اکتوبر 1940: جاپان کے جنگی جہاز چینی شہر ننگبو کے اوپر نیچی پرواز کر رہے ہیں۔
آج کے مشن میں ایک خاص چیز شامل ہے۔ بعض جہازوں میں کیمرا مین بیٹھے ہوئے ہیں جن کا کام جہازوں سے گرائے جائے والے بموں کی فلم بندی کرنا ہے۔ یہ فلم بعد میں جاپان کے شاہی خاندان اور دوسرے ممتاز ناظرین کو دکھائی جائے گی۔
آج کا مشن کوئی عام مشن نہیں کیوں کہ جہاز جو بم گرانے والے ہیں ان کے اندر باردو نہیں، بلکہ اندر ایسے گیند ہیں جن میں مکھیاں بند ہیں۔ یہ مکھیاں طاعون کے تباہ کن جراثیم سے آلودہ ہیں، وہ جراثیم جو جاپان کی حیاتیاتی جنگ کے خصوصی ادارے یونٹ 731 نے ایک مریض کے جسم سے حاصل کیے ہیں اور لیبارٹری میں ان کی افزائش کی گئی ہے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ اس ایک واقعے میں کتنے چینی شہری طاعون کا شکار ہوئے، لیکن جاپان نے چین پر کئی برس تک حیاتیاتی جنگ مسط کیے رکھی جس کے نتیجے میں ایک رپورٹ کے مطابق پونے چھ لاکھ کے قریب افراد مارے گئے۔ 90 کی دہائی میں ان چینیوں کے لواحقین نے جاپان کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا جس میں ہر متاثرہ شخص کو 18 ہزار ڈالر دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ٹوکیو ڈسٹرکٹ کورٹ نے 2002 میں تسلیم کیا کہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے دوران حیاتیاتی ہتھیار استعمال کر کے لوگوں کو نقصان پہنچایا تھا، البتہ اس نے ہرجانے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
یہ کسی ملک کی جانب سے سائنسی علوم استعمال کر کے بڑے پیمانے پر جراثیمی جنگ چھیڑنے کا پہلا موقع تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دور میں صرف جاپان ہی اس سرگرمی میں ملوث تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے پہلے کہ کوئی اور پہل کر دے
بہت سے لوگوں کے علم میں ہو گا کہ آئن سٹائن کے دستخط کے ساتھ امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو 1939 میں ایک خط بھیجا گیا تھا جس میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ایٹم بم بنانا شروع کر دیں ورنہ جرمنی ان سے پہلے یہ بم تیار کر سکتا ہے۔
لیکن یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس کے دو سال بعد، جب دوسری عالمگیر جنگ پورے عروج پر تھی اور امریکہ نے ایٹمی پروگرام شروع کر دیا تھا، امریکہ کے وزیرِ جنگ ہینری سٹمسن نے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کو اسی قسم کا خط لکھ کر کہا تھا کہ وہ حیاتیاتی جنگ کا پروگرام شروع کر دے، اور اس کی وجہ بھی وہی بتائی گئی تھی کہ دشمن بھی اس پر کام کر رہا ہے۔
چنانچہ فروری 1942 میں امریکہ نے بڑے پیمانے پر حیاتیاتی ہتھیار بنانے کا خفیہ پروگرام شروع کر دیا جس میں درجنوں جراثیم کو بطور اسلحہ استعمال کرنے پر تحقیق کا آغاز ہوا۔ سائنسی جریدے ایمبو رپورٹس کے مطابق اس پروگرام کے تحت 1950 میں سان فرانسسکو اور 1966 میں نیویارک میں بےضرر جراثیم چھوڑ کر دیکھا گیا کہ ان کا پھیلاؤ آبادی میں کس حد تک اور کتنی تیزی سے ہوتا ہے۔
چونکہ جاپان نے بڑے پیمانے پر جنگی قیدیوں اور مفتوحہ آبادیوں پر جراثیموں کے اثرات کے تجربات کر رکھے تھے، اس لیے جب امریکہ نے 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسانے کے بعد جاپان پر قبضہ کیا تو اس نے جنگی جراثیم کے ادارے یونٹ 731 کے ارکان کو اس شرط پر معاف کر دیا کہ وہ اپنا تمام ریکارڈ امریکہ کے حوالے کر دیں!
