ساؤتھ انڈین فلمیں کیوں دیکھیں؟

ہمارے ہاں لوگوں کی تان زیادہ تر بالی وڈ فلموں پر ٹوٹ جاتی ہے، لیکن جب ہم نے ساؤتھ کی فلمیں دیکھیں تو پتہ چلا کہ بالی وڈ تو اس کے سامنے کچھ نہیں۔

ساؤتھ انڈین فلم ’کے جی ایف 2‘ 2022 اور  فلم ’پشپا‘ 2021 میں ریلیز ہوئی، جو اب تک ریکارڈ بزنس کر چکی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ: پشپا، متامسیٹی میڈیا اور متھری مووی میکرز؛ کے جی ایف 2، ہوم بیل فلمز)

سب ہی مانتے ہیں کہ ٹی وی ڈراما اور فیملی ٹائم والا فارمولا ختم ہوا۔ اب گھروں میں ٹی وی کے سامنے بزرگ بیٹھے نظر آئیں گے یا پھر بچے کارٹون دیکھتے ہوئے۔ یقیناً یہ بچوں کی وہ قسم ہے جن کی پہنچ سے موبائل ابھی دور ہے۔

چھوٹی اور بڑی سکرین کا فرق اپنی جگہ، اب سٹریمنگ پلیٹ فارمز کا زمانہ ہے اور ہمارے نوجوان بھی ٹی وی کم اور چھوٹی سکرین پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ خاص کر کرونا وبا کے بعد سے سٹریمنگ پلیٹ فارمز نے ہماری زندگیوں میں اپنی خاص جگہ بنا لی ہے۔

کرونا کے دوران جب لاک ڈاؤن لگا تو ہمیں کبھی ’آلٹر نیٹ آف‘ اور کبھی ’ورک فرام ہوم‘ کی عیاشی ملی، تو یقین کریں ہمیں یہ چند ماہ اتنے افسانوی لگے کہ ہم گھر پر ہیں اور ہمیں کہیں نہیں جانا۔ سٹوری کے لیے نکلنا بھی ہے تو بس چند گھنٹوں میں گھر واپس۔ مکمل بےفکری کے دن جیسے کالج کا رنگین زمانہ، فرصت ہی فرصت عیش ہی عیش۔

ہم برسوں سے فل ڈے نوکری کرنے والے لوگ ہیں، جو اتوار کو بھی ہفتے بھر کے کام نبٹاتے گزار دیتے ہیں۔ اگر ہمیں دوپہر میں لمبی تان کر سونا مل رہا تھا، تو یہ مستی صرف محسوس کی جا سکتی ہے بیان نہیں کی جا سکتی۔

ان ساری باتوں کا پس منظر یہ کہ لاک ڈاؤن میں باہر جا نہیں سکتے لہٰذا گھر میں ہی کوئی نہ کوئی مصروفیت اور تفریح تلاش کرنی تھی۔ یہ ہی جستجو ہمیں یوٹیوب پر موجود ساؤتھ انڈین فلموں تک لے گئی۔

یقیناً دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بالی وڈ میں بنتی اور دیکھی جاتی ہیں۔ لیکن اب بین الاقوامی سطح پر ساؤتھ انڈین فلمیں بھی اپنی پہچان بنا رہی ہیں۔ کیا آپ ساؤتھ انڈین سینما سے واقف ہیں؟ اور یہ فلمیں دیکھی ہیں؟

نہیں! تو دیکھیں۔ پہلے پہل ہماری طرح آپ کو بھی کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا پھر ان کا ایکشن، لباس، عام زندگی کے اطوار اس قدر سادگی لیے ہوئے ہیں کہ مزہ آ جائے اور پھر بالی وڈ اور ساؤتھ انڈین سینیما کا فرق سمجھ آنے لگے گا۔

ان فلموں سے یہ بھی پتہ لگا کہ اس عمر میں بھی رجنی کانت ساؤتھ میں دیوتا مانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ جو پہلی ساؤتھ انڈین فلم لگ گئی وہ ’ایّا‘ Aiyyaa تھی۔ یہ ایک بالکل الگ، عام لیکن تفریح سے بھرپور فلم ہے۔ فلم میں رانی مکرجی ہیروئن اور پرتھوی سکومرن ہیرو تھے۔ ہیرو کے نام اور شکل سے تو ہم واقف نہیں تھے لیکن رانی مکرجی کی وجہ سے سب ٹائٹل کے ساتھ فلم دیکھنا شروع کی۔ ہمیں کبھی بھی سب ٹائٹل کے ساتھ فلم دیکھنا پسند نہیں۔ خود ہی بتائیں کہ بندہ سکرین پر نظریں جمائے یا لکھے ہوئے جملوں پر، مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔

