اگر آپ دنیا کے 70 کروڑ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد میں سے ایک ہیں جنہیں قینچی، ٹن کا ڈھکن کھولنے والے آلے، کاگ کش اور Qwerty کی بورڈ کے استعمال میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ جان چکے ہوں گے کہ دنیا دائیں ہاتھ والوں نے دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے لیے بنائی ہے۔
لیکن اس بات سے تسلی رکھیے کہ بایاں ہونے کے لیے مناسب ترین وقت آج کے دور سے پہلے کبھی نہ تھا اور اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ بالآخر بینک چیک بکس بتدریج ختم کر رہے ہیں۔
اگرچہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے دنیا کی آبادی کا محض 10 فیصد ہیں لیکن امریکہ کے گذشتہ آٹھ سربراہان مملکت میں سے پانچ ایسے تھے جنہوں نے اپنے انتظامی حکم ناموں پر دستخط بائیں ہاتھ سے کیے۔ بلاشبہ بایاں ہونا اب پیشہ ورانہ ترقی یا سماجی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں رہا، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد کی داستان ہمیشہ سے ناگفتہ بہ رہی کیونکہ تاریخ زیادہ تر دائیں ہاتھ نے لکھی، جنہیں اس بات کی کوئی خاص پروا نہ تھی کہ ان کا بایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ باقی ماندہ لسانی تعصبات کسی حد تک اشارہ کرتے ہیں کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد کس طرح تعصب کا شکار رہے۔ مثال کے طور پر انگریزی کا لفظ ہے sinister (جس کا مطلب ہے منحوس یا برا)۔ یہ لفظ لاطینی زبان سے آیا ہے جہاں اس کا مطلب محض ’بایاں‘ تھا، لیکن بعد میں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں سے ایسے بدگمانی برتی گئی کہ بتدریج یہ لفظ برائی کا ہم معنی ہو گیا۔
تاہم قبل از تاریخ کے دور میں ہم جتنا پیچھے جا سکتے ہیں، کم از کم آثار قدیمہ کے ریکارڈ کے مطابق بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے ہمیشہ سے رہے ہیں، جو ہر وقت، ہر جگہ، ہر کہیں آبادی کا مستقلاً 10 فیصد حصہ رہے۔
نینڈر تھال کس طرح گوشت اپنے منہ تک پہنچاتے تھے اور قدیم انسانی نسلوں کے دانتوں پر موجود نشانات پر تحقیق کے مطابق انسان کے آبا و اجداد میں کم سے کم پانچ لاکھ برسوں تک مستقل طور پر 10 فیصد کھبے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ بیلجیئم میں آثار قدیمہ کے ایک مقام سے دریافت شدہ نو ہزار سالہ قدیم آلات پر موجود نشانات اور ایک ہزار مجسموں اور تصاویر پر بائیں ہاتھ سے کی گئی تقریباً تین ہزار سالہ قدیم فنکاری نے اسی تناسب کی توثیق کی ہے۔
انسانی ارتقا نے ہزاروں سال تک بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی مختصر تعداد مستحکم طور پر برقرار رکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں ہاتھ کی مہارت کا ارتقائی مقاصد میں یقیناً کردار رہا ہے۔
شاید اس پر غور و خوض کی بہترین ابتدا اس سوال سے ہو سکتی ہے کہ انسانوں میں 90 کے مقابلے میں 10 فیصد کی غیر متناسب شرح کیوں ہے؟ جبکہ بیشتر ممالیہ اور پریمیٹس کے پنجوں کے استعمال کی ترجیح فطری انداز میں تقریباً 50 فیصد کی شرح سے ہے (یعنی دوسرے جانوروں میں دائیں اور بائیں ہاتھ والوں کی شرح تقریباً برابر ہوتی ہے)۔
