1942 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جاپانی فوج نے سنگاپور پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی سلطنت کے لیے یہ تباہ کن شکست تھی اور تاریخی اعتبار سے یہ یورپی سلطنتوں کے خاتمے کا نقطہ آغاز تھا۔
جاپانی حملے کی کامیابی میں اہم ترین کردار سمندر میں طویل فاصلے تک سفر کرنے والے ان کے طیارے کی صلاحیت تھی جس نے برطانیہ کے دو عظیم ترین جنگی جہازوں کو ڈبو دیا۔ برطانیہ کے لیے واقعی یہ بہت تباہ کن واقعہ تھا۔ کئی سال بعد اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ونسٹن چرچل نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر نے کم و بیش ان پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔
کسی بھی قسم کی قابل اعتماد فضائی دفاع کی صلاحیت سے محروم رائل نیوی نے ٹرائی پاڈ پر نصب اینٹی ایئر کرافٹ گنوں سے اپنے دفاع کی کوشش کی تھی۔ حملے کے دوران جاپانیوں کے محض 88 حملہ آور طیارے تباہ ہوئے جو انگریزوں کے شکست ٹالنے کے لیے بہت ہی معمولی تعداد تھی۔
بعد میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکیوں نے اس سے بہتر انتظام کرتے ہوئے طیارہ بردار بحری جہازوں پر لڑاکا طیارے تعینات کر دیے جن کا واحد مقصد جاپانی طیاروں سے اپنے بیڑے کو بچانا تھا۔ قریب آنے پر پیشگی تباہ کرنے کی صلاحیتوں والے میزائل (proximity fuse) سے آگاہی نے ان کا حفاظتی حصار مزید مضبوط کر دیا۔ حیرت انگیز طور پر اینٹی ایئر کرافٹ کی شدت میں مزید پانچ گنا اضافہ کرتے ہوئے امریکیوں نے ریڈار کنٹرول اینٹی ایئر کرافٹ شیل ایجاد کیا جو اپنے ہدف کے قریب ترین مقام پر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔
یہ ایسی ٹیکنالوجی تھی جو بعد میں برطانیہ نے یورپ میں جنگ کے اختتامی مراحل کے دوران بدنام زمانہ اڑنے والے V1بموں کو گرانے کے لیے ادھار لی تھی۔ یہ شاید 1940 کی دہائی کے وسط کے جاپانی کامی کازی پائلٹوں (خودکش ہواباز جو اپنا جہاز ہدف کے ساتھ جان بوجھ کر ٹکرا دیتے تھے) کے خلاف موثر ہونے کی وجہ سے مشہور ہوئی۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ اب شکست سے بچنا ناممکن ہے، سینیئر جاپانی افسران نے اپنے ہوا بازوں کو حکم دینے کا فیصلہ کیا کہ وہ جان بوجھ کر اپنے طیارے دشمنوں کے بحری بیڑوں سے جا ٹکرائیں۔ انگریزی بولنے والی دنیا کے لیے یہ بالکل نیا رجحان تھا اور حکمت عملی میں اس تبدیلی پر کئی اتحادی فوجی حیرت زدہ رہ گئے۔
تاہم جاپانی اعلیٰ افسران کے نقطہ نظر سے یہ بات قابل فہم تھی۔ اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ کر لیا گیا تھا کہ بھرپور تربیت یافتہ ہر جاپانی پائلٹ گولی کا نشانہ بننے سے قبل اتحادی بحری فوج کے خلاف ایک یا دو سے زائد حملے کرنے کا موقع شاید ہی پا سکے اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ ان میں سے کوئی بھی حملہ اپنے اصل ہدف کو نشانہ بنا سکے گا یا نہیں۔
حالات اور اس عہد کے جاپانی ذہن کے مطابق یہ بالکل منطقی چیز تھی کہ آپ اپنے طیارے کو خود کش طریقے سے دشمن کے بیڑے سے جا کر ٹکرا دیں۔ ایسی حکمت عملی کے لیے جاپانیوں کو اپنے زیادہ قیمتی، اعلیٰ کارکردگی والے ہوائی جہازوں کی قربانی دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ بہت سے کامی کازی ہوا باز غیر معیاری، ہوا بازی کی تربیت کے لیے موجود کم قیمت والے جہازوں میں بیٹھ کر حملہ آور ہوتے جبکہ دوسری طرف امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پر حملہ امریکی افواج کی کمر توڑ سکتا تھا۔
