رانی مکھرجی کو ملنے والی کال نے انہیں حیران کر دیا۔ کال کرنے والا بھی کوئی اجنبی نہیں تھا لیکن اس کا مطالبہ ضرور عجیب تھا، جو یہ بتا رہا تھا کہ رانی مکھرجی کے والدین کمرے میں بند ہیں، بات نہ مانی تو دروازہ نہیں کھلے گا۔
ذکر ہو رہا ہے 2002 کا، جب رانی مکھرجی کی بڑی سٹار کاسٹ والی فلم ’مجھ سے دوستی کرو گی‘ کی غیر معمولی تشہیر کی گئی، لیکن ہرتیک روشن اور کرینا کپور کی موجودگی کے باوجود فلم باکس آفس پر عبرت ناک ناکامی سے دوچار ہوئی۔
ذرا تصور کریں کہ جب یش راج فلمز کی تخلیق ہو، جس پر سرمایہ پانی کی طرح بہایا جائے لیکن نتیجہ صفر آئے تو اداکار بےچارے دل برداشتہ نہیں ہوں گے تو اور کیا کریں گے؟
خاص کر رانی مکھرجی جن کے نام کے ساتھ ’کچھ کچھ ہوتا ہے،‘ ’ہیلو برادر،‘ ’بچھو،‘ ’ہر دل جو پیار کرے گا‘ اور ’نائیک‘ جیسی فلمیں جڑی ہوں تو توقعات تو بلند ہی ہوں گی۔ توقعات اس وقت اور بڑھ جاتی ہیں جب رانی مکھرجی کی کزن کاجل دوسری جانب کامیابی کی ایک کے بعد ایک سیڑھیاں طے کر رہی ہوں تو پیشہ ورانہ اور خاندانی مسابقت میں رانی مکھرجی کی انا اور خوداری کا یہی تقاضہ تھا کہ وہ خود کو اور منوائیں۔
رانی مکھرجی کا دل تو اس وقت اور زیادہ ڈوب گیا تھا جب وہ فلمی جرائد میں ’مجھ سے دوستی کرو گی‘ کے بعد یہ تبصرے دیکھتیں کہ اب ان کا کیرئیر ختم شد ہو گیا ہے۔ کئی فلمی پنڈت پہلے ہی ان کی آواز اور فربہی پر تنقید کرتے تھے۔ یہ سمجھیں کہ انہیں کھلا موقع مل گیا کہ وہ رانی مکھرجی کے کیرئیر اور ان کی اداکاری پر طنز کے نشتر برسائیں۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب رانی مکھرجی ایک ذہنی صدمے سے دوچار تھیں۔ ہدایت کاراور فلم ساز رام مکھرجی کی بیٹی اب حوصلہ ہار چکی تھی۔ اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب فلموں کے انتخاب میں پھونک پھونک کر قدم رکھیں گی، چاہے کتنا بھی عرصہ لگے، وہ کسی ایسی فلم میں نظر نہیں آئیں گی جس میں ان کا کردار ثانوی یا واجبی نوعیت کا ہو۔
رانی مکھرجی نے لگ بھگ آٹھ ماہ گھر میں ہی گزارے۔ اس دوران انہیں کئی فلموں کی پیش کشیں ہوتی رہیں لیکن ناکامی کا خوف رانی کے اعصاب پراس قدر حاوی ہو گیا تھا کہ وہ ہر فلم کا سکرپٹ پڑھنے کے بعد جواب ’نہ‘ میں ہی دیتیں۔
لیکن قسمت بھی عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ ’مجھ سے دوستی کرو گی‘ کے ہی پروڈکشن ہاؤس یعنی یش راج فلمز نے ایک بار پھر رانی مکھرجی سے نئی فلم کے لیے رابطہ کر لیا۔
رانی مکھرجی کو بتایا گیا کہ انہیں جس فلم کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے وہ تمل زبان کی ہٹ فلم کا ری میک ہے، جسے یش راج فلمز اور جنوبی بھارت کے شہرہ آفاق پروڈیوسر اور ہدایت کار منی رتنم پروڈیوز کر رہے ہیں جبکہ ہدایت کار شاد علی ہیں، جن کی یہ پہلی تخلیق ہو گی۔
یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ ہدایت کار کی بھی پہلی فلم ہے، رانی مکھرجی نے حسب روایت معذرت کر لی۔
