ایسا نہیں کہ مجھے برطانیہ کے شہر ’سلو‘ (Slough) سے کوئی مسئلہ ہے لیکن میں جان چکا ہوں کہ انگریز شاعر جان بیٹیامن نے کیوں لکھا ’آو پیارے بمو، آؤ اور ’سلو‘ کو نیست و نابود کر دو۔‘
خیال رہے کہ اس نظم میں سلو سے مراد واقعی (جنگ سے پہلے کے زمانے کا) سلو ہے لیکن یہ ہر اس چیز کی علامت بھی ہے جو بیٹیامن کو پسند نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ انسانوں کے لیے اب قابل برداشت نہیں۔‘ میری نظر میں تمام تعمیراتی اور دیگر آفات سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو تو کسی سیارچے کا پورے کرہ ارض کو ملیامیٹ کر دینا بہترین حل ہے یا پھر کوئی ڈیتھ سٹار یہ کام کر دے۔
’اگر ایسا ہو تو یہ ایک ہی جھٹکے میں کوڑا کرکٹ کا مسئلہ بھی حل کر دے گا حالانکہ میرا خیال ہے اس کے بعد زمینی کوڑا کرکٹ کی ایک بہت بھاری مقدار ستاروں کے درمیان واقع خلا میں سے گزر رہی ہو گی۔ ہماری آخری انتہائی موزوں وراثت کے طور پر کے ایف سی کے کارٹون اور کوک کی بوتلیں خلا میں ہر جانب بکھری ہوں گی۔ غالباً ہم وہاں کسی خلائی جہاز میں بیٹھ سکیں گے جسے نئی بہشت کی سمت اڑان بھرنی ہوگی لیکن آئیے اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہم اسے بھی خراب کر کے ہی چھوڑیں گے۔‘
بہتر ہوگا یہاں کی باگ ڈور گوشت خور خیالی پودے ٹریفڈز یا کاکروچوں کے ہاتھ میں تھما دی جائے۔ ممکن ہے ڈائناسار جب واپس آئیں تو انہیں ایک نئی جوراسک دنیا دیکھنے کو ملے۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ کسی مہربان اجنبی مخلوق کی جانب سے ہمیں اپنی اڑن طشتریوں میں اڑا لے جانے کی طرح فوری طور پر مکمل ملیامیٹ ہونے کا منظر بھی جلد روبہ عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ مہربان شہابِ ثاقب ہر بار درست نشانے سے کئی لاکھ میل کے فاصلے سے چوک جاتے ہیں۔ فوری قیامت (Apocalypse Now) سے زیادہ اس ’ایک سست رو طویل مسلسل زوال‘ کا امکان ہے، جیسا کہ ایک بار کسی نے مجھ سے مردانہ مینوپاز کے سلسلے میں بیان کیا تھا، جس کے بیچ بیچ کہیں کہیں شدید تباہ کاریوں کے جھٹکے بھی شامل ہوں۔ اس سے تباہی کے دو مخصوص میکانزم سامنے آتے ہیں، اپنے ہاتھوں بربادی یا کسی سازش کے نتیجے میں یا پھر دونوں کے باہمی اشتراک سے۔
وجہ کوئی بھی ہو معدومیت کے بارے میں یہ ہماری فکرمندی کم نہیں کر سکتی بلکہ یہاں تک کہ اس پر مجبور کرتی ہے۔ وہ لڑکا جو آکسفورڈ سٹریٹ کے پاس قیامت قریب ہے کا پلے کارڈ لے کر پھرتا تھا کیا وہ اس پیشین گوئی کی بنیاد پر اپنا گھر کسی دوسرے کے حوالے کرنے پر تیار ہو گا (یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس کے پاس گھر ہے)؟
دنیا کے خاتمے پر شرط لگانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنا انعام وصول کرنے کے لیے موجود ہی نہیں ہوں گے۔ یہ کہنے کے باوجود میں تصور کر سکتا ہوں کہ جیسے ہی روشنیاں گل ہوں گی یہ بڑبڑاتے ہوئے ایک سنگین طمانیت کی لہر دوڑ جائے گی کہ ’میں نے تم سے یہی کہا تھا‘ اور ممکن ہے یہ سن کر تمام نافرمان رجائیت پسند پلٹ کر تسلیم کریں کہ ’جی ہاں، بظاہر آپ بالکل درست تھے۔‘
