گو کہ ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی نے1955میں نمائش پذیر دلیپ کمار، سچترا سین اور وجنتی مالا کی ’دیوداس‘ کو کئی بار دیکھا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے تو کے ایل سہگل کی بھی ’دیوداس‘ کا دیدار کیا تھا لیکن انہوں نے زندگی میں کبھی بھی سوچا نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ خود ’دیوداس‘ بنائیں گے۔
ایک روز نجانے سنجے لیلا بھنسالی کو کیا سوجھی کہ ناول نگار سارت چندر چٹھ پودھے کے1917میں شائع ہونے والے اس بنگالی ناول کا ہندی زبان میں ترجمہ پڑھنا شروع کیا جس پر ’دیوداس‘ جیسی فلمیں بنی تھیں۔
جب بھی وقت ملتا، وہ اس ناول کا مطالعہ کرتے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی معرکہ آرا فلم ’ہم دل دے چکے ہیں صنم‘ مقبولیت کے تمام تر ریکارڈز توڑ چکی تھی۔
فلمی تقریبات میں جاتے تو دوست احباب کہتے جب تم اس قدر کاسٹیوم ڈراما ’ہم دل دے چکے ہیں صنم‘ بنا چکے ہو تو ’دیوداس‘ بھی بنادو۔ سنجے لیلا بھنسالی اس مشورے کو ہنس کر ٹال جاتے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ کے ایل سہگل اور پھر دلیپ کمار کے بعد بھلا ایسا کون سا اداکار ہوگا جو دیوداس مکھرجی کا کردار ادا کرے؟
اس عرصے میں سنجے لیلا بھنسالی کا ناول ’دیوداس‘ کا مطالعہ جاری رہا۔ جوں جوں وہ اسے پڑھتے ان کے ذہن میں یہ خیال تقویت پانے لگا کہ واقعی انہیں اس پر فلم بنانی چاہیے۔
یہاں تک کہ وہ اب ناول کے مرکزی کردار دیوداس کو شاہ رخ خان کو ذہن میں رکھ کر مطالعہ کرتے۔ انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر یہ کردار کوئی کرسکتا ہے تو وہ بلاشبہ شاہ رخ خان سے بہتر کوئی نہیں اور پھر ایک دن انہوں نے اٹل ارادہ کرلیا کہ ہاں وہ ’دیوداس‘ بناسکتے ہیں۔
شاہ رخ خان نہیں تو فلم نہیں
شاہ رخ خان سے رابطہ کیا گیا تو وہ خود تذبذب کا شکار تھے۔ کہاں کے ایل سہگل اور دلیپ کمار اور کہاں وہ خود۔ فیصلہ کرنے میں وہ ہچکاہٹ دکھا رہے تھے لیکن ساتھ ہی دل میں یہ خواہش تتلی کی طرح منڈلا رہی تھی کہ اگر واقعی انہوں نے ڈوب کر اداکاری کردکھائی تو یہ ان کے لیے ایک اور سنگ میل کردار ثابت ہوگا۔
ادھر سنجے لیلا بھنسالی نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر انہوں نے انکار کیا تو وہ پھر فلم بنانے کا ارادہ ترک کردیں گے کیوں کہ وہ نہیں تو کوئی اور نہیں۔
شاہ رخ خان کو ان کا یہ پراعتماد انداز جیسے اور حوصلہ اور پرجوش بنا گیا۔ جنہوں نے مثبت جواب دیا تو اب سنجے لیلا بھنسالی نے فلم کے اسکرپٹ پر کام کرنا شروع کردیا۔
خدشات اور تحفظات
اس موقع پر کسی نے سنجے لیلا بھنسالی پر اس خدشے کا بھی اظہارکیا اتنی بڑی فلم ہے،جس کو 1955کے بعد کسی اور ہدایتکار نے بنانے کی ہمت نہیں کی۔
1976 میں ہدایتکار پرکاش مہرہ نے امیتابھ بچن، شرمیلا ٹیگوراور ہیما مالنی کے ساتھ ’دیوداس‘ پیش کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان جیسا بڑا ہدایتکار یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ وہ اتنی بڑی کلاسک کو پھر سے نہیں بناسکتے۔ کچھ تنقید نگار، سنجے لیلا بھانسلی سے یہ بھی کہتے کہ کیا کوئی بھی شاہ رخ خان کو دلیپ کمار کے متبادل کے طور پر قبول کر بھی پائے گا کہ نہیں۔