جاپانیوں کی بدقسمتی کہ امریکہ کا فضائی دفاع ان کی توقع سے کہیں زیادہ مضبوط ثابت ہوا۔ پانچ میں سے محض ایک کامی کازی پائلٹ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا جبکہ دیگر کو لڑاکا دفاع یا بیڑے پر نصب اینٹی ایئر کرافٹ گنوں نے پہلے ہی مار گرایا۔ اس کے باوجود اتحادیوں کے 500 بحری جہاز کامی کازی پائلٹوں کی زد میں آئے۔ میرے اپنے چچا کا بحری جہاز ’ایچ ایم ایس الیسٹریئس‘ (HMS Illustrious) پے در پے کئی حملوں سے بمشکل بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتحادیوں کے تمام جہاز اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ مجموعی طور پر اتحادیوں کے 50 بحری جہاز ڈوب گئے اگرچہ اس کے علاوہ بہت سے ایسے تھے جنہیں آگ لگی اور ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ اگرچہ اس واقعے میں ایسا حملہ کبھی نہیں کیا گیا تھا لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جاپانیوں کے پاس مزید تین ہزار ایسے ہوائی جہاز موجود تھے جو جاپان کی بری یا بحری سرزمین پر ممکنہ حملے کی صورت میں کامی کازی پائلٹوں کی جگہ استعمال ہو سکتے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران پنکھے سے چلنے والے لڑاکا طیاروں کی جگہ میزائل پھینکنے کا مظاہرہ انسان کے ہاتھوں انجام پانے لگا اور یہ میزائل اپنے ہدف کی جانب 300 سے 350 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتے تھے۔ ان میزائلوں کو گرانے کی کوشش میں اتحادیوں کو کئی مسائل درپیش تھے۔ ایک مسئلہ ایک آدمی کے لیے تیار کردہ جہاز کا چھوٹا سائز تھا۔ عملی نقطہ نظر سے چار انجن والے لنکاسٹر بمبار یا امریکی B17 جیسے بڑے سائز کے جہاز کو مار گرانا جاپانی زیروز (Japanese Zeros) کے چھوٹے کراس سیکشنل ایریا والے سنگل انجن ہوائی جہاز کی نسبت زیادہ آسان تھا۔
دوسرا مسئلہ وقت کی نسبتاً قلت کا تھا کہ اینٹی ایئر کرافٹ گنر کو پہلے حملہ آور جہاز دیکھنا اور پھر اس پر فائر کرنا ہوتا تھا۔ خاص طور پر اینٹی ایئر کرافٹ کے پھرتیلے ترین توپچیوں کو بھی مسلسل کئی ہفتوں تک سمندر کے اندر جہاز کے تختے پر اس قدر چوکنا رہنا پڑتا تھا جو انسانی بس سے باہر معلوم ہوتا ہے۔ ریڈار کی ایجاد نے اس کام کو بہت آسان بنا دیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس قدر تیز رفتاری سے دشمن کا طیارہ قریب آتا تھا، اتنا ہی انسان کے پھینکے گئے میزائل کو مار گرانے کے لیے کم وقت بچتا تھا۔
بیشتر جاپانی ہوا بازوں نے اتحادی بحری جہازوں پر غوطہ لگاتے ہوئے اپنے جہاز گرا ڈالے تاکہ ان کی حرکت اور حملہ مزید تیز رفتار ہو۔ اس کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ انہیں مار گرانے میں 80 فیصد کامیاب رہا۔ اگر رائل نیوی محض دو سال پہلے اسے حاصل کرنے میں کامیاب رہتی تو برطانوی اپنے بیڑے کو فضائی حملے سے بچا سکتے تھے اور اس حملہ آور جاپانی فوج کی کمر توڑ دیتے جس نے بعد میں سنگاپور پر قبضہ کر لیا تھا۔
دراصل فضائی طاقت نے بحری جنگ کا انداز تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ رجحان جاری رہا جہاں ریڈار گائیڈڈ میزائل کی ایجاد سے ایک اہم پیش رفت ہوئی۔ 1960 کی دہائی کے اواخر میں فرانسیسی سائنس دانوں نے ایک نئے اینٹی شپنگ میزائل پر کام شروع کر دیا جو بعد میں ایگزوسیٹ Exocet کہلایا۔ اس کے فوری بعد انہوں نے دنیا بھر کی کئی بحری و بری طاقتوں کو ایگزوسیٹ میزائل فروخت کیے۔
برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان فاک لینڈ جنگ کے دوران رائل نیوی پر یہ تین میزائل داغے گئے۔ یہ احساس کہ تیسری دنیا کا ایک ملک برطانوی فوج کو محض ایک میزائل سے پسپا کر سکتا ہے ایسا سبق تھا جس نے پوری برطانوی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ رائل نیوی یہ ہتھیار پہلے خرید چکی تھی اور ان کے افسران بالا کو اس کی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
ایگزوسیٹ کے سامنے برطانوی یوں بھی اس قدر بے بس تھے کہ اس کی آمد کی پیشگی اطلاع کا نظام انتہائی کمزور تھا۔ کسی انفرادی بحری جہاز پر نصب ریڈار سمندر کے باہر تقریباً محض 20 میل (32 کلومیٹر) دور تک دیکھ سکتا ہے۔ اگر دشمن کا ہوائی جہاز یا میزائل زیادہ اونچی سطح سے آئے تو زیادہ فاصلے اور کافی پہلے ریڈار پر نظر آئے گا۔ اسی طرح اگر دفاعی قوت نے بلند سطح پر محو پرواز جہاز پر ریڈار نصب کیا ہے تو بیڑے کو ہدف بنانے سے بہت پہلے اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
امریکی بحریہ کے کیریئر گروپوں کی حفاظت کرنے والا جدید امریکی AWACS سمندر سے باہر 300 کلومیٹر دور تک دیکھ کر سوپر سونک جنگجوؤں کو مطلع کر سکتا ہے کہ وہ آنے والے دشمن کو قریب پہنچنے سے پہلے ہی روک لیں۔ ایئر بورن ریڈار کی کمی اور ٹاسک فورس کی حفاظت کرنے والے نسبتاً کم تعداد میں موجود سب سونک برطانوی جیٹ طیاروں نے ارجنٹائن کو بغیر کسی مزاحمت کے وہاں پہنچنے اور میزائل داغنے کا موقع فراہم کر دیا۔
ایسی صورت حال میں دشمن بحری بیڑے کے اوپر نسبتاً فضا کی بلند سطح پہ محو پرواز رہتا ہے اور اپنے ریڈار کی مدد سے ممکنہ ہدف کا تعین کرتا ہے۔ یاد رہے کہ سمندر میں بحری جہاز عظیم الجثہ سست رو ہدف ہے جس کے لیے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس حملہ آور ہوائی جہاز چھوٹا اور تیز رفتار ہونے کی وجہ سے غیر متوقع انداز میں اپنی سمت انتہائی پھرتی سے بدل سکتا ہے۔ یہ اپنی اڑان کی سطح تبدیل کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اپنا ہدف دیکھتے ہی سطح سمندر کے برابر آ سکتا ہے اور اس دوران یہ اپنے سامنے والے بحری جہاز کے پیچھے زمین کے گھماؤ میں خود کو چھپا سکتا ہے۔
اس کے بعد ایگزوسیٹ میزائل کو اندھا دھند چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں وہ ہدایت کے مطابق اپنے ساتھ موجود متحرک ریڈار کی مدد سے ہدف کی سمت بڑھتا ہے۔ حملہ آور طیارہ واپس اپنے اڈے کی سمت پلٹ آتا ہے جبکہ ایگزوسیٹ تقریباً دو میٹر کی بلند سطح پر اپنے ہدف کی سمت آگے بڑھتا ہے۔ ایک یا دو منٹ میں ہی یہ اپنے ریڈار سے دشمن کا بحری جہاز معلوم کر لیتا ہے اور نہایت درستگی کے ساتھ اسے نشانہ بناتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اور 35 سالہ ترقی کے دوران انسان نے دریافت کر لیا کہ کس طرح ایسا کامی کازی جہاز بنایا جائے جو بغیر پروں کے ہو اور اس میں انسان کے بجائے کمپیوٹر کی چپ لگی ہو جو اپنے ممکنہ ہدف کا تعین خود کرے۔
ان حالات میں انگریز جو چند دفاعی ہتھکنڈے استعمال کر سکتے تھے ان میں سے ایک جہاز کو میزائل کے راستے سے ہٹانا تھا۔ کیونکہ تمام بحری جہاز بنیادی طور پر لمبوترے ہوتے ہیں سو ایک جہاز جو آنے والے میزائل کے راستے کے مطابق رخ کر کے چلتا ہے اس کے نشانہ بننے کے امکانات عمودی سمت میں رہنے والے کی نسبت کم ہوتے ہیں۔ اس وقت کی ٹیکنالوجی کے مطابق ’بھوسہ‘ Chaff کا بھی ایک استعمال تھا، جو بنیادی طور پر ٹِن فوائل کی باریک پٹیاں ہوتیں اور انہیں جہاز کے دونوں سمت رنگین کاغذی ٹکڑوں کی طرح اچھالا جاتا تاکہ وہ ریڈار کی لہروں کو منعکس کرتے ہوئے میزائل کے ذہن میں اضافی اہداف پیدا کر دیں۔
