امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے رواں سال ستمبر تک افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کے بعد آسٹریلیا اور برطانیہ نے بھی جنگ زدہ ملک سے اپنی اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے جمعرات کو جذباتی انداز میں اپنے ملک کو 20 سالہ افغان جنگ سے نکالنے کا اعلان کیا۔
نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم موریسن اس وقت آبدیدہ ہو گئے جب انہوں نے افغانستان میں ہلاک ہونے والے 41 فوجیوں کے نام کی فہرست پڑھ کر سنائی۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا بھی امریکی فیصلے کے تناظر میں افغانستان سے اپنی باقی ماندہ افواج کو ستمبر تک نکال لے گا۔
آسٹریلیا نے شدت پسند گروپوں کے خلاف امریکی اور نیٹو کی زیرقیادت مہم کے ایک حصے کے طور پر گذشتہ 20 سالوں کے دوران افغانستان میں اپنے 39 ہزار فوجی تعینات کیے تھے لیکن آج وہاں صرف 80 امدادی اہلکار ہی موجود ہیں۔
موریسن نے اس موقع پر افغانستان سے مکمل انخلا کے فیصلے کو ’آسٹریلیا کی فوجی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل‘ قرار دیا، تاہم یہ جنگ آسٹریلین فورسز کے لیے کافی مہنگی ثابت ہوئی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے جذباتی انداز میں جنگ میں ہلاک ہونے والے 41 آسٹریلین فوجیوں کے نام پڑھنے کے بعد کہا کہ ’یہ ہمارے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ عظیم قربانی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’یہ بہادر آسٹریلین فوجی ہمارے عظیم ترین ہیروز میں شامل ہیں جنہوں نے آزادی کے نام پر خدمات انجام دیں۔‘
اگرچہ 2013 کے آخر تک اپنے بیشتر جنگی فوجوں کے انخلا کے بعد حالیہ برسوں میں افغانستان میں آسٹریلین فوج کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن داخلی طور پر اس جنگ کے حوالے سے اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔
سابق فوجی گروپوں نے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ سابق مرد و خواتین فوجیوں کی جانب سے بڑی تعداد میں کی جانے والی خودکشیوں کی باضابطہ تحقیقات کرے۔
ادھر فوج اور پولیس ایلیٹ سپیشل ایئر سروسز کے اراکین کی جانب سے افغانستان میں کیے کئی جنگی جرائم کی تحقیقات کر رہی ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ نے بھی افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر دیا۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد برطانیہ بھی افغانستان سے باقی تمام فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔
اس سے ایک روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ امریکی سرزمین پر حملے کے 20 سال بعد رواں سال 11 ستمبر تک امریکہ کے تمام 2500 فوجی دستے واپس بلا لیے جائیں گے۔
نائن الیون حملوں کے بعد اکتوبر 2001 میں پہلی بار برطانوی افواج کو افغانستان میں تعینات کیا گیا تھا اور تب سے برطانوی فورسز نے اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔ افغان جنگ میں مجموعی طور پر 456 برطانوی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ برطانیہ کا جنگی آپریشن 2014 میں ختم ہو گیا تھا۔
بین ویلیس نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’ایسے وقت جب ہم واپسی کر رہے ہیں اگر افغانستان میں خدمت انجام دینے والے ہمارے لوگوں کی سلامتی ہماری ترجیح رہے گی اور ہم اس حوالے سے واضح ہیں کہ اتحادی فوج پر حملوں کا زبردست ردعمل دیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا: ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اس جنگ میں اپنی جانوں کی قربانی دی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔‘
اس وقت افغانستان میں برطانوی فوجیوں کی تعداد تقریباً 750 ہے۔