جس پر سنجے لیلا بھنسالی کا پراعتماد جواب یہی ہوتا کہ ’یہ فلم تو بنے گی۔ خاص کر ایسے میں جب عمر رسیدہ فلم بینوں کے لیے یہ دلچسپ تجربہ ہوگا کہ جہاں انہوں نے جوانی میں دلیپ کمار کو ’دیوداس‘ کے روپ میں دیکھا تو وہ دورحاضر کے سپر اسٹار شاہ رخ خان کو نوجوان نسل دیکھے گی اور بزرگ فلم بین اسے دیکھ کر ایک بار پھر ماضی کی یادوں میں کھوجائیں گے اور یہی ان کی فلم کی کامیابی ہوگی۔‘
ہیروئنز کے انتخاب میں مشکلات
سنجے لیلا بھنسالی کی خواہش تھی کہ وہ دو ملکہ حسن یعنی سشمیتاسین اور ایشوریا رائے کو شاہ رخ خان کے مقابل پیش کریں لیکن اسکرپٹ فائنل ہوجانے کے بعد انہیں لگا کہ ’چندر مکھی‘ کے لیے سشمیتا سین کے بجائے مادھوری ڈکشٹ زیادہ مناسب ہیں۔
یہاں بھی سنجے کی ایک الگ اور منفرد سوچ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مادھوری ڈکشٹ کا کیریئر ختم ہورہا تھا اور ایشوریا رائے اب ان کی جگہ لے رہی تھیں۔ اسی لیے دو بڑی اداکاراؤں کی یہ سنگت دونوں کے پرستاروں کے لیے کشش کا باعث بنے گی ۔اسی کے ساتھ انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ جو رقص وہ ’چندر مکھی‘ سے چاہتے ہیں وہ مادھوری ڈکشٹ سے بہتر کوئی اور نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اداکاراؤں نے کسی بھی مرحلے پر سنجے لیلا بھنسالی کو مایوس نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بڑی اداکارائیں ہوتے ہوئے بھی دونوں کا انا پرستی پر مبنی باہمی ٹکراؤ کسی بھی منظر کی عکس بندی میں پیش نہ آیا۔ کسی کو ایسا نہیں لگا کہ کوئی اس کے کردار پر حاوی ہورہا ہے۔
دیوداس ایک اور کاسٹیوم ڈراما
سنجے لیلا بھنسالی نے جب ’دیوداس‘ بنانے کا اعلان کیا تو ان کے پروڈیوسر بھرت شاہ تھے۔ ہیروں کے بڑے سوداگر تصور کیے جاتے تھے۔ جن کے بارے میں مشہور تھا کہ فلموں کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہاتے۔ بھرت شاہ نے سنجے کو کھلی چھوٹ دی کہ جتنی رقم درکار ہو بے دریغ مانگ سکتے ہیں۔ سنجے نے ان پر واضح کردیا تھا کہ وہ اداکاروں کے قیمتی اور مہنگے ملبوسات ہی نہیں سیٹس ایسے عظیم الشان اور شاندار بنائیں گے کہ اس سے پہلے کسی فلم میں استعمال نہ ہوئے ہوں۔
پھر عکس بندی کے لیے بڑی لائٹس اور جدید کیمروں کا استعمال ہوگا۔ دیکھا جائے تو ایسا ہی ہوا، وسیع و عریض حویلیاں، محلات اور پھر بازار حسن کے سیٹس اس کا عملی ثبوت بن گئے۔ گیت ’کاہے چھیڑے موہے‘ میں مادھوری ڈکشٹ نے 30کلو کا وزنی قیمتی سراپا پہن کر عکس بند کرایا جس کی تیاری میں خطیر رقم خرچ ہوئی۔
فلم کا بجٹ 50 کروڑ روپے رہا جو 2001 میں فلور پر جانے والی کسی بھی فلم کے اعتبار سے سب سے بڑا تصور کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کی عکس بندی کچھ عرصے کے لیے تعطل کا اس وقت شکار ہوئی جب پروڈیوسر بھرت شاہ گرفتار ہوئے۔
موسیقی اور کوریوگرافری
سنجے لیلا بھنسالی جہاں ہدایتکاری میں کمال رکھتے ہیں، وہیں ان کو موسیقی کی بھی خاصی گہری حس اور سمجھ بوجھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گانوں میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔
نصرت بدر کے لکھے ہوئے گانوں پر موسیقار اسماعیل دربار نے کم و بیش 10گانے کمپوز کیے اور ہر گیت میں کلاسیکی موسیقی کا رنگ نمایاں رہا۔ سنجے لیلا بھانسلی کا خیال تھا کہ جس پس منظر اور ماحول میں ’دیوداس‘ بن رہی ہے تو اس اعتبار سے اس کی موسیقی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی نہیں رقص کے لیے انہوں نے جہاں سروج خان کی خدمات حاصل کیں، وہی کتھک ڈانسر برج مہاراج تک کو راضی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فلم کے چاہے گانے ہوں، مناظر یا رقص ہر ایک میں سنجے لیلا بھانسلی کا بہترین فن جھلکتا ہے۔
شاہ رخ خان ’دیوداس‘ میں چھا گئے
کلاسک فلم ڈیڑھ سال کے طویل عرصے کے بعد 12جولائی 2002کو جب سنیما گھروں میں لگی تو ہر ایک کو تجسس بڑھا کہ ’دیوداس‘ میں شاہ رخ خان کی اداکاری کا معیار کیسا رہا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہ رخ خان کی مقبولیت کا گراف ہر فلم کے بعد بلندی کی جانب چھو رہا تھا۔ جس کا فائدہ ’دیوداس‘ کو بھی ہوا۔ جبھی ہر سنیما گھر میں ہاؤس فل کے بورڈز آویزاں ہوگئے۔
یاد رہے کہ بھارت میں نمائش پذیر ہونے سے پہلے 23 مئی 2002 کے کانز فلم فیسٹیول میں فلم کا پرئمیر ہوا۔ تجزیہ کار اب اس موازنے میں پھنس گئے کہ دلیپ کمار نے بہتر اداکاری کی تھی یا شاہ رخ خان نے۔
فلم پنڈتوں کا کہنا تھا کہ جہاں ماضی میں دلیپ کمار نے ’دیو داس‘ بن کر اپنی الگ مثال قائم کی، وہیں شاہ رخ خان بھی پیچھے نہیں رہے۔ جنہوں نے اس کردار کو چیلنج سمجھ کر ایسا ادا کیا کہ خود پر اسے طاری کرلیا۔
مے نوشی کے مناظر ہوں یا پھر مکالمات یا پھر ان کی موت کا منظر حقیقت سے قریب تر نظر آئے۔ سنجے لیلا بھنسالی کو لگا جو ان کی خواہش تھی، اسے پورا کرنے میں شاہ رخ خان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دلیپ کمار کو بطور خاص ’دیوداس‘ دکھائی گئی تووہ بھی شاہ رخ خان کی تعریف کیے بغیر نہ رہے۔
ایوارڈز اور پذیرائی
اگلے سال فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجا تو ’دیوداس‘ نے 17نامزدگیوں میں 11ایوارڈز حاصل کیے۔
جبکہ اس کی 75ویں اکیڈمی ایوارڈز کے لیے بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم کے لیے نامزدگی ہوئی۔یہی نہیں برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈز میں بھی اسے بہترین فلم برائے نان لینگوئج کے لیے نامزد گی ملی۔
کیا ’دیوداس‘ دوبارہ بن سکتی ہے؟
سنجے لیلا بھنسالی نے دلیپ کمار کی ’دیوداس‘ کے 47 سال بعد اس کا ری میک بنایا تھااور اب لگ بھگ20 سال گزر گئے ہیں۔ کئی شہرہ آفاق ہدایتکار اس عرصے میں کامیابی حاصل کرگئے کئی بڑی فلمیں بنیں، کئی سپر ہٹ تخلیقات کا ری میک بن چکا ہے لیکن کسی نے جرات نہیں کی کہ وہ ایک بار پھر ’دیوداس‘ بنائے۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سنجے لیلا بھنسالی نے ’دیوداس‘ میں جو رنگ بھرے تھے ممکن ہے کہ اسے کوئی دوبارہ بنائے تو وہ اس فلم کے ساتھ انصاف نہ کرپائے۔
جبکہ بعض اس بات پر متفق ہیں کہ کے ایل سہگل، دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کے بعد بھارتی فلم نگری میں ایسا کوئی اداکار اب رہا نہیں جو ’دیوداس‘ بننے کی اہلیت رکھتا ہو کیوں کہ اس کردار کے لیے صدیوں میں اداکار جنم لیتے ہیں۔
بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