آن لائن جوا کھیلنے کی ویب سائٹ ’ولیم ہل‘ فی الحال وہ دنیا کے خاتمے پر سٹہ کھیلنے کی خدمات مہیا نہیں کر رہے۔ شاید اس لیے کہ ان کے خیال میں دنیا کا خاتمہ طے ہے۔ لیکن جوے کی ایک اور ویب سائٹ پیڈی پاور ظہورِ قیامت پر سٹہ لگانے کی خدمات یقیناً فراہم کرتی رہی ہے۔
ان سیاہ دنوں میں غالباً یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اب اس پر اتنا بڑا جوا نہیں لگتا۔ یہاں فلم ’پلینٹ آف دی ایپس‘ کی طرز پر بندروں کی بغاوت پر ایک کے مقابلے میں 4600 کا داؤ لگا ہوا ہے، جب کہ لیسٹر سٹی کے پریمیئر شپ ٹائٹل جیتنے کے امکان پر پانچ ہزار کے مقابلے پر ایک (2016 میں وہ جیت گئے تھے)۔ جب کہ زومبی کی جانب سے زمین پر قبضے کا سٹہ ایک ہزار کے مقابلے پر ایک ہے۔ اس سے ذرا ہی نیچے خلائی مخلوق کا حملہ ہے۔ میرا خیال ہے ہالی وڈ کو بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہیں۔
لیکن تاریک حقیقت یہی ہے کہ سست رو (یا اتنے بھی سست رو نہیں) زوال کے آثار بالکل واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے سلو شہر بیٹیامن کے لیے حالیہ معاشرے کی علامت بنا، اسی طرح میں جزیروں کی ممکنہ صورت حال کو بطور مثال سمجھتا ہوں۔ چونکہ میں لندن کے ایسٹ اینڈ علاقے میں پیدا ہوا تھا اس لیے میرا خیال تھا کہ جنوبی بحرالکاہل جنت کا ایک خوشگوار ٹکڑا ہے۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ آہستہ آہستہ وانواتو جزیرہ بچوں کی ناقابلِ تحلیل (non-biodegradable) نیپیوں کی اوٹ میں غائب ہو رہا ہے (اب ان پر پابندی کا قانون منظور ہو چکا ہے)۔ تباہی کا کیا راستہ ہے!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہوائی (بالکل صحیح معنوں میں جو جنوبی بحرالکاہل سے زیادہ شمال کی سمت میں ہے) بھی بدبختی کی زد میں ہے۔ میں نے ہمیشہ سوچا کہ یہ کبھی ایک بڑے سونامی میں غرق ہو جائے گا اور یہ کہ کچھ انتہائی ماہر سرفر فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے یا انٹارکٹیکا میں تھویٹس گلیشیئر کے سمندر میں گر جانے سے اگر کوئی بہت بڑی سمندری لہر نہ بھی اٹھی تو کم از کم سطح سمندر اتنی بلند ضرور ہو جائے گی کہ ہوائی کے شہر ہونولولو اور دیگر ساحلی شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے۔ بہرحال موناکیا پہاڑ پر واقع فلکیاتی رصد گاہیں بچ جائیں گی۔
لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا توقع لگا کر بیٹھے ہیں کیونکہ ہمیشہ کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے امریکی بحریہ دراصل اپنے ہی لوگوں کو تارپیڈو کے ذریعے غرقاب کر رہی ہے۔ استعاراتی طور پر۔ حقیقت میں وہ کیا کر رہے ہیں شاید کہیں زیادہ بدتر ہو۔
