افغانستان میں امریکی عسکری مداخلت کے 11 ستمبر کو اختتام اور 11/9 حملوں میں واضح طور پر ایک مماثلت محسوس کی جا سکتی ہے کیونکہ اس روز ان حملوں کو 20 سال پورے ہو جائیں گے۔
اس فیصلے کے متعلق شاید یہی ایک چیز اچھی ہے ورنہ افغانستان اور پورے خطے کے مستقبل پر خدشات کی گہری دھند چھائی ہے۔
امریکہ اور اقوام متحدہ کی توثیق سے شروع ہونی والی یہ جنگ امریکہ کی جانب سے رسمی طور پر نہ سہی لیکن عملی طور پر اب ختم ہونے جا رہی ہے۔
امریکہ کے عسکری و دیگر تعاون کے بغیر جارجیا، جرمنی اور برطانیہ سمیت اتحاد میں شامل باقی قومیں عملی طور پر اپنی وقعت کھو دیں گی۔
افغانستان میں عسکری کارروائی دراصل نیٹو کے آرٹیکل نمبر پانچ پر عمل درآمد کی واحد مثال ہے، جس کے مطابق کسی ایک پر حملہ سب پر حملے کے مترادف ہو گا۔
2003 میں عراق پر حملے کو ’غیر قانونی‘ کہے جانے کے برعکس افغانستان پر امریکی حملہ کبھی بھی قابل ذکر قانونی سوالات کی زد میں نہیں آیا۔ بلکہ اسلامی دنیا نے بھی اس کی بھر پور حمایت کی۔
انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اس کے ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ، بنگلہ دیش، کولمبیا، ائیرلینڈ، جمیکا، مالی، موریشیس، ناروے، سنگاپور، تیونس اور یوکرین نے متفقہ طور پر منظور کی تھی۔
تاہم امریکہ کے بغیر کسی اتحاد یا انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس کی کوئی اہمیت نہیں۔
صدر جو بائیڈن کی دلیل سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’انخلا کے لیے مناسب ترین حالات کے انتظار اور مختلف نتائج کی توقع میں افغانستان کے اندر ہم اپنی عسکری طاقت میں اضافہ یا مدت میں توسیع کا سلسلہ جاری نہیں رکھ کر سکتے۔‘
یہ حقیقت ہے لیکن اس سے چند سوالات ضرور جنم لیتے ہیں، مثلاً امریکہ نے اتنی طویل جنگ کس مقصد کے لیے لڑی؟ کون جیتا اور اس کے بعد افغانستان اور مغربی دنیا کو کیسی صورت حال کا سامنا ہو گا؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے تین امریکی صدور جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور کسی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کو محسوس ہوا کیونکہ یہ جنگ جیتنی ممکن تھی، امریکی مفادات اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے لیے ضروری تھی اور اس کے نتیجے میں نئے پرامن افغانستان کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔
تاہم ویت نام کی طرح اس طویل اور پرتشدد جنگ نے امریکہ کی خود اعتمادی کو بری طرح مجروح کیا، عوام میں حمایت کھو دی جو اسے کسی منطقی نتیجے پر پہنچتا نہیں دیکھ رہے تھے اور قائدین کو تھکن سے چور کر دیا۔
یہ دراصل صدر ٹرمپ تھے جنہوں نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات نامی کوئی چیز شروع کی اور مئی 2021 تک تمام امریکی فوجی دستوں کے انخلا کا کمزور معاہدہ کیا جس کے بدلے میں القاعدہ کی سرکوبی اور کابل کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ شرکت اقتدار کی یقین دہانی لی گئی۔
اگر میں ’ٹرمپ ازم‘ کا سہارا لوں تو یہ تاریخ کا بدترین (کچھ لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے) معاہدہ تھا۔ (اس کے نتیجے میں) جلد ہی گفت و شنید یا خوش اسلوبی سے معاملات طے کرنے پر غیر آمادہ طالبان بہت جلد اچھے خاصے وسیع رقبے پر اپنا تسلط قائم کر لیں گے بالخصوص دارالحکومت کے آس پاس کے علاقے جہاں پہلے ہی ان کے پنجے مضبوط ہیں۔
القاعدہ یقیناً خصوصی امریکی کارروائی میں اپنے سربراہ اسامہ بن لادن سے محروم ہو چکی ہے لیکن ممکن ہے اس کے ارکان اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آئیں اور تربیتی کیمپ پھر سے کھول لیں۔
کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے نئے ٹھکانوں پر امریکہ کے خلاف دوبارہ حملوں کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے ہوں گے؟
اس کے علاوہ کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں کہ امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کو پہلے سے اندازہ تھا اور صدر بائیڈن نے عملی طور پر اعلان کر دیا تو اسے کسی بھی طور فتح قرار دینا مشکل امر ہے لیکن امریکہ فخریہ انداز میں امن قائم کرنے کا دعوی تو ہرگز نہیں کر سکتا۔
1974 اور 1975 میں کمبوڈیا اور ویت نام کی طرح امریکی دستے اپنے پیچھے بدعنوان پولیس اور سول اداروں پر انحصار کرتی بے ہنگم یا ناتجربہ کار افغانی حکومت چھوڑ کر جا رہے ہیں جس کی نظریاتی بنیادوں پر مشتعل سنگدل باغیوں کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی امریکہ کی طرح ان غیر روایتی، تیز رفتار گوریلا دستوں کے خلاف ایک متنازع جنگ لڑ رہے ہیں جن کی ملک میں جڑیں گہری اور خوف و دہشت کے ذریعے دھاک بٹھانے کا تجربہ وسیع ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ جس طرح روسی حملے کے وقت اور اس کے بعد ہوا بالکل اسی طرح روس، انڈیا اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خاطر اپنے پسندیدہ گروہوں کی پشت پناہی کریں گے اور ملک مزید انتشار اور مسائل کا شکار ہو گا۔ جیسا کہ ایک اعلیٰ امریکی آفیسر نے خدشات کا اظہار کیا حقوق انسانی اور محدود آزادی نسواں ’دوبارہ پتھر کے زمانے میں پہنچ جائیں گے‘ اور افغانستان دنیا کی ناکام اور بدحال ترین ریاستوں میں سے ایک ہو گا۔
جارج ڈبلیو بش کے اتحادی ٹونی بلیئر اپنے پیش نظر بہتر متبادل خیالات بیان کر کے ہلمند اور دیگر علاقوں میں جاری خون آشام جنگ میں برطانیہ کی شرکت کا جواز پیش کرتے کیا کرتے تھے۔
1991 میں روسیوں نے اپنے افغانی اتحادیوں کی امداد سے دست بردار ہوتے ہوئے ایسی کمزور حکومت چھوڑی جو محض چند ہفتوں کی مہمان ثابت ہوئی جس کے بعد طالبان اور ان کے حمایتیوں نے اقتدار سنبھال لیا اور نائن الیون سے کہیں پہلے القاعدہ کو کاروائیوں کی کھلی چھٹی مل گئی۔
1990 کی دہائی میں افغانستان کو بہت دور دراز، معمولی حیثیت کا مالک اور کسی کے لیے خطرے بننے کے لیے بہت کمزور سمجھتے ہوئے نظر انداز کرنا ایک بھیانک غلطی تھی اور چاہے کوئی دوسرا راستہ نہ ہو لیکن شاید مغرب دوبارہ وہی غلطی دہرانے جا رہا ہے۔
© The Independent