سات ہزار لگژری کاروں اور 15 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 55 لاکھ پاکستانی روپوں) میں بال کٹوانے والے برونائی کے سلطان حسن البلقیہ انڈیا کے نریندر مودی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں، جنہوں نے سالوں میں اپنی میانہ روی والی شبیہہ بنانے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔
نریندر مودی رواں ہفتے جنوب مشرقی ایشیا کے چھوٹے سے لیکن تیل سے مالا مال ملک کا دوطرفہ دورہ کرنے والے پہلے انڈین وزیراعظم ہیں اور سلطان کے ساتھ ان کی بات چیت خطے میں انڈیا کے جغرافیائی سیاسی عزائم کے لیے برونائی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
لڑکپن میں ریلوے سٹیشن پر چائے بیچنے کا دعویٰ کرنے والے مودی نے جنوب مشرقی ایشیا میں بورنیو جزیرے کے شمالی ساحل پر واقع اس چھوٹے سے ملک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کو مضبوط کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
برونائی انڈیا کے ’ایکٹ ایسٹ پالیسی‘ اور ’انڈو پیسیفک ویژن‘ میں ایک اہم پارٹنر ہے اور ان پالیسیوں کا مقصد جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر بحرہند اور پیسفک ممالک کے ساتھ مضبوط تجارتی اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینا ہے۔
لیکن برونائی کے سلطان حاجی حسن البلقیہ کون ہیں؟
برونائی کے سلطان، جن کی ذاتی دولت کا تخمینہ 30 ارب ڈالر ہے، اپنے شاہانہ طرز زندگی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ان کی سات ہزار لگژری کاروں کی کلیکشن کی مالیت پانچ ارب ڈالر ہے جن میں سونے سے بنی رولس رائس بھی شامل ہے جو انہوں نے اپنی صاحبزادی کے لیے خریدی تھی۔
وہ 1968 میں برونائی کے 29 ویں سلطان کے طور پر تخت نشیں ہوئے تھے اور برطانوی ملکہ الزبتھ دوم کے بعد دوسرے سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے شاہی فرد ہیں۔ وہ 1,788 کمروں کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے محل استانہ نورالایمان میں مقیم ہیں۔
سلطان حسن البلقیہ جو برونائی کے وزیراعظم بھی ہیں، کی طاقت ایک عام بادشاہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کی سرکاری سوانح عمری کے مطابق وہ متعدد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، جن میں دفاع، خزانہ اور خارجہ امور کے قلمدان بھی شامل ہیں۔
انہیں 1961 میں 15 سال کی عمر میں ولی عہد نامزد کیا گیا اور چھ سال بعد ان کے والد سلطان حاجی عمر علی سیف الدین نے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ برونائی کی سکیورٹی اس وقت بھی برطانیہ کے ذمے تھی۔ سلطان حسن البلقیہ نے برطانیہ میں فوجی تربیت اور ملائیشیا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
سرکاری ویب سائٹ کے مطابق سلطان نے 1966 اور 1967 کے درمیان برطانیہ میں سینڈہرسٹ میں رائل ملٹری اکیڈمی میں بطور فوجی افسر تربیت حاصل کی۔
وہ ایک قابل پائلٹ بھی ہیں اور ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر دونوں اڑا سکتے ہیں۔
ان کے دورِ حکومت میں برونائی نے 1984 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی فی کس آمدنی کے ساتھ تیل کی وسیع دولت کی بنیاد پر دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک کے طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم کیا۔
امریکہ میں ڈیلاویئر کے برابر ملک برونائی میں آخری پارلیمانی انتخابات 1968 میں ہوئے تھے۔
سلطان کی فضول خرچی نے کئی دہائیوں سے بیرونی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ان کے محل میں ایک وسیع پولو کمپلیکس ہے، جس میں تقریباً 100 پولو کھیلنے والے گھوڑے اور گھوڑوں کی افزائش کے لیے ایک فارم ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے مائیکل جیکسن کو اپنی 50 ویں سالگرہ کی پارٹی میں پرفارم کرنے کے لیے ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر دیے تھے، جس میں اس وقت کے برطانوی شہزادہ چارلس نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ تقریبات دو ہفتوں تک جاری رہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سلطان حاجی حسن البلقیہ کے پاس تقریباً 500 رولز رائس کا نجی مجموعہ ہے اور 1990 کی دہائی کے دوران، بلقیہ خاندان نے مبینہ طور پر دنیا بھر میں موجود آدھی لگژری گاڑیاں خریدیں۔
سلطان کے 12 بچوں میں سے ایک شہزادہ عبدالمتین اکثر انسٹاگرام پر اپنے پرتعیش طرز زندگی کی تصاویر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ شہزادہ متین برونائی تخت کے ورثا میں چھٹے نمبر پر ہیں اور انسٹاگرام پر ان کے 24 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ وہ پائلٹ اور پولو کھلاڑی بھی ہیں۔
ماضی میں اکثر برطانیہ کے شہزادہ ہیری کے ساتھ موازنہ کیے جانے والے شہزادہ متین کی انسٹاگرام پوسٹس میں یاٹنگ، نجی جیٹ طیاروں میں سفر کرنے اور عالمی معیار کے ہوٹلوں میں قیام سمیت سرکاری فرائض کا امتزاج دکھایا گیا ہے۔