منصوبہ بندی کے ضوابط کے برعکس اور عقل و شائستگی سے مکمل صرف نظر کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی زہریلے اور آتش گیر مائع سے بھرے اپنے زیر زمین ایندھن رکھنے کے سو ملین گیلن والے ٹینک عین آب اندوخت والی جگہ پر رکھے ہیں جو اوہو کے جزائر کے شمالی سرے پر پرل ہاربر سے ڈائمنڈ ہیڈ اور اس سے آگے تک تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کو پانی مہیا کرتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہاں پانی رس رہا ہے اور اب فوسل ایندھن ہوائی کے نلوں سے بہہ رہا ہے۔ قریبی فوجی اڈے نے پہلے ہی نل کا ’پانی‘ استعمال کرنا ترک کر رکھا ہے۔ ایک مرکزی شاپنگ سنٹر بند ہو چکا ہے۔ بحریہ سے وابستہ افراد کے اہل خانہ کو کسی اور مقام پر ہوٹل کے کمروں کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر انخلا کا خطرہ ہے اور جزیرے کے شمالی سرے کے رہائشی جو رساؤ سے متاثر نہیں ہوئے وہ جنوب سے بھاگ کر آنے والی اتنی بڑی تعداد کے حوالے سے پہلے ہی فکرمند ہو رہے ہیں۔ ہوائی ایک خطرے کی گھنٹی ہے، جو کچھ یہاں ہوا وہ کسی نہ کسی طرح باقی سب کو بھی متاثر کرے گا۔
لہٰذا ایک ہی سوال باقی رہ گیا ہے کہ خود اپنے ہاتھوں تباہی یا سازش؟ میں جانتا ہوں کہ 2019 کے نیشنل سکیورٹی رسک اسسمنٹ کی فہرست میں مجموعی طور 130 مختلف ’خطرات‘ (بدنیتی پر مبنی یا کسی بھی حوالے سے) درج ہیں۔ اپنے راستے میں آنے والے احمق انسانوں کو ملیہ میٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی جدید عہد کی فرینکنسٹائن، انتہائی ذہین مصنوعی ذہانت کے امکان کے حوالے سے کافی حد تک شانت ہوں۔ میں یہ سوچنا پسند کرتا ہوں کہ 10 لاکھ کے آئی کیو والا مستقبل کا بدمعاش کمپیوٹر ہم جیسے نالائقوں کی قسمت کا تعین کرنے کی بجائے اپنے آپ سے شطرنج یا چینی کھیل ’گو‘ کھیلنے یا متوازی کائناتوں کی کھوج میں زیادہ مشغول ہو گا۔ کیا ہمیں فکر ہوتی ہے کہ چیونٹیاں کیا کر رہی ہیں؟
جیوری ابھی تک کوویڈ 19 کے بارے میں متذبذب ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی۔ چمگادڑ یا ووہان لیب؟ کیا چمگادڑ کے پیتھوجین میں مخصوص furin cleavage site ہو سکتی ہے؟ اگر یہ وائرس لیبارٹری سے نکلا ہے تو ایسا لگتا ہے سالزبری نوویچک کے زہر کی طرح جان بوجھ کر نہیں بلکہ حادثاتی طور پر پھیلا ہے۔ لیکن کام کاج کی جگہوں پر ہمیشہ نکمے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے بے شمار اثرات پر غور کیجیے، جنگلات کی کٹائی، صحراؤں کا خاتمہ، آگ، خشک سالی، سیلاب۔
ان سب کو ملا کر دیکھا جائے تو تہذیبی سفر کے تسلسل کو خطرے میں ڈالنے کے لیے یہ کافی ہے۔ کچھ بچ جائیں گے زیادہ تر نہیں اور بچ جانے والے بھی اس بچاؤ پر غالباً بہت خوش نہیں ہوں گے۔ لیکن اپنی خود ساختہ تباہی اور گایا مخالف انسان مرکز سرگرمیوں کے ساتھ ہمیں ان مخلص آتش گیروں اور آگ لگانے والے پاگلوں (ستم ظریفی دیکھیے کہ جس میں آگ بجھانے والوں کی معمولی تعداد بھی شامل تھی) کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے جان بوجھ کر اس صورت حال کو مزید خراب کیا۔