بعض اوقات یہ کامیاب رہتا بعض اوقات نہیں جیسا کہ ایچ ایم ایس گلیمورگن کا عملہ اس ناگوار تجربے سے گزرا۔ وہ فاک لینڈز کی جنگ کے اختتامی مراحل میں ارجنٹائن کا نشانہ بن گئے تھے۔ ان کے معاملے میں زمین سے لانچ ہونے والا ایگزوسیٹ جہاز کے پچھلے حصے سے ٹکرایا جس سے جہاز میں موجود ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا اور اس عمل میں دوسرا دھماکہ ہوا۔ گلیمورگن واحد برطانوی بحری جہاز تھا جو ایگزوسیٹ حملے سے بچ گیا تھا، اگرچہ رائل نیوی کے 47 ملاح موت کے گھاٹ اتر گئے۔ آگ بجھانے کے لیے انگریزوں کو اس قدر سمندری پانی استعمال کرنا پڑا کہ گلیمورگن اس کے وزن سے ڈوبتے ڈوبتے بمشکل بچا۔ کچھ ہفتوں بعد جہاز واپس بندرگاہ پر پہنچا جہاں اس کا بھرپور طریقے سے استقبال کیا گیا۔
بہرحال ایگزوسیٹ نے ایک بار پھر اپنے نفیس مخالف کو ناک آؤٹ شکست دینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کی دھڑا دھڑ فروخت ہونے لگی اور چند سال بعد خلیج عرب میں امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس سٹارک ہوا سے چلنے والی ایگزوسیٹ کا نشانہ بن گیا۔ جس طرح اسی معیار کے رائل نیوی کے بحری جہازوں کے ساتھ ہوا وہی سٹارک کے ساتھ ہوا اور وہ عملی طور پر جل گیا۔ اس بار امریکیوں نے اسے ایک ریڈار اور کمپیوٹر کنٹرول گن سے لیس کیا تھا جو ان کے خیال کے مطابق میزائل پر آخری چند سیکنڈوں کے دوران حیران کن تعداد میں گولیاں چلانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس موقع پر اور غیر واضح وجوہات کی بنا پر بندوق کا نظام بند ہو کر رہ گیا تھا۔
ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ 1980 کی دہائی میں ایگزوسیٹ میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اس وقت کے لحاظ سے جدید ترین تھی جس تک رسائی مٹھی بھر ترقی یافتہ ترین ممالک کو ہی حاصل تھی۔ آج آپ اس کی نسبت کہیں بہتر اجزا آر ایس کیٹلاگ سے خرید سکتے ہیں اور کچھ ممالک نے یہ کیا بھی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آبی جنگوں کے لیے تیار کیا گیا کوئی بحری جہاز مستقبل میں کتنی دیر زندہ رہ سکے گا۔ یہاں تک کہ جوابی اقدامات کے نتیجے میں جب ایگزوسیٹ جیسے حملہ آور میزائل مار گرانے کی 80 فیصد صلاحیت تھی اس وقت بھی ایک ایسا دشمن جس کے پاس ایسے میزائل بڑی تعداد میں تھے وہ خوفناک حد تک بحری بیڑوں کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا (فاک لینڈ جنگ کے آغاز میں ارجنٹائن کے پاس فضا میں لانچ کیے جانے والے چھ ایگزوسیٹ میزائل تھے)۔
لیکن ملٹری ٹیکنالوجی کبھی بھی مستحکم نہیں ہوتی اور کئی ممالک اب بحری جہاز شکن میزائلوں کی اگلی نسل تیار کر رہے ہیں جو زمین، سمندر یا ہوا، کسی بھی جگہ سے چھوڑے جا سکتے ہیں۔
اس شعبے میں تسلیم شدہ رہنما چین ہے۔ روس کے صدر پوتن نے بھی بارہا دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مسلح افواج کے پاس اب ایسے ہائپر سونک میزائل ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں امریکی یا برطانوی طیارہ بردار بحری بیڑے کو تباہ کر سکتے ہیں۔
