(انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز جس میں 2010 سے لے کر 2019 تک کے دس سالوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسرے حصے پڑھنے کے لیے نیچے ’مزید پڑھیے‘ پر کلک کیجیے)
یہ درست ہے کہ ادب میں بہترین کا فیصلہ وقت کرتا ہے، لیکن وقت کوئی مجرد، انسانی سماجی دنیا سے باہر کی چیز نہیں۔
اردو کے دس بہترین افسانے کون سے ہیں؟ ان کے نام کسی تامل کے بغیر ذہن میں آ جاتے ہیں۔ کفن، ٹوبہ ٹیک سنگھ، لحاف، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، کپاس کا پھول، آخری آدمی، آنندی، کمپوزیشن2، گڈریا۔ اس فہرست میں ابھی بُو، ٹھنڈا گوشت، موذیل، جانکی، ٹیٹوال کا کتا، بھولا، چوتھی کا جوڑا، رحمان بابو کے جوتے، اپنے دکھ مجھے دے دو، حرام جادی، میلہ گھومنی، آخری گلی، بجوکا، دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم، گائے، سواری، مئی دادا، باسودے کی مریم، طاؤس چمن کی مینا، سیمیا، بگل والا، جانکی بائی کی عرضی اور کتنے ہی دوسرے افسانے شامل نہیں ہیں۔ یہ سب افسانے اپنے مصنفوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ لیکن گذشتہ دس سالوں کے دس بہترین افسانے کون سے ہیں، اس کے لیے ذہن پر زور دینا پڑتا ہے۔ کیوں؟ کیا بہترین افسانوں کے انتخاب میں ہم اردو افسانے کے پچاس برسوں (1930 تا 1980) میں پھنسے ہوئے ہیں یا اردو افسانہ آگے نہیں بڑھا؟ اسد محمد خاں اور نیر مسعود کے استثنا کے ساتھ جنھوں نے دیر سے لکھنا شروع کیا۔
گذشتہ ایک دہائی میں (نیچے دیے گئے ناموں کے علاوہ) الطاف فاطمہ، رضیہ فصیح احمد، زاہدہ حنا، فرخندہ لودھی، ذکیہ مشہدی، حسن منظر، رشید امجد، اقبال دیوان، نیلوفر اقبال، اے خیام، طاہرہ اقبال، محمد الیاس، حامد سراج، مشرف عالم ذوقی، نیلم احمد بشیر، امجد طفیل، عاصم بٹ، گلزار جاوید، رفاقت حیات، محمد امین الدین، بلال حسن منٹو، علی اکبر ناطق، منزہ احتشام گوندل، ابن مسافر، غافر شہزاد نے بھی قابل ذکر افسانے لکھے ہیں۔ نیچے جن افسانوں کو میں نے بہترین قرار دیا ہے، اس سے کہیں اعلیٰ افسانے ہوں گے، جو میری نظر سے نہ گزرے یا یادداشت سے محو ہو گئے۔ اس فہرست کو فقط ایک قاری کی ذاتی پسند سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر مجھے ایک دہائی تک محدود نہ ہونا پڑتا تو شمس الرحمٰن فاروقی کے ’لاہور کا ایک واقعہ،‘ منشا یاد کے ’وقت سمندر‘ اور آصف فرخی کے ’سمندر کی چوری‘ کا ذکر ضرور کرتا۔
تو لیجیے فہرست حاضر ہے:
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
10
اس سلسلے کا پہلا افسانہ سعید نقوی کا ’ایک عورت کی عام سی کہانی‘ ہے۔ تقسیم ہند نے کس طرح مذہبی شناختوں کو باقی سب شناختوں کو دبانے اور مٹانے کا اقدام کیا اور کس طرح صدیوں کے تعلقات ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور کس طرح جانے پہچانے لوگوں کے اندر سے عفریت برآمد ہوئے، اسے یہ افسانہ پیش کرتا ہے۔ جسونت اور اکبر کے خاندان ڈیڑھ سو سال سے دوستی کے رشتے میں بندھے ہیں۔