ارتقائی عمل کے دوران وہ دو کون سی خصوصیات ہیں جو ہمیں انسان بنا کر دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں؟ ایسی دو بنیادی خصوصیات ہیں جن پر متضاد گروپوں والے ماہرین بھی اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں: پچھلی ٹانگوں پر چلنا اور باتیں کرنا۔
آج سے پہلے سوا کروڑ اور 60 لاکھ برسوں کے درمیان کسی وقت ہماری نوع مشترکہ نسب سے ہٹتے ہوئے بن مانسوں سے الگ ہو گئی۔ ہمارے آبا و اجداد گھنے جنگلوں سے ہجرت کرکے افریقہ کے کھلے میدانوں میں آ گئے، جہاں پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونے اور لمبی گھاس میں سے جھانکنے کے عمل نے ہمیں شکار کرنے اور دوسروں کا شکار بننے سے بچنے کا دہرا کردار ادا کیا ہو گا۔
فطری انتخاب کے عمل میں وہ آبا و اجداد جو کھڑے ہونے کی بہتر صلاحیت رکھتے تھے ممکنہ طور پر ان کے زندہ بچنے اور نسل بڑھانے کے امکانات بھی زیادہ تھے۔ ہمارے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہوتے ہی ہمارے ہاتھ آزاد ہو گئے، سو ہم ان سے خوراک اکٹھی کرنے اور بعد میں ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کا کام لینے لگے۔
دماغی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ بطور نوع ہمارے کھبے اور سجے ہونے کے غیر متناسب پن کا سبب دو پیروں پر چلتے ہوئے ہاتھوں کی آزادی کے مرحلے میں پوشیدہ ہے کیونکہ یہی وہ وقت تھا جب ہمارے دماغ کے دائیں اور بائیں حصوں نے الگ الگ امور کی انجام دہی پر مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ دماغ کے مختلف حصوں کا مختلف کردار ہی ایک حصے کی دوسرے پر فوقیت کا بنیادی سبب ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ایک حصے کی دوسرے پر فوقیت جانوروں میں بھی بالعموم موجود ہوتی ہے لیکن اس سے بہت ہی کم درجے کی جو دو پیروں پر چلنے والی نوع بالخصوص انسانوں میں پائی جاتی ہے۔
جب ہمارا دماغ بڑے پیمانے پر مختلف امور زیادہ مہارت سے سر انجام دینے لگا اور ہاتھوں کے استعمال کی صلاحیت کے ساتھ ہم بطور نوع زیادہ کامیاب ثابت ہوئے، لیکن بعد میں یہ نسلِ انسانی کی لسانی ترقی تھی، جس نے زمین پر ہماری دسترس ممکن بنائی۔
دماغی ساخت کے جدید مشاہدے سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوچکی ہے کہ زیادہ تر انسانوں کے دماغ کا بایاں حصہ زبان کے امور کے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔
جیسے ہی ہمارے دماغ کا بایاں حصہ زبان کے استعمال اور مفہوم کو سر انجام دینے لگا، اس کے ساتھ ہی ہمارے دماغ کی پیچیدہ بنت بائیں ہاتھ کو منفی گرداننے لگی۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ دماغ کا بایاں حصہ دائیں اعضا اور دایاں حصہ بائیں اعضا کو کنٹرول کرتا ہے۔
دائیں ہاتھ کی فوقیت دماغ کے بائیں حصے کی ترجیحی سرگرمیوں کا فطرتی نتیجہ تھی۔ دماغی امور کے چند ماہرین کا خیال ہے کہ بولتے ہوئے ہم لاشعوری طور پر اپنی بات کے مطابق دائیں ہاتھ سے اشارے کرتے ہیں جو دماغ کے بائیں حصے سے صادر ہونے والا عمل ہے۔