بیشتر ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ہائپر سونک میزائل وہ ہے جس کی اڑان ماک پانچ Mach سے زیادہ تیز رفتار ہے (ایک ماک آواز کی رفتار یعنی 1225 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے)۔ یاد رہے کہ مدار کی رفتار 25 ماک کے قریب ہے اگرچہ ماک نمبرز میزائل کی رفتار ماپنے کا بہترین ذریعہ نہیں ہیں کیونکہ آواز ایک مؤثر انجینئرنگ پیرامیٹر ہے جو اونچائی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ دراصل بلندی کی نسبت سمندر کی سطح پر آواز زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے۔
یاد رہے کہ کامی کازی پائلٹ کی رفتار 200 سے 400 میل (320 سے 640 کلومیٹر) فی گھنٹہ تھی۔ اب بغیر انسان والے اسی طرح کے نظام کا تصور کرنے کی کوشش کیجے جس کی رفتار پانچ ضرب 700 میل (1126 کلومیٹر) فی گھنٹہ ہے (یعنی 5632 کلومیٹر فی گھنٹہ)۔ ہائپر سونک میزائل کے حملے میں ہدف بننے والے عملے کے پاس جوابی قدم اٹھانے کے لیے تقریباً سرے سے وقت ہو گا ہی نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی طرح دفاعی قوتوں کو حملے کے امکان سے خبردار رہنے اور اپنے دفاعی نظام کو ہر دم تیار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اتنے مختصر ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے پاس کوئی حقیقت پسندانہ موقع ہو۔ حتی کہ حتمی رسائی کے چند آخری سیکنڈوں میں بھی حملہ آور میزائل پر ضرب موثر ہونے کا امکان نا ہونے کے برابر ہے کیونکہ ایسا ہو بھی جائے تو اس کا ملبہ آگے گرتا رہے گا اور ہدف والے بحری جہاز میں داخل ہوتا رہے گا۔
ہائپر سونک تیار میزائل کرنے کے لیے درکار ٹیکنالوجی کسی طرح بھی معمولی نہیں۔ حال ہی میں برطانوی حکومت نے ایک حریف ہائپر سونک سسٹم تیار کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے حالانکہ ہمارے بڑے حریفوں کے مقابلے میں برطانیہ کا بجٹ بہت کم ہو گا۔ دوسری جانب امریکہ نے زمین کے دائرے میں ہی رہنے والی بطور جائزہ چند ہائپر سونک پروازیں اڑائی ہیں جن میں سے کچھ اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر آسٹریلیا میں اڑائی ہیں۔ ان کے حریف چین کی اڑائی گئی ایسی پروازوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی اب اس میدان میں آگے ہیں۔ جنوبی کوریا والے بھی کسی سے پیچھے نہیں جو اپنے مقامی پائپر سونک تیار کر رہے ہیں۔
یہ اعلان انڈو پیسیفک خطے کے لیے اچانک سکھ کا جھونکا ثابت ہوا کہ برطانیہ اور امریکہ دونوں آسٹریلیا کے ساتھ مل کر آسٹریلین بحریہ کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں بنانے کے لیے اشتراک کرنے والے ہیں۔ مستقبل کی کسی سمندری جنگ میں آسٹریلیا کی طرف چین کی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس طرح کا نظام آسٹریلوی بحریہ کی صلاحیتیں ڈرامائی طور پر بڑھا دے گا۔
اگرچہ چینی متوقع طور پر مشتعل ہیں کیونکہ یہ رجحان پہلے ہی اپنے قدم مضبوطی سے جما چکا ہے جہاں ویت نام نے مستقل میں چین کے جنگی بیڑوں کی اپنے پانیوں میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے نمٹنے کے لیے کئی جدید ترین ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں خرید لی ہوئی ہیں۔ اگرچہ آبادی کے اعتبار سے چینی کی عددی برتری مسلمہ ہے لیکن خطے میں چند چھوٹی اور درمیانے درجے کی ایسی علاقائی طاقتیں موجود ہیں جو مستقل کی کسی عملی جنگ میں اس کی بالادستی کو متوقع طور پر چیلنج کر سکتی ہیں۔ ان میں تائیوان، جاپان، جنوبی کوریا اور تیزی سے ابھرنے والا کھلاڑی ویت نام شامل ہیں۔
