اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں امدادی سامان کے داخلے پر پابندی سے 10 لاکھ بچوں پر انتہائی تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔
یونیسیف نے ایکس پر جاری اپنے تازہ بیان میں بتایا ہے کہ دو مارچ 2025 سے اب تک کسی بھی قسم کی امداد کو غزہ میں داخل ہونے نہیں دیا گیا ہے، جو کہ اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے امداد کی بندش کا طویل دورانیہ ہے۔
بیان کے مطابق اس بندش کے باعث طبی سامان، خیمے، صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
یونیسیف کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ’یونیسیف کے ہزاروں کی تعداد میں امدادی سامان عزہ میں داخل ہونے کا منتظر ہے، جن میں سے زیادہ تر جانیں بچانے والا سامان ہے، مگر جان بچانے کی بجائے وہ اب تک سٹورج میں ہی رکھا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’امدادی سامان کو داخل ہونے کی فوراً اجازت دی جانی چاہیے، یہ انتخاب یا خیرات نہیں بلکہ عالمی قوانین کے تحت ذمہ داری ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان بچوں کی حالت انتہائی نازک ہے جن کا غذائی قلت کے باعث علاج چل رہا ہے۔
’21 طبی مارکزت مطلب 15 فیصد مراکز 18 مارچ 2025 سے بند ہیں جس کی وجہ نقل مکانی کے احکامات یا بمباری ہے۔‘
یونیسیف کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ریجنل ڈائریکٹر نے اس بیان میں مزید کہا ہے کہ ’ہم اسرائیلی حکام سے غزہ میں موجود دس لاکھ بچوں کے لیے درخواست کرتے ہیں کہ عالمی قوانین کے تحت کم از کم انسانی بنیادی ضروریات کو تو پورا کرنے دیا جائے۔‘
اسرائیل نے 18 مارچ 2025 کو تقریباً دو ماہ طویل جنگ بندی کے خاتمے کے بعد غزہ پر شدید بم باری دوبارہ شروع کی اور پھر ایک نیا زمینی حملہ کیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 18 مارچ کو اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بڑے فوجی حملے دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے ایک ہزار سے زائد افراد قتل کیے جا چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کے حملوں میں صرف 10 روز میں کم از کم 322 بچے قتل اور 609 زخمی ہوئے تھے۔
یونیسیف نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ ان اعداد و شمار میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو 23 مارچ کو جنوبی غزہ میں الناصر ہسپتال کے سرجیکل ڈپارٹمنٹ پر حملے میں قتل یا زخمی ہوئے تھے۔