جسونت اکبر سے کہتا ہے کہ اگر وہ خیریت سے پاکستان جانا چاہتا ہے تو اپنی بیٹی روشن کو اس کے بیٹے مہندر سے بیاہ دے۔ اکبر کو اچانک لگا کہ اس کا تعلق اقلیت سے ہے اور اسے اکثریت اپنے جبر کا شکار بنارہی ہے؟ وہ سخت امتحان میں ہے کہ کیا سکھ برادری (اکثریت ) ایک مسلمان عورت (اقلیت) کو قبول کر لے گی؟
روشن ماں باپ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ پورے خاندان کی بھلائی اس کی قربانی میں ہے۔عورت خاندان پر قربان ہوتی آئی ہے، روشن اس ثقافتی سٹیریو ٹائپ کے تحت مذکورہ فیصلے پر پہنچتی ہے۔ روشن کا باپ شرط عائد کرتا ہے کہ نکاح ہو یا نہ ہو، گردوارے کے پھیرے ضرور لگائے جائیں تاکہ سکھ برادری اسے سکھ تصور کر کے قبول کرلے۔ اکبرکی یہ شرط دراصل اکثریت کے اقلیت پر جبر کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے۔ تاہم روشن اپنے مذہب پہ قائم رہتی ہے اور مہندر اسے اس امر کی اجازت دیتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبت سب سے قوی جذبہ ہے۔
9
مبین مرزا کا افسانہ ’پرچی اور داستان‘ اس فہرست میں شامل ہونا چاہیے۔ جدید داستانی اسلوب، یعنی جدید دنیا کے ہال میں کہانی کہنے کے انداز میں لکھے گئے اس افسانے میں تحریر اور گویائی کی ایک دل چسپ اور پر اثر آمیز ش شروع سے آخر تک ہے۔ داستانیں تفریح کے لیے سنائی جاتی تھیں، گو ان میں گہری علامتی باتیں آ جاتی تھیں، مگر اس میں داستان ہمارے زمانے کی آگ کو بھی لیے ہوئے ہے۔ یہ افسانہ مردوں جیسے صبر وسکون والے سماج کو اس کا آئنہ دکھاتا ہے تو اسے سن آف بچ کہہ کر المناک انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے۔
روشن کا ارادہ شادی کے چند دنوں بعد زہر کھانے کا تھا، مگر مہند ر کی محبت اسے اس ارادے سے باز رکھتی ہے۔ روشن کے بچے جب جوان ہو جاتے ہیں تو وہ سسر ال کی اجازت سے کراچی اپنے والدین سے ملنے آتی ہے، مگر اس کے بھائی قادر نے ایک سکھ سے اس کی شادی کو اب تک قبول نہیں کیا ہوتا۔ یہاں اسے ایک دوسری اکثریت کے جبر کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ چپکے سے اگلے ہی دن اپنے بیٹے نادر کے ساتھ واپس امرتسر آ جاتی ہے۔
8
اصغر ندیم سید کا افسانہ ’ہمارے ہیرو ہمیں واپس کر دو‘ ایک اہم افسانہ ہے۔ دیگر بیشتر افسانوں کی مانند اس میں بھی قومی و ثقافتی شناخت، بلکہ اس کی سیاست پر اصرار ملتا ہے۔ افغانستان وپاکستان کے پیچیدہ تعلقات کے پس منظر میں لکھا گیا یہ افسانہ ہیرو اور ہیرو پرست قوموں کی نفسیات کو سامنے لاتا ہے۔ افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ افغان سفیر پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان کے ہیروؤں( غوری، ابدالی اور غزنوی جیسے نام) اپنے میزائل کے لیے استعمال کرنا ترک کر دے۔ پاکستان انکار کرتا ہے، کیوں کہ یہ قبائل پاکستان کی ثقافت میں ضم ہو گئے ہیں۔