رانی مکھرجی کے انکار کے باوجود یش راج فلمز کی جانب سے تواتر کے ساتھ فلم ’ساتھیا‘ میں کام کرنے کا اصرار ہوتا رہا لیکن رانی مکھرجی سختی کے ساتھ اس پیش کش کو جھٹلاتی رہیں۔ جب بہت زیادہ دباؤ بڑھنے لگا تو رانی مکھرجی نے والد رام مکھرجی اور والدہ کرشنا کو یش راج فلمز کے سربراہ یش چوپڑہ کے پاس جا کر اپنا پیغام واضح طور پر بیان کرنے پر راضی کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلے دن رانی کے والدین یش چوپڑہ کے کمرے میں پہنچے اور ان سے گوش گزار کیا کہ بیٹی کسی صورت ’ساتھیا‘ میں کام کرنے پر آمادہ نہیں۔ یش چوپڑہ نے دونوں کی باتیں سنیں اور پھر کمرے سے باہر یہ کہہ کر نکل گئے کہ ’آتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں۔‘
یش چوپڑہ نے کمرے سے نکل کر رانی مکھرجی کو فون ملایا۔ سکرپٹ تو رانی مکھرجی پہلے ہی پڑھ چکی تھی۔ اسی لیے یش چوپڑہ نے وقت ضائع کیے بغیر کہا کہ اگر رانی نے فلم میں کام نہ کرنے کا کہا تو یہ ان کے کیرئیر کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ رانی مکھرجی نے ایک بار پھر بہانہ بنایا کہ کردار اچھا لیکن وہ ابھی ذہنی طور پر کسی بھی فلم میں کام کرنے کے قابل نہیں۔
ٹیلی فون پر چند لمحے کی خاموشی چھائی رہی اور پھر یش چوپڑہ کی آواز رانی کے کانوں سے ٹکرائی تو یہی وہ لمحہ تھا، جب وہ یش چوپڑہ کے مطالبے پر حیران اور پریشان تھیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ’بیٹا میں نے کمرے میں تمہارے والدین کو لاک کر دیا ہے۔ جب تک تم ’ہاں‘ نہیں کہو گی میں تمہارے والدین کو جانے نہیں دوں گا۔‘
رانی مکھرجی یش چوپڑہ کی بہت عزت و احترام کرتی تھیں۔ ایک لمحے کے لیے ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ کیسی شرط یا مطالبہ تھا جو یش چوپڑہ ان سے کر رہے تھے۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر وہ یہ مطالبہ کررہے ہیں تو ضرور اس میں کوئی دم ہوگا۔ کچھ سوچ کر انہوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے یش چوپڑہ کو بتادیا کہ وہ ’ساتھیا‘ میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جبھی ان کے والدین کی گھر واپسی بھی ہوئی۔
فلم میں رانی مکھرجی کے ہیرو وویک اوبرائے تھے جبکہ اس تخلیق کی کہانی روایتی ہیرو اور ہیروئن والی نہیں بلکہ شادی شدہ سمجھ دار جوڑے کی تھی، جن میں معمولی سی غلط فہمی انہیں دور کر دیتی ہے۔
’ساتھیا‘ کے گیت اور مکالمے گلزار نے لکھے تھے جبکہ موسیقی اے آر رحمان کی تھی۔ یہی نہیں شاہ رخ خان اور تبو بطور مہمان اداکار فلم کے کلائمکس میں جلوہ گر ہوئے۔
’ساتھیا‘ کی اچھوتی اور منفرد کہانی، وویک اوبرائے اور رانی مکھرجی کی غیر معمولی اداکاری اور پھر گانوں نے جیسے چاروں طرف دھوم مچا دی۔
فلم کی مقبولیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ’ساتھیا‘ کی بدولت رانی مکھرجی بہترین اداکارہ کے لیے فلم فیئر ایوارڈز میں نامزد ہوئیں۔ کچھ ایسا ہی حال وویک اوبرائے کا بھی تھا۔ مجموعی طور پر ’ساتھیا‘ نے آٹھ نامزدگیوں میں سے چھ ایوارڈز جیتے۔ ان میں رانی مکھرجی کو ناقدین کی کیٹگری میں بہترین اداکارہ کا بھی اعزاز ملا۔
درحقیقت اسی فلم کے ذریعے رانی مکھرجی کو ایک بار پھر بالی وڈ میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ جو خدشات اور تحفظات انہیں لاحق تھے، وہ غلط ثابت ہوئے۔ کبھی کبھار وہ سوچا کرتیں کہ اگر یش چوپڑہ اپنے مستقبل کے سمدھی یعنی رانی مکھرجی کے والدین کو کمرے سے نہ نکالنے کی دھمکی دیتے تو ان کا کتنا بڑا نقصان ہوتا۔
سمدھی اس لیے کیونکہ آنے والے دنوں میں یش چوپڑہ کے بیٹے ادیتیہ چوپڑہ سے رانی مکھرجی نے بیاہ جو رچا لیا تھا۔