل کی گائے سے ملاپ نہ ہو۔
کسی وقفے سے بیل کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی مختلف بریڈ کے جانوروں کو کھلے میں چرنے سے روکا جاتا ہے تاکہ وہ ملاپ نہ کر سکیں۔ اس دوران ناکارہ یا کم پیداوار والے جانوروں کو جھنڈ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نسل در نسل جانوروں کی دودھ کی پیداوار کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 25 سال پہلے جب انہوں نے جانوروں پر ریسرچ شروع کی تو اس وقت تھرپارکر بریڈ کی فی جانور یومیہ دودھ کی پیداوار پانچ لیٹر تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 18 لیٹر ہو گئی ہے جو کہ ’بڑی کامیابی‘ ہے۔
اس سے ملتی جلتی مثال دیتے ہوئے غلام اکبر کا کہنا تھا کہ 40 سال پہلے بھارت کے گجرات کے علاقے کی ’گر‘ نسل کی گائے کو برازیل لے جایا گیا۔ برازیل اس نسل کو بہتر کر کے فی جانور کی یومیہ دودھ کی پیداوار 40 لیٹر تک لے گیا۔ بھارت نہ صرف وہ نسل واپس اپنے ملک میں لے آیا بلکہ اس نے غیر مقامی گائیوں کی درآمداد بھی بند کر دیں کہ مزید تحقیق بھی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسی طرح کی کوششیں سندھ میں بھی کی جائیں تو اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحرائے تھر کے لوگوں کا گزر بسر مال مویشی پر ہے۔ چارے کے لیے ان جانوروں کو کھلے میں چھوڑا جاتا ہے۔ لائیو سٹاک سے ان کو دودھ گوشت ملتا ہے اور مقامی معیشت چلتی ہے۔ اس لیے زیادہ پیداوار والے جانور تھر کے لوگوں کے لیے مالی فوائد لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جدید دنیا میں گوشت بھی برآمد ہو رہا ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ زیادہ پیداوار والے جانوروں کی پیداوار بڑھائی جائے۔
غلام اکبر درس کا کہنا تھا کہ ہمارے مقامی لائیو سٹاک میں صلاحیت موجود ہے۔ ’اس لیے بہتر ہے کہ ہم اس پر کام کریں۔ تاہم یہ کام عام بندے کے بس کی بات نہیں اور حکومت کے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ مقامی نسلوں کو بڑھانے میں مقامی لوگوں کی مدد کرے۔‘
غلام اکبر کا کہنا ہے کہ دنیا میں خالص جانوروں کی پیداوار کے جدید سائنسی طریقے اپنائے جارہے ہیں جن میں سے ایمبریو ٹرانسفر ٹیکنالوجی بھی ہے۔ ’اس ٹیکنالوجی سے بیک وقت ایک ہی بیل بیج کی گائیوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ حکومت اگر مقامی بریڈ کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اس ٹیکنالوجی کو ملک میں لے کر آئے۔‘
ڈاکٹر محمد مبارک جتوئی لائیو سٹاک ایکسٹینشن اینڈ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ سندھ میں بطور ڈائریکٹر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر بریڈ دودھ گوشت اور پرباداری کے کام آتی ہے۔ جب کہ دودھ کے حساب سے تھرپارکر بریڈ کا شمار اول ترین جانوروں میں نہیں ہوتا تاہم اس میں دودھ بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔
’غلام اکبر درس نے تھرپارکر بریڈ میں تین گنا سے زیادہ دودھ کی پیداوار حاصل کی جو نہایت اہم پیش رفت ہے۔ اکبر کے کام جیسی مثال بہت کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے ماڈلز کو عام کیا جائے۔‘