7
خالد جاوید کا ’زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ‘ اہم افسانہ ہے، اپنے اسلوب، موضوع، تیکنیک تینوں اعتبار سے۔ افسانے کا اسلوب بہ ظاہر سادہ ہے، مگر اندر سے پیچیدہ ہے، اور اس متناقضانہ حقیقت کو پیش کرنے پر قادر ہے، جسے افسانہ نگار نے روح اور جسم، صفائی اور گندگی، صحت و بیماری، موت اور ابدیت،محبت اور گناہ کی ثنویت کی مدد سے پیش کیا ہے۔ اس اسلوب کا اہم حصہ آئرنی کو اس کے ممکنہ امکانات کے ساتھ بروے کار لانے سے عبارت ہے۔ افسانے میں جابجا آئرنی ہے،یعنی دو متناقض دنیا ئوں،زندگی کے دو متخالف بیانیوں کے باہمی تنائو اور اس سے پیدا ہونے والے عجب مضحکہ پن کو پیش کرنے کا عمل ہے۔ مذہب، سائنس، فلسفے کا مل جانا،یعنی ان سب کا انسانی جسم اور اس کے کثافت آمیز جمال کے خلاف متحد ہوجانا بھی زبردست آئرنی ہے۔ یہ افسانہ اپنی وجودیاتی حیثیت میں ان تینوں کے مقابلے میں ادب و آرٹ کو اس اتحاد ثلاثہ کے مقابل ایک متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
افسانے میں پروفیسر کے چہرے پر زخم کا نشان، جڑواں لوگوں کا فطرت کی خلاقیت کے خلاف سمجھا جانا، طوائف کی دوچہرگی، سرنگ،پہاڑ پر طوائف کا کوٹھا، سائن بورڈ پر پھانسی کے پھندوں کے نشان اور سب سے بڑھ کر آدمی کا پیشاب۔ یہ سب زبردست موتیف ہیں۔ ان سے افسانے میں کثیر بصیرتیں پیدا ہوئی ہیں۔
افسانے کا اختتام پہلی نظر میں ذرا سا روایتی محسوس ہوتا ہے کہ اس سے عورت کا سٹیریو ٹائپ تصور مستحکم ہوتا ہے، جس کے مطابق وہ جاں نثار قسم کی مخلوق ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موت،ابدیت کے اس تھیسس پر سوالیہ نشان ہے،جسے افسانے کے پہلے حصے میں پیش کیا گیا ہے،اس لیے اس سے افسانے کے مجموعی تاثر پر فرق نہیں پڑتا۔
6
محمد حمید شاہد کے ’کوئٹہ میں کچلاک‘ کواس دہائی کے بہترین افسانوں میں شامل کرنے کی ایک وجہ اس کا ’فیکشن‘ ہونا ہے، یعنی حقیقی سیاسی واقعات کا افسانوی بیان۔ افسانے میں جس طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کو مقامی نظر (خصوصاً مقامی لوک کہانیوں کے کرداروں جیسے گوناکو کا ذکر) سے دیکھا گیا ہے، ان واقعات کو قومی اور پھر عالمی سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے، وہاں کے حقیقی کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے، آزاد بلوچستان کے مسئلے کو گہری دانش مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ، وہ حیرت انگیز ہے۔