جب دماغی ساخت کے جدید مشاہدے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ انسانوں میں دماغ کے بائیں حصے کا لسانی اختیار دائیں ہاتھ کے استعمال کی نسبت زیادہ ہے اور یہ کہ 61 فیصد بائیں بازو والوں کے دماغ میں لسانی عمل دائیں حصے میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے تو شاید اس کے بعد یہ سوال بنتا ہے کہ ہم میں سے محض 90 فیصد ہی کیوں دائیں ہاتھ والے ہیں۔
’لڑاکا مفروضے‘ (fighter hypothesis) کی وکالت کرنے والوں کا خیال ہے کہ بائیں ہاتھ کے استعمال کی خاصیت مستقل طور پر 10 فیصد اس لیے رہی ہے کہ دو بدو مقابلے میں غیر متوقع عنصر مدمقابل پر فوقیت دیتا ہے۔ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے، دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں سے مقابلے کی اچھی خاصی مشق کرتے ہیں لیکن شکار سے وابستہ ماضی کے دور میں عین ممکن تھا کہ دائیں ہاتھ سے لڑنے والے کی اپنے مدمقابل بائیں ہاتھ والے سے پہلی لڑائی ہی آخری ثابت ہو۔
اس مفروضے کے حق میں حالیہ پیشہ ورانہ کھیلوں کے اعداد و شمار سے ثبوت حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ 10 ہزار باکسروں اور مارشل آرٹ فائٹروں کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بائیں ہاتھ والوں کی جیت کی شرح اپنے مدمقابل دائیں ہاتھ والے روایتی کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ شکار پر گزر بسر کرنے والے ماضی کے چند مسابقتی معاشرے جو آج بھی موجود ہیں ان میں معمولی فرق کے ساتھ بائیں ہاتھ والوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ تاہم عام طور پر بائیں ہاتھ والوں کی تعداد محض 10 فیصد رہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شکار کے عہد میں ہمارے آباؤ اجداد کچھ زیادہ ’پرتشدد اور ظالمانہ مزاج‘ کے مالک نہیں تھے۔
ارتقائی عمل کے دوران اگر وہ معاشرے واقعی محض ’طاقتور کی بقا‘ جیسی خالص خونی بنیادوں پر استوار ہوتے تو آپ کو ہاتھوں کے ترجیحی استعمال کی شرح 50، 50 کی اوسط سے برابر نظر آتی اور وقت کے ساتھ ساتھ باہمی لڑائیوں میں یہ کوئی خوبی ہی نہ رہتی۔
مستقل طور پر 10 فیصدی تناسب کو 2009 میں ایک تحقیقی جائزے نے اس مفروضے کی تائید کے طور پر استعمال کیا کہ گھوم پھر کر شکار کرتے ہوئے ہماری کامیاب بقا بے رحم مقابلہ بازی کے بجائے لسانی ایجاد اور باہمی تعاون پر زیادہ منحصر تھی۔ یہ مختصر لیکن مستحکم اقلیت ایک توازن کی آئینہ دار ہے جہاں دوستانہ اور مخالفانہ کھینچا تانی کے ماحول میں بتدریج ہاتھوں کا استعمال 10 فیصد کی ایک باقاعدہ شکل اختیار کر گیا۔
ایسا لگتا ہے بائیں ہاتھ والوں کو برائی سے منسوب کرنے کا سلسلہ تقریباً 10 ہزار سال قبل اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ہماری نوع خانہ بدوش شکاری قبائل سے زرعی معاشرے میں تبدیل ہوئی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ابتدائی کاشتکار معاشرے چاہے جدید تہذیب کے بنیاد گزار ہوں لیکن تنگ نظر اور توہم پرستانہ معاشروں میں بائیں ہاتھ سے کام لینے جیسے خلاف قاعدہ جسمانی عناصر عجیب و غریب اور ناپسندیدہ تصور کیے جاتے تھے۔
