قطرہ قطرہ زندگی: صحرا میں پانی کی فراہمی

سولر ٹیکنالوجی سے لیس میگھواڑ گاﺅں میں لگنے والا واٹر فلٹریشن پلانٹ ایک پائیدار اور ماحول دوست عمل ہے جو دھیرے دھیرے مقامی افراد کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا رہا ہے۔

25 فروری، 2018 کو لاہور سے 45 کلومیٹر دور کوٹ اسد اللہ میں لوگ فلٹر پلانٹ سے پانی بھر رہے ہیں (اے ایف پی)

کھلے آسمان تلے صحرائے تھر کی ٹھنڈی تاروں بھری رات میں جب بھی کوئی لوک گائیک شاہ لطیف کا کلام گاتے ہوئے سُرماروی چھیڑتا ہے تو سننے والے کھو جاتے ہیں۔

اس سر میں ہجر اور وچھوڑے کا ایسا درد اور غم ہے کہ چاروں اور ایک سکوت چھا جاتا ہے۔ گویا سننے والوں کے ساتھ صحرا کی ہوائیں بھی رک جاتی ہیں۔ اہل سندھ کو لوک داستان ’عمر ماروی‘ کی ماروی سے بہت پیار ہے۔

اس ماروی نے اپنے لوگوں اور اپنے گاﺅں کی محبت میں عمر سومرو بادشاہ کا تخت و تاج ٹھکرا دیا تھا۔ سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں ماروی کی داستان رقم کر کے اسے امر بنا دیا۔

کوک سٹوڈیو کے معروف نغمے ’آئی آئی‘ میں، جسے اب تک 14 ملین سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں، ماروی ہی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

یہ مئی کا دوسرا ہفتہ تھا جب ہم نے عمرکوٹ کا سفر کیا، اور یہ وہی عمر کوٹ تھا جسے عمر ماروی کی کہانی نے تاریخ میں زندہ رکھا ہے۔

اس بار کہانی اور کردار کچھ مختلف تھے لیکن جذبہ وہی تھا اور نام بھی، یہ آج کی ماروی تھی۔ اُس ماروی نے صدیوں پہلے اپنوں کے لیے تخت و تاج ٹھکرا دیا تھا جبکہ آج کی ماروی نے اپنی آواز اور فن کے زور پر اپنے پیاسے لوگوں تک پانی پہنچا دیا۔

کوک سٹوڈیو کے گانے ’آئی آئی‘ کی گلوکارہ ماروی اور صاحباں عمرکوٹ کے قریب میگھواڑ گاﺅں کی رہائشی ہیں۔ صحرائے تھر پارکر انتظامی لحاظ سے عمر کوٹ اور تھر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ریت کا یہ صحرا گرمیوں میں گرم ترین ہو جاتا ہے۔

اس روز بھی سورج گویا سوا نیزے پر تھا جب ہم میگھواڑ گاﺅں پہنچے۔ سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہ گاﺅں بھی پانی کی کمی کے شدید بحران سے دوچار تھا۔

یہاں دریا اور آب پاشی کے نہری نظام کی عدم موجودگی بھی پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے کم بارشوں اور پانی کی سطح میں کمی کے ساتھ صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔

خواتین اس بحران کا اصل شکار ہیں، جن کو آج بھی پانی کے دو مٹکوں کے لیے تین سے پانچ کلومیٹر کا سفر پیدل چلچلاتی دھوپ میں طے کرنا پڑتا ہے۔

اور دن میں ایک بار نہیں کم از کم دو بار انہیں یہ مشقت کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ اور ان کے گھر والے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔

پانی بھرنے کی یہ ذمے داری روایتی اور ثقافتی طور پر عورت پر عائد ہے اور آٹھ سال کی بچی سے لے کر 50 سال کی عورت تک یہ ذمے داری ادا کرتی ہے۔

اب چاہے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آ جائے، مہرے جگہ چھوڑ دیں یا کسی حاملہ عورت کا بچہ ضائع ہو جائے یہ کام تو اسے کرنا ہی ہے۔ مرد روایتی اور ثقافتی طور پر اس ذمے داری سے آزاد ہیں۔

سندھ کے اکثر گاﺅں میں یہ منظرنامہ عام ہے، لیکن میگھواڑ گاﺅں میں اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ایک سافٹ ڈرنک کمپنی نے میگھواڑ گاوں میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے شمسی توانائی سے چلنے والا فلٹریشن پلانٹ نصب کیا ہے جو الٹرا فلٹریشن سسٹم کے تحت فی گھنٹہ ایک ہزار لیٹر صاف پانی فراہم کر سکتا ہے۔

پلانٹ کی پائیداری کو بڑھانے کے لیے یہ سہولت سولر پینلز، جی پی ایس ٹیکنالوجی اور فلو میٹر سے لیس ہے۔ اردگرد کے 800 گھرانے اور تقریبا آٹھ ہزار افراد اس صاف پانی سے مستفید ہو رہے ہیں۔