دوسری وجہ وہ ہنرمندانہ انکشاف ہے کہ کس طرح دہشت گردی/بدامنی ایک کموڈیٹی بنالی جاتی ہے۔ کلیم خان، غیر بلوچوں کے خلاف نفرت کا کاروبار کرتا ہے۔ واحد متکلم میں لکھے گئے اس افسانے میں واقعات ایسے بیان ہوئے ہیں جیسے ایک ایک کرکے پردے اٹھ رہے ہوں اورآخر میں ملک بشارت اور کلیم کوہ ندا کی مانند سلیم (مرکزی کردار) کو اپنی جانب بلاتے ہیں۔
5
صدیق عالم کا ’رود خنزیر‘ بےدخلی و معزولی (Displacement) کے موضوع پر یادگار افسانہ ہے جسے مشرقی پاکستان کے المیے کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ مرکزی کردار ارسلان دو مرتبہ بے وطن ہوتا ہے۔ اس کا والد مسعودہ کو چھوڑ کر کراچی آ جاتا ہے اور کبھی واپس نہیں جاتا۔ مسعودہ ارسلان اور اپنی بقا، گھر اور آبرو کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کرتی ہے مگر المناک موت سے دوچار ہوتی ہے۔ اس کے شوہر پر مغربی پاکستان کی فوج کے مخبر ہونے کا شک ہوتا ہے۔ (شاید اسی لیے وہ کبھی واپس نہیں جاتا)۔ مسعودہ بیٹے کو لے کر ڈھاکہ سے مغربی بنگال کی طرف جاتی ہے اور اپنے رشتہ داروں کی لاتعلقی (کیوں کہ اس نے محبت کی شادی کی تھی) کا سامنا کرتی ہے، یہاں تک کہ گودی میں پہنچ جاتی ہے۔ ارسلان اور مسعودہ دونوں کو صرف بے وطنی کا نہیں بے شناختی کے عذاب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دونوں اپنا نام بدلتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسعودہ کا کریا کرم کیا جاتا ہے۔
ارسلان گودی ہی میں ایک خاتون کے ساتھ رہنا شروع کرتا ہے جو پہلے طوائف تھی پھر پارسائی کی زندگی شروع کرتی ہے لیکن طوائف کے دنوں کا پھیپھڑوں کا روگ نہیں جاتا، وہ آخر ی ایام اپنے گائوں میں گزارنا چاہتی ہے، ارسلان کے ساتھ۔ وہیں دریا مردہ خنزیروں سے اٹ جاتا ہے۔دریا زندگی، وقت، گھر، اصل، سرچشمے کی بہ یک وقت علامت ہے، اس کا مردہ خنزیروں سے بھر جانا جنوبی ایشیا کی قوم پرستانہ سیاست پر گہرا طنز ہے۔ لیکن افسانے میں سیاست کے پہلو بہ پہلو انسانی وجود کی بعض گہری سچائیاں بھی سادہ مگر مئوثر انداز میں پیش کی گئی ہیں۔
4
’میں کہاں کا ہوں‘ مسعود اشعر کا افسانہ ہے جسے اس فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ افسانہ ’ثقافتی جوہریت پسندی ‘ (Cultural Essentialism) سے متعلق ہے۔ جنوب مشرقی انگلستان کے ایک چھوٹے سے شہر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جہاں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن رہتے ہیں۔ وہ سب اپنے وطن سے دور مگر اپنے اپنے وطن کی سیاست، قومی تصورات، مذہبی وفرقہ وارانہ شناختوں پر اصرارکرتے ہیں۔ حالاں کہ ان میں سے اکثر پیدا ہی مغربی ملکوں میں ہوئے۔ ان کا دوسرے ایشیائیوں سے تعلق غیریت کا ہے۔