اگر بائبل کو بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے تو بلا شبہ پانچ سو برس قبل از مسیح یہود و نصاریٰ کی روایت میں ایسا لگتا ہے کہ بائیں باتھ والے برائی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اولڈ ٹیسٹمنٹ میں جسم کی بائیں جانب کو دھوکہ دہی اور تاریکی سے منسوب کیا گیا ہے۔ اپنے بلند مقام سے محرومی سے پہلے شیطان خدا کے بائیں جانب بیٹھا۔ آدم کو برائی پر مجبور کرنے سے پہلے حوا نے بائیں پسلی سے جنم لیا۔ نئے ٹیسٹمنٹ میں مسیحی روایت نے ہمیشہ بائیں ہاتھ کو خفیہ دھوکہ دہی، بداخلاقی اور نا جائز نسب سے منسوب کیا ہے۔
بھیڑ اور بکریوں کی تمثیل میں سچے لوگ دائیں جانب ہیں اور خدا کی رحمت میں داخل کیے جائیں گے جبکہ بائیں جانب والے شیطان کے ساتھ شامل ہوں گے۔ ’پھر وہ اپنے بائیں جانب والوں سے بھی مخاطب ہو گا کہ میرا تم سے کوئی ناطہ نہیں، تم سب کو ہمیشہ کے لیے آگ کے حوالے کیا جاتا ہے جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کے لیے تیار کی گئی تھی۔‘ (میتھیو 25:41)۔
رومیوں کا اعتقاد تھا کہ بایاں بدبختی کی علامت ہے اور اپنی سلطنت کے زوال کے بعد نئے رومی چرچ نے یہ عقیدہ پوری مسیحی دنیا کے ذہنوں میں بٹھا دیا۔
توہم پرستی کی صورت میں یہ تعصب آج بھی موجود ہے۔ ہم بائیں کندھے پر نمک چھڑکتے ہوئے شیطان کو کمزور اور دائیں جانب بیٹھے نگران حفاظتی فرشتے کو طاقتور بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ بستر سے اترتے ہوئے بائیں جانب قدم رکھنا برے دن کی علامت سمجھی جاتی ہے اور ناجائز بچے جو کبھی ’خدا کے منصوبے کا حصہ نہیں تھے‘ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بستر کی ’غلط‘ جانب (بائیں) سے ہمبستری کا نتیجہ ہیں۔
انگریزی زبان کی تاریخ دائیں ہاتھ والوں کی نوآبادیات میں سے ایک ہے۔ ’لیفٹ‘ کا لفظ ہی قدیم انگلش سے نکلا ہے اور اس کا بنیادی مطلب ہے کمزور اور شکستہ۔ نارمن نسل کے حملے کے بعد عوام کی سرکاری زبان فرانسیسی بن گئی۔ دائیں کے لیے ان کی زبان میں موجود لفظ droit کا مطلب بھی ’درست‘ ہے جو حق کے ہم معنی استعمال ہونے لگا جبکہ بائیں کے لیے فرانسیسی لفظ gauche اپنے دیگر مترادفات اناڑی اور احمق کی طرح غیر روایتی بھدے پن اور مشکوک قانونی حیثیت کا مترادف ہے۔
آج بھی سیاسی بیانیے کے مطابق دایاں بازو روایتی سٹیبلشمنٹ کے حمایتیوں کے ساتھ منسلک ہے، جبکہ بایاں بازو غیر روایتی تبدیلی کا مترادف ہے جس کے لیے اپنی قانونی حیثیت اور حکومت کرنے کا حق منوانا ایک جان جوکھم کام ہے۔
قرون وسطی میں کیتھولک چرچ کے عقائد میں بایاں پن شیطان کی علامت تھی۔ ہسپانوی انکویزیشن (inquisition) میں بایاں پن کیتھولک چرچ سے انحراف اور چرچ کا نظام الٹنے کا ملحدانہ تصور سمجھا گیا۔ ’چڑیلوں‘ کے خلاف مہم (witchmania) کے تاریخی ادوار میں بائیں ہاتھ والا ایسا عمل شروع کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جس کا اختتام آگ ہو سکتی تھی۔ کالے جادو کو بعض اوقات ’بائیں ہاتھ کا عمل‘ بھی کہا جاتا ہے۔