خیر فلم فل انٹرٹینمنٹ تھی۔ ہم پوری فلم کے دوران پیٹ پکڑ کر ہنستے رہے۔ اس فلم کا آغاز اخبار میں چھپنے والے ضرورت رشتہ سے ہوتا ہے، اور رانی وہ لڑکی ہوتی ہیں جن کے لیے رشتہ تلاش کیا جا رہا ہوتا ہے۔ پہلا منظر ہی دلچسپ لگا اور پھر فلم دیکھتے چلے گئے۔ فلم کا موضوع سادہ اور عام سا ہونے کے باوجود ٹریٹمنٹ اور سینیماٹوگرافی دیگر انڈین فلموں سے مختلف تھی۔ فوراً ہم نے ایک تعارفی نوٹ کے ساتھ لنک کو گھر کے وٹس اپ گروپ میں بھیجا تاکہ اگر کوئی اور بھی لطف لینا چاہیے تو مزہ لے لیں۔

 اس کے بعد ایک آدھ اور ساؤتھ انڈین فلم دیکھی تو اندازہ ہوا ہے کہ یہاں کا سینیما زیادہ میچور ہے۔ سادہ اور کم بجٹ کی یہ فلمیں عام آدمی کی کہانی سنا رہی تھیں۔ جس میں لباس بھی مقامی انداز لیے ہوئے اور مناظر بھی اور بنگال کا سبزہ بھی آنکھوں کو اچھا لگا۔

پھر یوٹیوب پر ہی ہمیں ڈبنگ کے ساتھ ساؤتھ انڈین فلمیں بھی مل گئیں۔ یوں ساؤتھ انڈین سینیما میں ہماری دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ ان کی بھی ہر فلم تو اچھی نہیں لگی لیکن کچھ اداکارائیں اور اداکار سمجھ میں آ گئے کہ ان کا کام بہتر ہے۔ جیسے ویشال شاہ کی ’The Return of Abhimanyu‘  اور ’Dashing Detective‘  پسند آئیں۔ ان کی بھی ہر فلم اچھی نہیں لیکن پھر بھی کچھ الگ ہیں۔

ساؤتھ انڈین فلموں کی انفرادیت

سب سے بڑی چیز تو یہ ہی کہ رجنی کانت کی تصویر ہر ساؤتھ انڈین گھر میں ملے گی کیونکہ وہ ہی ساؤتھ کے اصل ہیرو ہیں۔ بلکہ Yenna Rascala , Mind it ان کا مشہور ڈائیلاگ اب صرف ساؤتھ سینیما کا حصہ نہیں رہا، بلکہ ’اوم شانتی اوم’ میں اسے شاہ رخ خان بھی کاپی کرتے ہیں۔ ابتدا میں ہمارے خیال تھا کہ ساؤتھ انڈیا میں یا تو بنگالی ہوتے ہیں یا پھر تمل۔ لیکن ان کی فلمیں دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں تیلگو، ملیالم اور کنڑ سینیما بھی اچھی فلمیں بنا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 فلموں سے یہ بھی پتہ چلا کہ ساؤتھ کے مردوں کا پسندیدہ لباس سفید لنگی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں دھوتی کہا جاتا ہے اور آج بھی بہت سے دیہی علاقوں میں اس کا استعمال عام ہے۔ لیکن ساؤتھ کے لوگ لنگی کا بہترین استعمال کرتے ہیں، شہری اور دیہی زندگی کا کوئی فرق نہیں۔ ہر طرح کی تقریب اور ہر موقع کا یہ پسندیدہ مردانہ لباس ہے۔

وہاں لنگی اتنی مقبول ہے کہ لنگی ڈانس پر شاہ رخ ڈانس کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہی نہیں خواتین کی تیاری کانجی ورم ساڑھی اور گجرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ہم نے بھی سوچ لیا ہے کہ اگر قسمت نے موقع دیا اور ہم بھی کبھی کلکتہ یا مدراس یعنی چنائے گئے تو تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ مقامی ’پھول بازار‘ ضرور جائیں گے۔ جہاں طرح طرح کے پھولوں سے بننے ہوئے ہار سنگھار اور گجرے دل کھینچ لیتے ہیں۔