یہی غیریت وہ انگلستان کے کلچر سے بھی اختیار کرتے ہیں۔ افسانے کا واحد متکلم اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ کوئی کیسے ایک ملک میں اتنا عرصہ رہنے کے باوجود وہاں کی مٹی اور قانون سے غیریت محسوس کرلیتا ہے، اور اسی لیے خود کو کہیں کا بھی نہیں سمجھتا، ایک مکمل بے دخلی ومعزولی۔
3
افتخار جالب کے افسانے ’ہزارہویں رات‘ (جسے طاہرہ صدیقہ نے مرتب کیا ہے) کو اس فہرست میں شامل کر رہا ہوں کہ اسے میں نے کچھ عرصہ پہلے پڑھا ہے۔ جون 1956 میں لکھا گیا یہ افسانہ میاں بیوی کے رشتے کی پیچیدہ گرہوں کو کھولتا اور سامی، عجمی، مغربی روایتوں کو ایک ساتھ لے کے چلتا ہے۔ اس میں یہ تجربہ اہم ہے کہ اس میں عورت کے اسرار کو ہابیل و قابیل کی کہانی سے لے کر ہومر کی ایلیڈ کے ایجکس اور الف لیلہ ولیلہ کے شہر یار و شہر زاد کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے، بلکہ اہم اس میں افسانوی وقت کو کبھی نہ گزرنے والے مگر مسلسل متحرک لمحۂ حال کو پیش کرنا ہے۔ یہ اردو افسانے میں اولین تجربہ تھا جسے بعد میں انتظار حسین لے کر آگے چلے۔
2
گلزار کا ’مگر مچھ‘ پوسٹ کولونیل ہندوستان کے اس مسلم ہندو مسئلے کو پیش کرتا ہے جس میں مسلسل شدت پیدا ہورہی ہے۔ یہ مسئلہ عام دنوں میں چنگاری کی صورت دبا رہتا ہے لیکن انتخابات یا مذہبی تہواروں کے دنوں میں شدت سے سامنے آتا ہے۔
افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ محرم اور دسہرے کے تہوار ایک ساتھ آتے ہیں۔ راون کے پتلے علی رضا بناتے ہیں جو انھی دنوں محرم منا رہے ہوتے ہیں۔ رام چرن پنڈت کے ساتھ بانسوں کے مہنگے ہونے کے حوالے سے بات چیت پرعلی رضا کہہ دیتا ہے کہ راون کو جلاناہے جو یزید کی مانند ہیں،جب کہ ہیر وتو شری رام ہیں، اس سے پنڈت کے دل میں گرہ پڑ جاتی ہے۔ پنڈت پوچھتا ہے کہ راون کے کردار کو اشبھ کیسے کہہ دیا، جس پر علی رضا کہتا ہے کہ اس کا کردار وہی ہے جو یزید کا تھا۔
اس پر پنڈت بول اٹھتا ہے کہ راون تو اپنے آپ میں مہا پنڈت تھا اور شو کا پجاری تھا۔ علی رضا کہتا ہے کہ پنڈت تھا تو جلاتے کیوں ہو،ہندو ہی تھا کوئی---"مسلمان ہوتا تو پتلے بنانے کی ضرورت کیا تھی؟"چناں چہ رام لیلا میں پٹاخے کے بجائے بم پھوٹے اور سب سے اونچی آگ کی لپٹ علی رضا کی دکان کی نکلی۔ رضافرار تھا ور دنگے جاری تھے۔ افسانے میں بیانیے سے زیادہ مکالمے ہیں، مختصر مگر گہرے، تہ دار۔
1
خالدہ حسین کا افسانہ ’دادی آج چھٹی پر ہیں‘ اس دہائی کا اوّلین بہترین افسانہ ہے۔ افغان جہاد کے بعد پاکستانی سماج جس طرح کی شدت پسندی کا شکار ہوا، وہ شدت پسندی کیسے ریاستی اداروں سے ہوتی ہوئی گھروں میں اور انسانی رشتوں میں ایک عفریت کی مانند سرایت کر گئی اور شہروں کے ساتھ ساتھ گھروں کو بھی جہنم بنا گئی، اسے یہ افسانہ عمدگی سے پیش کرتا ہے۔ دادی اس ساری صورت ِ حال کے خلاف ایک اور طرح کا جہاد کرتی ہے، وہ زندگی، اس کے حسن گریز پا کا جشن نئی نسل کے ساتھ مناتی ہے۔