مارٹن ریس کہتے ہیں، ’یہ ہے وہ چیز جس کے متعلق ہمیں فکرمند ہونا چاہیے۔ پریشان کن افراد جنہیں روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘ ان کا پورا لقب لارڈ ریس آف لڈلو ہے اور وہ برطانوی شعبہ فلکیات کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ہاؤس آف لارڈز کی حالیہ رپورٹ ’انتہائی خطرات کی تیاری: مسائل کا سامنا کر سکنے والے معاشرے کا قیام‘ کے مصنفین میں سے ایک ہیں۔
ان کی انتہائی عمدہ کتاب چھپ چکی ہے، ’مستقل کے بارے میں: انسانیت کی کامیابی کے امکانات۔‘ سو انہوں نے واقعی اس پر غور کیا ہے کہ دنیا کس طرح ختم ہونے والی ہے۔ وہ زومبی کے انسان کی جگہ زمین کا اختیار سنبھال لینے پر بہت جلد شرط نہیں لگائیں گے البتہ انہوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر مرکز برائے مطالعہ وجودی خطرات کی بنیاد رکھی ہے۔
میں نے کیمرج میں ان کے گھر کا چکر لگایا تاکہ انتہائی روشن دماغ ماہر کائنات سے دنیا کے خاتمے پر تبادلہ خیال کر سکوں۔ گذشتہ نصف صدی میں جس طرح ’وجود‘ کے الفاظ کا استعمال بدلا وہ مضحکہ خیز ہے۔ یہ موت اور لایعنیت کے ہر جگہ پھیلے عفریت کی وجہ سے انسان کی ذاتی اکتاہٹ کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اب یہ کرہ ارض کی مجموعی تقدیر کا مترادف بن چکا ہے۔ ہم نروس بریک ڈاؤن سے سماجی زوال کی جانب آ چکے ہیں۔
ریس نے کسی سیارچے کے ہم سے ٹکرانے یا ہمسایہ ستارے کی طرف سے گاما شعاع دھماکے سے ہمارے نیست و نابود ہونے کے امکانات کا حساب لگایا ہے۔ ہر ایک کروڑ سال یا کم و بیش اتنی ہی مدت کے قریب زمین قریبی تصادم کے خطرے سے گزرتی ہے۔ لیکن ریس پراعتماد ہیں کہ ہم اس سے بچ سکتے ہیں۔ اپنے ہمدم دیرینہ سٹیون ہاکنگ کے برعکس وہ انتہائی مالدار ایئر لائن اور آن لائن سپرمارکیٹ ایمازون کے ارب پتی مالک کے مخصوص عملے کے پرستار بھی نہیں جو کسی دوسرے سیارے پر پرواز کر رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ روش کرہ ارض کو سنوارنے کے حقیقی مقصد سے ہماری توجہ ہٹا کر کسی اور طرف لگا رہی ہے۔
میرا اپنا وجودی فلسفہ ایک فرانسیسی جملے کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ہے کہ ’ہر چیز بالآخر خرابی کا شکار ہو کر رہتی ہے۔‘ ریس اس بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ غلط وجوہات کی بنا پر چیزیں خرابی کا شکار ہوں۔ جس قدر باہمی طور پر ہم زیادہ جڑے ہیں اسی قدر ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھا ہے اور جب/ اگر انٹرنیٹ بند ہوتا ہے یا ہیک ہو جاتا ہے تو معاشرہ ٹوٹنے کا اتنا ہی زیادہ امکان ہے۔ جیسا کہ ناول نگار رابرٹ ہیرس نے انتہائی عمدگی سے اسے بیان کیا ہے: ’نفیس معاشرے بکھر جاتے ہیں۔ آپ کسی ایک کی بھی مثال پیش نہیں کر سکتے جسے کسی خوفناک بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور جزوی طور پر ایسا اس لیے ہوا کہ وہ بہت نفیس بن گئے۔‘