سلطان حسن البلقیہ کے چھوٹے بھائی شہزادہ جیفری بلقیہ پر ریاست برونائی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سرکاری فنڈز میں تقریباً 40 ارب ڈالر کی خرد برد کی ہے، جو ایشیا کے سب سے سنسنی خیز شاہی سکینڈلز میں سے ایک ہے۔
سلطان نے 2000 میں اپنے چھوٹے بھائی پر مقدمہ دائر کیا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان طویل عرصے سے تنازع چل رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برونائی، تقریباً چار لاکھ 63 ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں شراب، رقص، جوا اور ہم جنس پرستی پر پابندی عائد ہے۔ سلطان کو بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر 2019 کے بعد، جب برونائی نے اسلامی قوانین یا شریعت نافذ کی، جس میں زنا، ہم جنس پرستی اور عصمت دری کے جرم میں مجرم قرار پانے والوں کے لیے کوڑے مارنے اور سنگسار کر کے سزا دینا شامل ہے۔
نئے اقدامات کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور برونائی کی ہم جنس پرست برادری میں تشویش اور خوف پیدا ہوگیا۔ اگرچہ ملک میں ہم جنس پرستی پہلے ہی غیر قانونی تھی، لیکن ان سخت سزاؤں کے نفاذ کے نتیجے میں سلطان کی ملکیت والے لگژری ہوٹلوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جن میں لندن میں ڈورچیسٹر، بیورلی ہلز ہوٹل اور لاس اینجلس میں ہوٹل بیل ایئر شامل ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک کے علاوہ جارج کلونی، ایلن ڈی جینیرس اور ایلٹن جان جیسی کئی مشہور شخصیات نے اس قانون کی مخالفت کی۔ مشہور شخصیات کی جانب سے ردعمل پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے حسن البلقیہ نے سزائے موت پر پابندی میں توسیع کردی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کوڑے مارنے اور معذور کرنے سمیت دیگر سخت سزائیں اب بھی موجود ہیں اور انہوں نے قانون میں مزید سخت ترامیم کا مطالبہ کیا۔
سلطان کا ’فلائنگ پیلس‘ انتہائی پرتعیش طیاروں کا ایک نجی ایوی ایشن بیڑا ہے، جس میں بوئنگ 747-8 (وی 8-بی کے ایچ) طویل فاصلہ طے کرنے والا ایک پرتعیش طیارہ، ایک بوئنگ 767-200 (وی 8-ایم ایچ بی) طویل فاصلے کی پروازوں کے لیے ایک اور اعلیٰ معیار کا طیارہ، بوئنگ 787-8 (وی 8-او اے ایس)، آرام دہ سفر کے لیے ڈیزائن کیا گیا ایک جدید اور کشادہ جیٹ، سیکورسکی ایس 70 اور ایس 76 کے علاوہ مختصر سفر کے لیے استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ سلطان بال کٹوانے پر تقریباً 15,000 پاؤنڈ خرچ کرتے ہیں اور لندن کے ڈورچیسٹر ہوٹل میں کام کرنے والے اپنے پسندیدہ حجام کے برونائی جانے کے لیے (جہاز کے) فرسٹ کلاس (ٹکٹ) کا انتظام کرتے ہیں۔
جی کیو(میگزین) کی ایک رپورٹ کے مطابق 78 سالہ سلطان کے پاس ایک نجی چڑیا گھر بھی ہے جس میں 30 بنگال ٹائیگر اور شاہین، فلیمنگو اور کوکاٹو جیسے انوکھے پرندے ہیں جو مبینہ طور پر چھوٹی سائیکلوں پر سوار ہو سکتے ہیں، گیند سے کھیل سکتے ہیں، گا سکتے ہیں اور دوسرے جانوروں کی نقل کر سکتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سلطان کا پرتعیش طرز زندگی عام لوگوں کی زندگیوں سے بہت مختلف ہے، جو ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سخت اسلامی قوانین اور ہنگامی حالت نے طویل عرصے سے ذاتی آزادیوں کو محدود کر رکھا ہے۔ سلطان کو اسلام کی ایک قدامت پسند تشریح کو فروغ دینے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کے طرز زندگی سے بالکل مختلف ہے۔
سلطان کی شادی فی الحال راجا استری پینگیران انک حجہ صالحہ سے ہوئی ہے۔ ان کی تین شریک حیات سے 12 بچے ہیں۔ سنہ 2020 میں شہزادہ عبدالعظیم، جو سلطان کے 38 سالہ بیٹے اور تخت کے ورثا میں چوتھے نمبر پر تھے، انتقال کر گئے تھے۔ عظیم ہالی ووڈ میں فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے اپنے کام کے لیے جانے جاتے تھے۔
عظیم بین الاقوامی پارٹی منظر نامے پر اپنی نمایاں موجودگی کے لیے بھی جانے جاتے تھے اور اکثر پامیلا اینڈرسن، جینٹ جیکسن اور ماریہ کیری جیسی مشہور شخصیات کے ساتھ نظر آتے تھے۔
2017 میں سی این این کی ایک رپورٹ میں ہوور انسٹی ٹیوشن کے مائیکل آسلن کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’وہ (شاہی خاندان) شاید تنقید سے کافی حد تک محفوظ ہیں، کیونکہ برونائی کے لوگ ایشیا کے تقریباً تمام دوسرے لوگوں کی نسبت بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں آپ تیل کی دولت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے، اکثریت فائدہ اٹھا رہی ہے۔
’ان کا طرز زندگی انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے لفظی طور پر ناقابل فہم ہے۔ یہ ناقابلِ یقین حد تک شاہانہ ہے۔ آپ امیر اور مشہور لوگوں کے طرز زندگی میں جو کچھ بھی تصور کر سکتے ہیں، کریں اور اس میں کئی گنا اضافہ کر دیں۔‘
© The Independent