یہ بات ایک طرف لیکن تائیوان اس وقت تک چینی حملے کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے گا جب تک اسے خاطر خواہ امریکی معاونت حاصل نہ ہو۔ اس قسم کی امداد امریکیوں کی اپنا بحری بیڑہ خطرے میں ڈالنے کی رضامندی کے مشکل فیصلے سے مشروط ہو گی۔
اس بات سے بخوبی آگاہ بیجنگ پہلے ہی اپنی ساحلی پٹی پر ابتدائی ہائپر سونک میزائل متعارف کروا چکا ہے جن میں سے سے بعض کی مار کافی طویل فاصلے تک کی ہے۔ جواب میں امریکی بحریہ نے بھی اپنے بحری جہازوں کو نئے انداز میں تعینات کیا اور اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ماضی کے کسی بھی بھرپور تنازع کی نسبت اب سمندر سے حملہ کرنا زیادہ ضروری ہو گا۔
ہائپر سونک فلائیٹ آسان نہیں ہے خاص طور پر اگر آپ اس کی مدد سے ہدف کو کامیاب نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو کہ سمندر کی سطح پر بذات خود ایک مشکل کام ہے۔ میزائل کو درپیش فضائی مزاحمت اس کی رفتار کے مربع کے مطابق بڑھ جائے گی۔ سو اگر ہمارے پاس ایک ایسا میزائل ہے جو فی گھنٹہ 100 میل (160 کلومیٹر) کی رفتار سے سطح سمندر پر سفر کرتا ہے تو یہ اچھی خاصی فضائی مزاحمت کا تجربہ کرے گا اور اپنی رفتار برقرار رکھنے کے لیے اسے مسلسل آگے دھکا دینے والی راکٹ موٹر درکار رہے گی۔ تاہم اگر میزائل ڈیزائنرز اس کی رفتار دس گنا بڑھا کر 1000 (1600 کلومیٹر) میل فی گھنٹہ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے ہوا کی مزاحمت میں بھی 100 گنا اضافہ ہو جائے گا۔ اس قسم کی حکمت عملی کی وجہ سے بہت زیادہ رگڑ کے سبب میزائل کی سطح انتہائی گرم ہو جائے گی۔ مچ 5 سے آگے، ہوا بازی کے لیے استعمال ہونے والا زیادہ تر مواد پہلے ہی پگھل رہا ہو گا۔
انجینیئرز جو مستقبل میں سکریم scram سے چلنے والے ہائپر سونک جیٹ میزائلوں کے تجربات کر رہے ہیں وہ عام طور پر بہت بلند سطح پر ہوتے ہیں جہاں ہوا نہایت کمزور اور تیز رفتاری برقرار رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مچ 25 پر زمین کے گرد گردش کرنے والی ایک سیٹلائیٹ کے لیے ویسے بھی ایسا ماحول نہیں جو اثر انداز ہو سکے کیونکہ یہ پہلے ہی بیرونی خلا میں ہے اس لیے اسے کسی قسم کی رکاوٹ درپیش نہیں۔
جبکہ اس کے برعکس اینٹی شپنگ میزائل کو بالخصوص پھٹنے سے چند سیکنڈ پہلے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتمی نشانے سے پہلے اس کا غیر متوقع اور شدید تیز رفتار ہوا سے سامنا ہو سکتا ہے جو اس کا نشانہ درست جگہ پر لگنے کو متاثر کر سکتا ہے۔ زیادہ مثبت انداز میں اس قسم کی فلائیٹ سے منسلک تیز رفتاری میزائل کے سامنے آئنائزڈ ہوا (ionised air) کا تکیہ بناتی ہے جس سے ریڈار کے لیے اس کی شکل دھندا جاتی ہے اور جہاز کے عملے کے لیے یہ دیکھنا مزید مشکل ہو جاتا ہے کہ میزائل آ رہا ہے۔ ایروڈائنیمکس کا ہوشیاری سے استعمال ہائپر سونک میزائل کو اپنے ہدف تک حتمی رسائی سے پہلے راستہ بدلنے کے قابل بناتا ہے جس سے دشمن کی بحریہ کنفیوژن کا شکار ہو جاتی ہے۔