پلانٹ کے حوالے سے گلوکارہ ماروی نے بتایا کہ ’کبھی کبھی ہمیں یہ خواب جیسا لگتا ہے کہ ہم پانی بھرنے کے لیے میلوں چلچلاتی دھوپ میں پیدل چلنے کی مشقت سے آزاد ہو گئے ہیں۔‘

رحیمہ نے، جو چار بچوں کی ماں ہیں، کہا کہ گندا پانی پینے سے ان کے بچے آئے دن قے، دست اور اسہال میں مبتلا رہتے تھے لیکن پلانٹ کے صاف پانی سے اب ان کے بچے بیماریوں سے محفوظ ہیں اور دور سے پانی بھرنے کی محنت سے بھی بچ گئے۔

ایک کمیونٹی لیڈر اور سماجی کارکن نند لال میگھوار نے اپنی برادری کو درپیش پانی کی شدید قلت کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم صحرا میں رہتے ہیں، اس لیے پانی کی کمی خشک سالی کے مترادف ہے۔ ہماری خواتین روزانہ چار کلومیٹر پیدل چل کر پانی لاتی ہیں، جس سے گھریلو معمولات میں خلل پڑتا ہے اور لڑکیوں اور خواتین پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔

’تاہم ریورس اوسموسس پلانٹ کی تنصیب نے کمیونٹی کے ارکان کو ریلیف فراہم کیا ہے۔ وہ اب تقریباً اپنی دہلیز پر صاف پانی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘

واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب ایک چھوٹے سے گاؤں میں مثبت تبدیلی کی علامت بن گئی ہے، جو صدیوں پرانے مسائل کا پائیدار حل پیش کرتی ہے۔

اس تبدیلی کا اثر کمیونٹی میں واضح نظر آتا ہے، یہ عمل خواتین کی خود اعتمادی میں اضافہ، صحت میں بہتری اور زندگی میں زیادہ اختیار دیتا ہے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق تھرپارکر ضلعے کا زمینی پانی پینے، گھریلو استعمال، مویشیوں اور چھوٹے پیمانے پر زراعت کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے۔

رہائشیوں کی اکثریت کا انحصار دور دراز کے کھودے ہوئے کنوؤں پر ہوتا ہے۔

یہ مشکل کام ان کے دن کا زیادہ تر حصہ خرچ کرتا ہے، خاص طور پر خشک موسم میں خواتین اس بوجھ کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتی ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ضلعے کا صرف چھ فیصد پانی قابل استعمال ہے۔ مزید یہ کہ پانی کے 10 فیصد نمونوں میں عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق قابل اجازت حد سے زیادہ آرسینک موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع عمرکوٹ کے حالات ضلع تھرپارکر سے مختلف نہیں۔ 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں زیر زمین پانی کا معیار مسلسل اور انتہائی نمکین ہے، جو تقریباً 99 فیصد علاقے کو متاثر کرتا ہے۔

اس خطے میں زمینی پانی کی نمکیات کی زیادہ مقدار کئی عوامل سے منسوب ہے، جن میں بے ترتیب بارش، خشکی، زیادہ درجہ حرارت اور زیر زمین پانی کا محدود ریچارج شامل ہیں۔

جدید سبز حل، جیسے شمسی توانائی سے چلنے والے پانی کے فلٹریشن سسٹم کی تنصیب اور بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اہم ہیں۔

یہ پائیدار ٹیکنالوجی نہ صرف صاف پانی کی قابل اعتماد فراہمی کو یقینی بنا کر فوری ریلیف فراہم کرتی ہے بلکہ ماحولیاتی تحفظ کو بھی فروغ دیتی ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کے طویل مدتی اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے آج کے حالات کے تناظر میں اس طرح کے سبز اقدامات کی فوری ضرورت ہے تاکہ ہم سب ایک لچک دار اور پائیدار مستقبل کو محفوظ بھی بنا سکیں۔

سولر ٹیکنالوجی سے لیس میگھواڑ گاﺅں میں لگنے والا واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی ایسا ہی ایک پائیدار اور ماحول دوست عمل ہے جو دھیرے دھیرے مقامی افراد کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا رہا ہے۔

 یہ سچ ہے کہ پانی زندگی کی علامت بھی ہے اور ضمانت بھی۔ زندگی کا وجود پانی کے بنا ممکن نہیں۔ تہذیب، روایات اور تاریخ پانی کے کنارے ہی پھلتی پھولتی ہیں۔ میگھواڑ گاﺅں کی ماروی نے بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوا دیا ہے۔

اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ اپنے گاﺅں میں پانی کی فراہمی کی فرمائش ماروی ہی نے کی تھی!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