ریس خوفزدہ ہیں کہ ’تنہائی پسند مایوس‘ اپنے عقبی کمرے یا لیب میں کیا پتہ سائبر یا بائیو ٹیرر ازم کے لیے چھپا ہو، جسے ایچ جی ویلز نے ’انسانی دماغ میں تباہ کن پاگل پن‘ کہہ کر بیان کیا تھا۔ ’وائرس پھیلانا آسان ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح بڑے پیمانے پر خلل پیدا ہوتا ہے۔ یہ کویڈ کی نسبت زیادہ تیزی سے ایک دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے اور زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ اس قدر خوفناک ہو سکتا ہے کہ موجودہ وبائی مرض اس کے سامنے بالکل معمولی لگے۔‘
کچھ سال پہلے ریس نے زیادہ پرامید ذہن رکھنے والے ماہر نفسیات سٹیون پنکر کے ساتھ شرط لگائی کہ کیا 2020 تک بائیو ٹیررازم کا کوئی ایسا واقعہ پیش آئے گا جو کم از کم دس لاکھ افراد کو ہلاک کر دے؟
ریس اثبات میں جبکہ پنکر اس کا انکار کرتے ہیں اور یوں شرط لگتی ہے۔ پھیلتی ہوئی وبائی بیماری کی روشنی میں یہ شرط انہیں التوا میں ڈالنا پڑی کیونکہ ابھی تک ہم نہیں جانتے کہ یہ واقعی وہی چیز ہے یا حادثاتی واقعہ ہے یا خود بخود پھوٹ پڑی ہے۔ لیکن اگر یہ نیو سٹیٹس مین کے صفحات کے بجائے ولیم ہل نے بات کی ہوتی تو میرا خیال ہے میں ادائیگی کا مطالبہ کر رہا ہوتا۔ بائیو ایرر یا بائیو ٹیرر: یہ ایک عمدہ سطر ہے۔ ریس بتاتے ہیں کہ ’امریکہ اور برطانیہ میں محض 0.3 فیصد آبادی کرونا سے موت کا شکار ہوئی ہے۔ یہ تعداد ایک فیصد تک جا پہنچی تو ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہے گی۔‘
بہرحال جس طرح ہم موت کے دہانے پر کھڑے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں بس ایک دھکا درکار ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے برے لوگ اپنے معاصر کلچر سے تعاون کرتے ہوئے کم سے کم مزاحمتی رویہ اختیار کر رہے ہوں۔
اسی طرح ممکن ہے ریس مکمل طور پر جانتے بوجھتے ہوئے ایٹمی طرز کی عالمی جنگ سوم کو نسبتاً بہت دور (اگرچہ خارج ازامکان نہیں) پیش کرتے ہوں لیکن وہ تمام نیم پختہ عسکری ہارڈویئرز کے ’ہیک‘ ہونے کا ’زیادہ امکان‘ بتاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے ہٹ کر سماج کو تباہ کرنے والے طریقے بے شمار ہوتے جا رہے ہیں۔ ’غور کیجئے کہ وبائی مرض کے دوران کیا انٹرنیٹ کا استعمال کمی کا شکار ہوا۔‘
توانائی کا بنیادی امریکی ڈھانچہ آئے دن سائبر ناٹ (جو ممکنہ طور پر چین یا روس میں موجود ہیں لیکن اس کے امریکہ میں ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا) کے حملوں کا نشانہ بنتا آ رہا ہے جو معلومات چوری کرتے ، خوف و ہراس پھیلاتے اور کام میں خلل ڈالتے ہیں اور بالآخر ایک بڑے سلسلے کو ٹھپ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ انٹرنیٹ کو معطل کر دیا جائے اور ہر چیز اندھیرے میں دھکیل دی جائے۔ جیف بیزوس کی پریشانی کا باعث محض یہی امر نہیں کہ انٹرنیٹ بیٹھ جائے گا بلکہ اس کے ساتھ پورا ٹرانسپورٹ سسٹم، مالیاتی نظام اور ہسپتال بھی معطل ہو کر رہ جائے گا۔ کیا دوسری طرف آپ کے جوہری بموں کے بٹنوں کو دبایا جا سکتا ہے۔؟ میرے نزدیک زومبی سرکشی سے زیادہ اس چیز کا امکان ہے۔