اگرچہ امریکی طیارہ بردار جہاز جیسے بڑے بیڑے کو ڈبونے کے لیے کئی بار نشانہ بنانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن یاد رہے کہ اسے ایک بار ضرب لگا کر موثر طریقے سے غیر فعال کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت ایسا ہو گا جب ہدف پر ثانوی دھماکوں کے دوران بڑی آگ بھڑک اٹھے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتامی مراحل کے دوران یو ایس ایس پرنسٹن کو جاپانی پائلٹ نے ایک لوہے کے بم سے سے تباہ کیا جو ہر حال میں اپنے منصوبے کی تکمیل چاہتا تھا۔ جہاز میں آگ لگ گئی، 800 امریکی ملاح ہلاک ہوئے اور پرنسٹن ڈوب گیا۔
ابھی تک ہائپر سونک ہتھیاروں کے نظام کے بنیادی طور پر دو طریقے ہیں۔ ان میں سے کچھ بلاسٹک میزائلوں کی طرح عمودی سمت میں چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ کرہ ہوائی سے اوپر چلے جاتے ہیں اور اپنے اہداف کے نسبتاً قریب دوبارہ کرہ فضائی میں داخل ہوتے ہیں اور فضا کے اندر ہی اپنے اہداف کی سمت بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ ہوا کی مزاحمت میزائل کی رفتار کم کرتی ہے لیکن محض میزائل کی غوطہ خوری اس کی رفتار برقرار رکھتی بلکہ یہاں تک کہ اس میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اس مرحلے پر ایک سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ حملہ آور فورس کس طرح یقین کر سکتی ہے کہ ان کے سامنے ایک مناسب ہدف ہو گا کیونکہ امکان یہی ہے کہ جہاں سے یہ میزائل داغا جا رہا ہے وہ ہدف سے ہزاروں میل دور ہو گا۔
اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ اب جوتوں کے ڈبوں جتنے جاسوسی کے مصنوعی سیٹلائٹ تیار کیا جا چکے اور کئی لاکھ پاؤنڈ میں خریدے جا سکتے ہیں جو آپ کو دنیا میں کسی بھی جگہ پر موجود سمندری جنگجو جہازوں کا صحیح مقام بتا دیں گے۔ کوئی ایسی چیز نہیں جو بحری جہاز کو سمندر میں اور جاسوسی کے جدید سیٹلائٹ کے سامنے چھپنے سے بچا سکے یہاں تک کہ سمندر کی وسعت بھی نہیں۔
پائپر سونک میزائل کا دوسرا تصور جیٹ انجن یا ممکنہ طور پر نام نہاد رام یا سکریم جیٹ انجن کے گرد گھومتا ہے جو صرف ابتدائی راکٹ کے دھکے والے مرحلے میں نہیں بلکہ پرواز کے حتمی لمحات کے دوران فعال حرکت حاصل کر لیتا ہے۔
دونوں نظام اچھے خاصے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں بالخصوص جب وہ سہی نشانے پر جا لگیں۔ یہ بات واضح ہے کہ انہیں تباہ کن بارود اپنے ساتھ رکھنا پڑے گا کیونکہ کسی بھی معروف بیڑے کو توڑنے کے لیے متحرک توانائی کی اچھی خاصی مقدار درکار ہو گی۔ یاد رہے ایچ ایم ایس شیفیلڈ ایگزوسیٹ میزائل ٹکرانے سے اسی وقت نہیں پھٹ گیا۔ موٹر میں غیر خرچ شدہ راکٹ ایندھن جہاز کے اندر بہتا رہا جس سے آگ مسلسل جلتی رہی اور عملہ اسے بجھا نہ سکا۔
فاک لینڈ جنگ کے دوران انگریزوں نے جدید فضائی اور بحری جنگ کے بارے میں بہت سے تلخ سبق سیکھے۔ انہیں درپیش مسائل میں سے ایک یہ تھا کہ کئی دہائیوں سے کسی نے بھی اس طرح کی جنگ نہیں لڑی تھی اور تب تک یہ واضح نہیں تھا کہ ہتھیاروں کے مختلف نظام کتنے مہلک ثابت ہوں گے۔ اس واقعے کے دوران کئی برطانوی اینٹی ایئر کرافٹ میزائل بری طرح غیر موثر ثابت ہوئے اور دستی طیارہ شکن مشین گنوں نے آخری دفاعی لائن کے طور پر کام کیا۔
اس طرح کی اصلاحات روس یا چین جیسے ممالک کی ابھرتی ہوئی میزائل صلاحیتوں کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔ چین اب اپنی بحری اور فضائی صلاحیت کو بتدریج انڈو پیسیفک خطے میں پھیلا رہا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ اس سے باز آئے گا۔ اس وقت یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ اس خطے میں مستقل کے دوران کسی تنازعے کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن کہ فاک لینڈ جنگ کی طرح ممکن ہے اس کے مرکزی کرداروں کو کئی ناگوار حیرتوں سے دوچار ہونا پڑے۔ بحری برتری کے بغیر چین کی تائیوان کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش خطرناک ہو گی اور یہ واضح نہیں کہ طاقتور قوتیں جو چینی تسلط کا مقابلہ کرنا چاہیں گی ان کے خلاف اس کے جنگجو بحری بیڑے کس قدر کمزور ثابت ہوں گے۔
