ایس ایس وسان کی فلم ’انسانیت‘ کا پریمیئر تھا اور دلیپ کمار کی آمد متوقع تھی۔ روکسی سینما میں دلیپ کمار نے پاؤں رکھا تو ان کے ہاتھوں میں مدھو بالا کا ہاتھ اور آنکھوں میں شادمانی کی لہر تھی۔ محبت کے کتنے ہی رنگ دونوں کی آنکھوں میں ناچ رہے تھے۔ خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔
جس محبت نے چار برس پہلے ’ترانہ‘ فلم کی شوٹنگ کے دوران جنم لیا تھا اب وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلنے کو بے چین تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہونٹ خاموش رہ کے سبھی پوچھنے والوں کو واضح جواب دے رہے تھے۔
منظر بدلتا ہے۔ یہ سال تھا 1956 اور مدھو بالا ’ڈھاکے کی ململ‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھیں۔ دلیپ کمار نے اوم پرکاش کو مدھو بالا کے میک اپ روم میں بلا بھیجا۔ دلیپ مدھو بالا سے شادی پہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے۔ مدھو بالا کو انکار ہرگز نہیں لیکن اپنے باپ کا خوف انہیں فوری قدم اٹھانے سے روکتا ہے۔ دلیپ کمار کہتے ہیں، ’قاضی تیار ہے اور اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔‘
مدھو بالا خاموش رہتی ہیں، دلیپ کمار خاموشی سے میک اپ روم کا دروازہ کھولتے ہیں اور مدھو بالا کی زندگی سے باہر نکل جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک منظر یہ بھی ہے۔ بی آر چوپڑا کی فلم ’نیا دور‘ میں مدھو بالا اور دلیپ کمار سائن ہو چکے تھے۔ دس دن اِن ڈور شوٹنگ ہو چکی ہے اور اب بھوپال شوٹنگ کے لیے پورا یونٹ تیاری پکڑ چکا ہے۔ مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان 30 ہزار لے چکے ہیں لیکن اپنی بیٹی کو آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے بھیجنے سے انکاری ہیں۔
عطا اللہ کا کہنا تھا کہ بی آر چوپڑا دراصل دلیپ کو میری بیٹی سے رومانس لڑانے کا موقع فراہم کرنے جا رہے ہیں اور بس۔ عطا اللہ نے رقم واپس کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا اور دلیپ کمار نے بی آر چوپڑا کے حق میں گواہی دے دی۔ ’نیا دور‘ کے اس جھگڑے کا ملبہ مدھوبالا پہ گرا۔ ایک طرف فلم میں ان کی جگہ وجنتی مالا آ گئیں اور دوسری طرف ان کے والد کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تھا تمہاری محبت کا دم بھرنے والا جو بھری عدالت میں تمہارے خلاف گواہی دینے چلا آیا۔
دلیپ کمار سے مایوس اور زندگی کی کٹھنائیوں میں گھری مدھو بالا نے اپنا بوجھ بانٹنے کے لیے کشور کمار سے 1960 میں شادی کر لی۔ افسوس پہلے سے ماضی کے ملبے تلے دبی مدھو بالا کے لیے یہ بندھن بھی خوشگوار نہ رہا۔ کشور کمار کو مدھو بالا کی بیماری کا اچھی طرح علم تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے شادی پہ اصرار کیا۔ دونوں ہنی مون کے لیے لندن گئے اور مدھو بالا کا چیک اپ بھی ہوا۔ ڈاکٹروں نے کہا مزید دو سال زندگی ہے۔ مدھو بالا کو زندہ لاش کی صورت دو نہیں نو سال کاٹنے پڑے۔
کشور کمار نے واپسی پہ مدھو بالا کو ان کے والد کے گھر چھوڑا۔ عذر یہ تراشا کہ ان کی دیکھ بھال ادھر بہتر ہو گی، میں تو سارا دن گھر سے باہر ہوتا ہوں ان کا خیال کون رکھے گا۔ مدھو بالا چیختی رہیں لیکن کشور کمار کی سماعت زندگی کی رس گھولتی آوازوں میں کھو چکی تھی۔ موت کا المیہ گیت سننے کا وقت ان کے پاس نہ تھا، دو تین مہینے بعد ایک چکر لگا جاتے۔ سہارے کی تلاش میں ایک دن مدھو بالا موسیقار نوشاد کے پاس جا پہنچیں۔ نوشاد نے کشور کو چھوڑنے اور نئی زندگی شروع کرنے کی نصیحت کی۔ آنکھوں میں آنسو لیے مدھو بالا نے معین احسن جذبی کا شعر پڑھا؎
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی میں ساحل کی تمنا کون کرے
آخری دنوں میں شکتی سمنتا ملنے گئے تو مدھو بالا ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بستر پہ پڑی تھیں۔ بے جان چہرے میں زندگی بھرنے کے لیے میک اپ کا سہارا لیا گیا تھا۔ شکتی نے حیرت کا اظہار کیا تو مدھو نے کہا: ’شکتی تم نے مجھے میرے اچھے دنوں میں دیکھا۔ میں نہیں چاہتی تمہارے ذہن سے میری اچھی تصویر اتر جائے اور اس کی جگہ آج کی بے رنگ تصویر لے لے۔‘
اس کے بعد دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بھلا مدھو بالا کی آنکھیں آنسوؤں کے لیے بنی تھیں؟ لیکن زندگی کب ایسا دیکھتی ہے۔ مدھوبالا آخری دنوں میں ایک گیت اکثر سنتیں۔ گیت جو شیلندر کے آخری گیتوں میں سے ایک ہے۔ جسے جیول تھیف میں وجنتی مالا پہ فلمایا گیا تھا۔ جی ہاں وہی وجنتی مالا جو بی آر چوپڑا کی فلم نیا دور میں مدھو بالا کی جگہ آئیں اور اگلے سات سال تک دلیپ کمار کی زندگی کا کردار رہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے ’دیوداس‘ میں پاروتی کے کھو جانے پہ دیوداس کے لیے کیا۔ فرق بس یہ تھا کہ وہ فلم تھی اور یہ زندگی۔ وہاں پاروتی سچترا سین تھیں اور یہاں مدھو بالا۔ لتا کی آواز، ایس ڈی برمن کی موسیقی اور شیلندر کا وہ گیت مدھو بالا کی آخری دنوں کی تصویر ہے:
کیسی یہ زندگی
کہ ہم سانسوں سے اوبے
کہ دل ڈوبا ہم ڈوبے
اک دکھیا بیچاری
اس جیون سے ہاری
اس پہ یہ غم کا اندھیرا
رلا کے گیا سپنا تیرا