امریکہ تو بعد میں اس دوڑ میں شامل ہوا، برطانیہ ایک عرصے سے جراثیم کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے پر نہ صرف تحقیق بلکہ عملی تجربات بھی کر رہا تھا۔ ویسے تو 18ویں صدی میں برٹش آرمی امریکہ اور آسٹریلیا کے آبائی باشندوں کو جنگی حکمتِ عملی کے تحت چیچک اور تپ دق جیسی تباہ کن بیماریوں سے آلودہ کر چکی تھی، 20ویں صدی میں برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کے جزیرے گرونارڈ میں اینتھریکس کے جنگی جراثیم کے ذریعے اس قدر لت پت کر دیا کہ پورا جزیرہ اگلی نصف صدی تک ’نو گو ایریا‘ بن گیا اور 1990 میں کہیں جا کر اسے ڈی سینیٹائز کر کے دوبارہ کھولا گیا۔
بین البراعظمی جراثیمی میزائل
اس صورتِ حال میں سوویت یونین کیوں پیچھے رہتا؟ وہ بھی جنگی بنیادوں پر اس میدان میں کود پڑا اور ایک رپورٹ کے مطابق اپنے عروج کے زمانے میں سوویت یونین کے حیاتیاتی جنگ کے پروگرام سے 50 ہزار افراد وابستہ تھے جو 52 خفیہ لیبارٹریوں میں کام کر رہے تھے۔
اس پروگرام کے تحت انہوں نے ایسے بیکٹریا تیار کیے جن پر ہر طرح کی اینٹی بایوٹکس بےاثر تھیں۔ اس وقت دنیا سے چیچک کی بیماری ختم ہو رہی تھی لیکن سوویت یونین کے پاس سینکڑوں ٹن کے حساب سے یہ موذی جراثیم موجود تھے۔
اس دوران سوویت یونین نے ایسے بین البراعظمی میزائل بھی تیار کیے جو ہولناک بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہزاروں میل دور تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
90 کی دہائی میں روسی صدر بورس یلسن نے اس پروگرام کو تسلیم کیا اور یہ اعتراف بھی کیا کہ اسی قسم کی ایک لیبارٹری میں حادثاتی طور پر جراثیم پھیلنے کے نتیجے میں 64 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
’بغیر ڈنک والا‘ معاہدہ
1972 میں دنیا کے ملک سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کو بی ڈبلیو سی کہا جاتا ہے اور اب تک 183 ملک اس کی توثیق کر چکے ہیں۔ اس کے تحت کسی بھی قسم کے حیاتیاتی ہتھیار بنانا یا ان کا ذخیرہ کرنا ممنوع ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بی ڈبلیو سی کو نافذ کرنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ یعنی اس کے پاس کوئی ایسی طریقۂ کار نہیں جس کی مدد سے وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی نشان دہی کر کے انہیں جواب دہ قرار دے سکے۔
اس کنونشن کا موازنہ اگر ہم ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے معاہدے این پی ٹی سے کریں، تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ این پی ٹی پر عمل درآمد کو یقنین بنانے کے لیے ایک باقاعدہ موثر اور فعال عالمی ادارہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی شکل میں موجود ہے جو اپنے ڈھائی ہزار سے زیادہ عملے کی مدد سے مسلسل اسی تاک میں رہتا ہے کہ کہیں کوئی ملک چھپ کر کسی ایٹمی سرگرمی میں ملوث تو نہیں۔
دوسری طرف جراثیمی ہتھیاروں کے بارے میں دنیا کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ بی ڈبلیو سی کے پاس کل ملا کر چار افراد پر مشتمل عملہ ہے جس کا کام دنیا کے 182 ملکوں کی نگرانی کرنا ہے!