دراصل جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک نئے نصف کرہ ارض میں نئی سرد جنگ کا آغاز ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس طرح کی کشیدگی کس طرح ختم ہو سکتی ہے۔ بہت زیادہ دفاعی اخراجات ان چند عوامل میں سے ایک ہیں جو آئندہ چند دہائیوں میں چینی کی اقتصادی ترقی کو روک سکتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ بیجنگ اپنی خارجہ پالیسی کے تمام مقاصد محض نرم طاقت سے حاصل کر لے۔
امریکیوں کے لیے چینی ہائپر سونک میزائلوں کو ہوا میں اڑنے سے پہلے زمین پر ہی مار گرانے کی صلاحیت بہت اہم ہو گی۔ زمین کے مدار کے لیے مصنوعی جاسوسی سیٹلائیٹس تیار کیا جا چکے ہیں تاکہ وہ روایتی بیلسٹک میزائل کے سرخ سگنلز کے ذریعے امریکیوں کو اہم اطلاع دے سکیں۔ اصولی طور پر اس سے وہ اپنے میزائل لانچ کرنے کے قابل ہو سکیں گے جو اس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ آنے والے جارحانہ نظام کو دوران پرواز ہی مار کر گرا دیں۔
فاک لینڈ جنگ کی طرح ان میزائلوں کا کبھی جنگی صورت حال میں تجربہ نہیں کیا گیا اور ہم مکمل طور پر غیر یقینی حالت میں ہیں کہ دوران جنگ وہ کتنے موثر ثابت ہوں گے۔ تاہم ہائپر سونک میزائل اتنے چھوٹے ہیں کہ جاسوسی نظام کے سینسرز یا ریڈار کی گرفت میں ان کا آنا بہت مشکل ہے اور انہیں ایسے بنایا گیا ہے کہ وہ زمینی مدار کے اندر خود کو بدلنے کی حیران کن صلاحیت رکھتے ہیں جس وجہ سے ان کے راستے اور ہدف کا تعین کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
فرض کیجیے ہائپر سونک میزائل اگر امریکہ یا کسی دیگر دوست ملک کے بحری جہاز پر داغے گئے تو وہ اپنا دفاع کیسے کریں گے؟ لیزر کی طرح کے ایسے ہتھیار تیار کیے جا رہے ہیں جو ہدایت کے مطابق اپنی قوت کے بل پر آنے والے میزائل کو ہدف سے ٹکرانے سے پہلے حتمی لمحات میں مار گرائیں گے حالانکہ اس طرح کی کارروائی کے لیے میسر وقت بہت ہی کم ہو گا۔ ایسی صورت حال میں جہاں دوران جنگ مردوں اور عورتوں کی زندگیاں قربان کرنا ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے وہاں یہ کام انسان کے بغیر والے کروز میزائل سے لیا جائے گا جنہیں امریکی بحریہ اپنے بیڑے مشکلات میں گھرنے سے پہلے ہی اچھے خاصے فاصلے سے چھوڑ دے گی۔
اس بات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ شمالی کوریا کی حکومت نے ہائپر سونک ہتھیاروں کا ایک نیا نظام تیار کیا ہے جس نے مغربی خفیہ ایجنسیوں کو ناگوار حیرت سے دوچار کر دیا ہے۔ Hwasong-8 بالکل اسی قسم کے بحری جہاز شکن میزائل کا نمونہ معلوم ہوتا ہے جسے روکنا تقریباً ناممکن ہے، جس کا امریکیوں کو کافی عرصے سے خدشہ تھا۔ ہم میں سے وہ لوگ جنہیں بیسویں صدی کے سرد جنگ کے پریشان کن لمحات یاد ہیں انہیں یہ سب بہت مانوس لگتا ہو گا۔ امریکیوں کے لیے اینٹی میزائل جوابی اقدامات اور اپنی ہائپر سونک ٹیکنالوجی میں از سر نو سرمایہ کاری ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔
© The Independent