جون آف آرک بائیں ہاتھ والی ہوں یا نہ ہوں لیکن انہیں ڈائن کہنے والے الزام تراش ان کی تصویر کشی یقیناً ایسے ہی کرتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ’میکبتھ‘ کی ابتدائی عکس بندیوں میں weird sisters سٹیج پر آمد و رفت کے لیے بائیں سمت استعمال کرتی تھیں اور اپنے کڑاہ کو کاؤنٹر کلاک وائز یعنی بائیں سے دائیں کی طرح ہلاتی تھیں۔ ’سالم وچ ٹرائلز‘ (Salem witch trials) میں بائیں ہاتھ والی عورتوں پر ڈائن ہونے کا الزام زیادہ عائد کیا گیا۔
ممکن ہے روشن خیالی کے دور کے بعد بائیں ہاتھ والوں کی مشکلات آسان ہونے کی توقع باندھی گئی ہو، لیکن سماجی و اقتصادی پہلو سے انہیں ایک اور مشکل کا سامنا کرنا تھا۔ وکٹورین عہد کے دوسرے صنعتی انقلاب کے دوران بائیں ہاتھ والے پہلی بار نمایاں اقلیت کے طور پر ’رد‘ کیے گئے۔
سکول کے ابتدائی دنوں میں بائیں ہاتھ سے لکھنے والے بچوں کے بائیں پن پر شور مچایا جاتا تھا۔ دائیں ہاتھ کا استعمال یقینی بنانے کے لیے بائیں ہاتھ کو کرسی سے باندھتے وقت شاید استاد یہ سمجھتے تھے کہ وہ ان کے فائدے کے لیے سختی برت رہے ہیں۔ یہ رجحان بالخصوص سکاٹش اور آئرش سکولوں میں عام تھا۔
’دا کنگز سپیچ‘ نامی فلم میں کنگ جارج ششم کی عمر بھر جاری رہنے والی ہکلاہٹ عکس بند کی گئی تھی اور اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تسلیم شدہ نفسیاتی کیفیت بائیں ہاتھ سے منسلک غلط تصورات کی اصلاح کا نتیجہ تھی جو بائیں ہاتھ والے بچوں کو زبردستی ’درست‘ ہاتھ سے لکھنے پر مجبور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
بائیں ہاتھ والے ایسے بچے جو اپنے فطری ہاتھ کو لکھنے کے لیے استعمال کرتے رہے، انہیں سٹیل کی نب سیاہی میں ڈبو کر صفحات پر گھسیٹنا پڑتی تھی جس سے گندی، گھٹیا لکھائی ہوتی اور اس لیے اکثر انہیں نالائق سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح صنعتی انقلاب کے دوران بائیں ہاتھ والے فیکٹری مزدوروں کو اپنے ساتھیوں کا مقابلہ کرنے میں دقت پیش آتی تھی کیونکہ مشینیں اور آلات خصوصی طور پر دائیں ہاتھ والوں کے استعمال کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔
دوہزار سات میں یونیورسٹی کالج لندن سے وابستہ ہاتھوں کے ترجیحاتی استعمال کے محققین نے وکٹورین سینیما کے بنیاد گزاروں مچل اور کینئن کے فلمائے گئے عوامی مناظر کا جائزہ لیا۔
ہاتھوں کی حرکات کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ 1890 اور 1910 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد میں سے بائیں ہاتھ والوں کی تعداد ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں کم ترین سطح پر آ کر چار فیصد رہ گئی تھی۔ اس مظہر کو انہوں نے ’وکٹورین ڈِپ‘ کا نام دیا۔ سکولوں اور فیکٹریوں میں مخالفانہ ماحول کے سبب محض چند نسلوں کے فرق سے وکٹورین عہد میں بائیں ہاتھ والوں کا تناسب کم ہو گیا کیونکہ کم کامیاب بائیں ہاتھ والے افراد تاخیر سے شادیاں اور تھوڑے بچے پیدا کر رہے تھے۔ انگلینڈ میں بائیں ہاتھ والوں نے اپنی 10 فیصد کی فطرتی تعداد کہیں بیسویں صدی کے نصف میں جا کر بحال کی۔