سونے پر سہاگہ یہ کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے تو بہت بڑے پیمانے پر کارخانے اور سینٹری فیوج لگانے پڑتے ہیں، اعلیٰ ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے اور بڑے پیمانے پر تربیت یافتہ عملہ اور جدید ترین ساز و سامان درکار ہوتا ہے جن پر کروڑوں ڈالر لاگت آتی ہے۔ اس لیے کسی ملک کے لیے چھپ چھپا کر ایٹمی ہتھیار بنانا آسان نہیں ہے۔ آخر کو ان ساری سرگرمیوں کا پتہ سیٹلائٹ اور دوسرے ذرائع سے لگایا جا سکتا ہے۔
لیکن جراثیمی ہتھیار ایک چھوٹی سی لیبارٹری میں تیار کیے جا سکتے ہیں، اور ان پر خرچ بھی بہت کم آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کھوج لگانا انتہائی دشوار ہے، اور وہ بھی چار لوگوں پر مشتمل عملے کے لیے۔
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ملک سائنسی تحقیق کے نام پر حیاتیاتی ہتھیاروں پر ریسرچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کنونشن میں کوئی ایسا مکینزم وضع نہیں کیا گیا جو بتا سکے کہ خالص تحقیق کی حدیں کہاں ختم ہوتی ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کہاں شروع ہوتی ہے۔
اس کی مثال امریکہ ہے جو ماہرین کے مطابق معاہدے کی لکیر کے دونوں طرف چل رہا ہے۔ امریکہ چونکہ 20ویں صدی کے آغام سے لے کر اب تک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چھایا رہا ہے اس لیے وہ جراثیمی جنگوں کے میدان میں بھی دوسروں سے بہت آگے ہے۔
2001 میں نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک آرٹیکل کے مطابق سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے
ایک خفیہ پروگرام شروع کیا تھا جسے بعد میں بش انتظامیہ نے مزید توسیع دی۔ اس پروگرام میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کر کے مہلک ترین جراثیم تیار کیے جاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک پروجیکٹ کا نام ’کلیئر وژن‘ تھا جو بظاہر تو سابق سوویت یونین کے تیار کردہ جراثیمی بموں پر تحقیق کے لیے قائم کیا گیا تھا مگر اس آرٹیکل کے مطابق یہ اپنے مقررہ مشن سے کہیں دور جا ہٹا اور اس نے خود ایسے بم بنانا شروع کر دیے۔
اگست 2019 میں امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع فورٹ ڈیٹرک نامی حیاتیاتی لیبارٹری میں اس وقت کام روک دیا گیا جب پتہ چلا کہ ایک طوفان کے نتیجے میں عمارت اور ساز و سامان کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث یہاں سے مہلک وائرس اور بیکٹیریا لیک ہونے کا خطرہ ہے۔
دفاع کی دھندلی لکیر
اسی دوران منظرِ عام پر آیا تھا کہ امریکہ خفیہ طور پر ایبولا وائرس، طاعون کے جراثیم اور رائسین نامی انتہائی زہریلے مادے پر کام کر رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے یہ پروگرام بی ڈبلیو سی کے دائرے کے اندر آتے ہیں کیوں کہ یہ دفاعی نوعیت کے ہیں اور ان کا مقصد امریکی عوام کو جراثیمی حملوں سے بچانے کے طریقے وضع کرنا ہے۔
لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، یہ کون طے کرے گا کہ دفاع کی لکیر کہاں ختم ہوتی ہیں اور جارحیت کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں؟
شاید یہی وجہ ہے کہ جب بی ڈبلیو سی کو مزید طاقتور بنانے کے لیے اس میں جین ایڈیٹنگ کے ذریعے جراثیم بنانے پر پابندی اور مشتبہ مقامات کے معائنے کی شقیں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تو بش انتظامیہ نے اس کو تارپیڈو کر دیا۔