ریس ماضی کے آرویل کی طرح ایک ڈسٹوپین مستقبل کا منتظر ہے جس میں ہم پہلے سے ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہیں اور ہماری سلامتی، آزادی اور پرائیویسی سب کچھ ایک ڈور سے بندھا ہے۔ کیا اس سے بچنے کا کوئی راستہ ہے؟ ظاہر ہے ہمیں یہ گند صاف کرنا اور جہاں سے آیا وہیں اسے ٹھکانے لگانا ہے۔ اس کے علاؤہ نیوکلئیر فیوژن جیسے توانائی کے نئے زرائع تلاش کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس دوران ریس کی ایک معمولی تجویز ہے کہ ’ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ یہ کہ جذباتی انسانوں کی تعداد کم کریں۔‘
وہ اور ان کے ساتھی ایک نئے ’مارشل پلان‘ کی بات کر رہے ہیں (جیسا قدم دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے اٹھایا تھا) جو انسانیت کی بقا کی خاطر وبا کے بعد کے دور میں سبھی ممالک اور براعظموں کی ترقی کے لیے فنڈز اور بین الاقوامی تعاون کے کام کی نگرانی کرے گا۔ اس بات کے پیش نظر کہ ہم نے حال ہی میں بیرون ملک مالی امداد میں کمی کی ہے اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں اس خیال کو زیادہ درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔
یہاں تک کہ جب ہوائی طوفان کے خطرے سے دوچار ہے یہ جاننا اچھا لگتا ہے کہ مارک زکربرگ کاوائی جزیرے پر اپنی میٹا یونیورس میں محفوظ ہے۔ یہ ہمارا بڑھتا ہوا غیرمساوی مستقبل ہے جس میں آبادی کا ایک بڑا حصہ کٹ کر رہ جاتا ہے اور پوری کی پوری تہذیبیں دھوئیں کی نذر ہو جاتی ہیں لیکن مٹھی بھر ٹیکنالوجی کے مالدار مالک اپنے ناقابلِ تسخیر قلعوں میں محفوظ ہیں۔
مجھے لگتا ہے میٹا مین نے اپنے لیے توانائی کا ایک محفوظ ذریعہ یقینی بنانے کے لیے غالباً اپنا میٹا گرڈ بنایا ہے۔ کسی ہنگامی صورتحال میں فیس بک اور انسٹاگرام باقی رہ جائیں گے جو بار بار ہماری تصاویر سامنے لائیں گے کہ ہماری زندگی کتنی ناقابل یقین حد تک مکمل ہے (یا تھی)۔
جہاں تک ہم میں سے باقیوں کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے فون یا کمپیوٹر کے بغیر زندگی گزارنا دانشمندی ہو گی۔ ممکنہ ہے ہم ایک ایسے خودساختہ چکر میں بند ہو کر رہ جائیں جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ ہو۔ انسانیت اپنے ہی ہاتھوں بجھ رہی ہے۔ ایک معزز دوست کا خیال ہے کہ ہمارے پاس قیامت سے پہلے 200 سال کا بہترین وقت ہے۔ ہم ایسے ظالم، بے وقوف، سنگدل، قاتل گروہ کیا دوسری اننگز کے مستحق ہیں؟
میرا ایک پرانا دوست ہے جو امریکی ریاست مونٹانا میں ایک پہاڑ پر جھونپڑی لگا کر اس میں جا بسا ہے، اس کے پاس بندوقوں کا کافی ذخیرہ ہے اور اس وقت کے لیے جب بارود ختم ہو جائے اس نے اپنے پاس کمان اور تیر رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے پہلے ان سب چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے میڈ میکس Mad Max کہہ لیں۔ لیکن بالآخر جب قیامت آئے گی تو وہ ہنس رہا ہو گا؟
© The Independent