لیکن جدید ترین تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ شاید اب یہ بائیں ہاتھ والے ہیں جنہیں فوقیت حاصل ہے۔ southpaw effect کا مطلب ہے بائیں ہاتھ والوں کی پیشہ ورانہ مسابقتی کھیلوں میں نمائندگی ان کی تعداد کی نسبت زیادہ ہے۔ اگر آپ اپنے بائیں ہاتھ والے بچے کے لیے اولمپکس کا خواب دیکھنے والے پرعزم والدین ہیں تو لوگ آپ کو ٹینس، کرکٹ، باکسنگ یا بیس بال جیسے تیز رفتار مقابلوں کا بہترین مشورہ دیں گے۔ بیس بال کی تاریخ میں 50 فیصد بہترین ہٹرز بائیں ہاتھ والے ہیں اگرچہ اس کھیل میں ان کی شرکت محض 10 فیصد بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاشبہ بال پوائنٹ پینسل ایجاد کرنے والے لیزلو بیرو سے بڑھ کر بائیں ہاتھ والوں کے لیے تعلیم کے میدان میں کسی دوسرے شخص نے آسانی پیدا نہیں کی، لیکن دماغ کے ساختیاتی مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں ہاتھ والوں کے غیر روایتی دماغ کے باعث انہیں دیگر بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بائیں ہاتھ والے افراد میں دماغ کے دونوں حصے زیادہ بہتر طریقے سے آپس میں جڑے ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر زبان کے بہتر استعمال میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹولیڈو کے مطابق بائیں ہاتھ والوں کی بہتر یادداشت کے پیچھے بھی شاید یہی وجہ ہو۔
ریاضی میں بائیں ہاتھ والوں کی برتری بہت نمایاں محسوس کی جاتی ہے۔ 2300 اطالوی طالب علموں پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب کسی مشکل مسئلے کو حل کرنے کا مرحلہ آیا تو بائیں ہاتھ والے اپنے دائیں ہاتھ والے ساتھیوں پر سبقت لے گئے۔
زیادہ متوازن دماغوں کی بدولت، دماغ کا دائیں حصہ کسی چیز کی عملی شکل سے بیشتر فضا میں اس کے خاکے سے اسے سمجھ سکتا ہے، بائیں ہاتھ والے فن تعمیر اور ڈیزائننگ کے شعبوں میں بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ عملی شکل سے پہلے فضا میں بہتر خاکہ تیار کر سکنے کی ان کی بہتر دماغی صلاحیت اس بات کا جواب بھی فراہم کرتی ہے کہ دنیا کے بہترین آئی کیو لیول والی تنظیم ’مینسا‘ کے 20 فیصد اراکین بائیں ہاتھ والے کیوں ہوتے ہیں۔
اگر پھر بھی بائیں ہاتھ والوں کو اپنے حق میں تحریک چلانے کی ضرورت پڑے تو وہ اوپرا ونفری، نینسی پیلوسی، نوم چومسکی، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور براک اوباما جیسے بائیں ہاتھ والے دنیا کے کامیاب ترین افراد کی طویل فہرست میں سے کوئی ایک شخص بطور قائد چن سکتے ہیں۔
آج کے دور میں قدیم افسانوں اور خیالات کی جگہ بائیں ہاتھ والوں کی بہتر تخلیقی صلاحیت کے دعوؤں نے لے لی ہے، لیکن ایسے بکثرت غیر مصدقہ دعوؤں سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کی نسبت بائیں ہاتھ والوں کے حق میں فضا کتنی تبدیل ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ ماضی کے گناہوں کی تلافی کی جا رہی ہو۔
© The Independent