’سارس کی طرح کی عالمی وبا؟‘
اب چین کا قصہ بھی سن لیجیے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے تین دن پہلے خبر دی ہے کہ مارچ 2018 میں امریکہ نے ایک چینی لیبارٹری میں اپنے سائنسی مندوب بھیجے تھے جنہوں نے واپس آ کر امریکہ کو دو خفیہ کیبلز بھیجی تھیں کہ اس لیبارٹری میں حفاظتی انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے امریکی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان میں سے ایک کیبل میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس لیبارٹری میں چمگادڑوں میں پائے جانے والے کرونا وائرسوں پر تجربات کیے جا رہے ہیں جن سے ’سارس کی طرح کی عالمی وبا پھیلنے کا خطرہ ہے۔‘
یہ لیبارٹری کون سی ہے؟ اس کا نام ووہان وائرولاجیکل انسٹی ٹیوٹ ہے اور یہ اسی ووہان شہر کی اسی جنگلی جانوروں کی ہوانان منڈی سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سے کرونا وائرس کا جنم ہوا تھا۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس لیبارٹری میں وائرسوں پر تحقیق ہوتی ہے۔ ویسے تو سائنس دانوں کو ایسے شواہد نہیں ملے کہ کرونا وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا گیا ہے، البتہ ایک تھیوری گردش میں ہے کہ ووہان کی اس لیبارٹری میں کرونا وائرس پر تحقیق ہو رہی تھی، کہ یہ وہاں کے عملے کی کسی لڑکی کو لگ گیا، وہ باہر آئی تو اس کے بوائے فرینڈ کو وائرس منتقل ہوا، اور پھر چل سو چل۔
اس وقت کون سے ملکوں کے پاس جراثیمی ہتھیار ہیں؟
نیوکلیئر تھریٹ انشی ایٹو (این ٹی آئی) نامی تنظیم ویسے تو ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھتی ہے لیکن وہ حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں رپورٹیں بھی جاری کرتی ہے۔
اس ادارے کے مطابق بائیوٹیکنالوجی کے شعبے میں برق رفتار ترقی کی وجہ سے جراثیمی ہتھیار بنانا بےحد آسان ہو گیا ہے اور کوئی بھی ملک جو دوائیاں اور میڈیکل آلات بنا سکتا ہے، وہ جراثیمی ہتھیار بنانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس ادارے کی ویب سائٹ پر 16 ملکوں کے نام درج ہیں جن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں: کینیڈا، چین، کیوبا، فرانس، جرمنی، ایران، عراق، اسرائیل، جاپان، لیبیا، شمالی کوریا، روس، جنوبی افریقہ، شام، برطانیہ اور امریکہ۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اس نے 1972 ہی میں بی ڈبلیو سی پر دستخط کر دیے تھے اور دو سال بعد اس کی توثیق بھی کر دی۔
امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق پاکستان کے پاس کے پاس حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت اور وسائل موجود ہیں، تاہم اس نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان کے پاس اس قسم کے ہتھیار موجود ہیں۔
بالکل یہی صورتِ حال بھارت کی بھی ہے۔ این ٹی آئی کے مطابق اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ بھارت حیاتیاتی ہتھیار بنا رہا ہے۔
کرونا وائرس نے جہاں دنیا کو بےشمار کچوکے لگائے ہیں لیکن اگر اس سے انسان ایک سبق سیکھ سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جراثیمی جنگ کو روکنے کے لیے بی ڈبلیو سی کو ختم کر کے اس کی جگہ کہیں زیادہ موثر اور فعال ادارہ قائم کیا جائے جس کے پاس اتنی طاقت ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکے۔
یہ ایک خواب ہی ہے اور کرونا کے دور میں بھی خواب دیکھنے کا لاک ڈاؤن ابھی نہیں ہوا۔