 لیکن سب سے مزے کی چیز ان کے کھانے اور ذائقے ہیں۔ یعنی سانبھر، اڈلی اور ڈوسا۔ جو یہاں کی محبوب غذائیں ہیں۔ فلم ’ایّ‘ میں رانی خواب دیکھتے ہوئے ہیرو سے کہتی ہیں کہ تم مجھے پیار دو میں تمہیں ایڈلی ڈوسا دوں گی۔ یعنی پیار اور ایڈلی ڈوسا ساؤتھ میں ہم وزن سمجھیں جاتے ہیں۔ یہ منظر خاصے کی چیز ہے، مزہ نہ آئے تو بتائیے گا۔

ہم نے ڈوسا کراچی میں بھی کھایا ہے اور بھوپال میں بھی لیکن ہمیں ذائقہ کوئی خاص نہیں لگا۔ بےمزہ اور پھکا یا پھر ہمیں اسے چٹنیوں کے ساتھ کھانا نہیں آیا۔ لیکن اس جملے پر کوئی ساؤتھ انڈین وہ ہی مثال کہے گا بندر کیا جانے ادرک کا مزہ!

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بولی وڈ کی کئی مشہور فلمیں ساؤتھ سینیما کی کاپی تھیں۔ جیسے ’دھرشم،‘ ’تیرے نام،‘ ’گجنی،‘ ’ساتھیا‘ اور ’پنک۔‘ یہ سب پہلے پہل ساؤتھ انڈین سینیما کا حصہ بنیں پھر بالی وڈ بلاک بسٹر فلمیں ثابت ہوئیں۔ اکثر اب سٹریمنگ پلیٹ فارم پر بھی دستیاب ہیں۔

پچھلے دنوں ’لیلا‘ دیکھی۔ یقیناً پراگ اکبر کے ناول پر مبنی یہ ایک بہترین فلم ہے۔ جس میں بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور مستقبل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ’لیلا‘ میں اس مشکل موضوع کو سینیما کے پردے پر اچھے طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

اور اب بات کر لتے ہیں حال ہی میں ریکارڈ توڑ بزنس کرنے والی تیلگو فلم ’پشپا‘ کی، جس نے ہمارا دل کاٹ ڈالا۔ اس فلم کا ہیرو، اگر ہماری فلم میں ہوتا تو بالکل زیرو ہوتا۔ اس اینٹی ہیرو فلم کی کہانی بھی عام ترین تھی۔ لیکن وہ ہی معاشرے کا ٹھکرایا ہوا ہیرو سپر ہیرو بن کر اچھے اچھے گینگ کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ خیر فلم تو ہمارے اوپر سے گزر گئی لیکن لڑائی اور پشپا یعنی الو ارجن کے ڈانس نے مار ڈالا۔

پھر دو ہفتے قبل ریلیز ہونے والی ساؤتھ انڈین فلم KGF Chapter 2 نے بھی میدان مار لیا ہے۔ ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق صرف دو ہفتے میں ہی 900 کروڑ کا بزنس کر چکی ہے۔ امید ہے ایک ہزار کروڑ کا ہدف بھی جلد ہی عبور کر لے گی۔ اسے دنیا بھر میں پانچ زبانوں میں ریلیز کیا گیا ہے۔ یعنی ساؤتھ کی فلمیں دنیا بھر میں ہی مقبول ہو رہی ہیں۔

ساؤتھ انڈین فلمیں میں لڑائیاں

 جب فلم میں ایک بار لڑائی شروع ہو گئی تو وہ ہی عام سا ہیرو ایک دم سپر ہیرو بن جاتا ہے۔ سب سے دلچسپ منظر تو وہ ہوتا ہے جب لڑائی کے دوران چھریوں کے بجائے بغدے نکل آتے ہیں۔

ہمارے ہاں اس قسم کے تیز دھار بغدے اور بڑی بڑِی چھریاں بقر عید پر ہی نظر آتی ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں ان دو تین دنوں میں ہی صاف کر کے واپس رکھ دیں۔ لیکن ساؤتھ کی فلموں میں ان کا استعمال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں یہ پھل فروشوں کے ٹھیلے سے لے کر ہر گھر میں مل جاتی ہیں۔ ہمیں عرب ثقافت سے متاثر یہ چھریاں کم اور تلواریں زیادہ لگیں۔

 ہم نے جب پہلی بار یہ لڑائی دیکھی تو پہلے پہل سحر زدہ ہوئے پھر ہنسی چھوٹتی چلی گئی۔ ان مار دھاڑ سے بھرپور مناظر کو دیکھ کر پہلے پہل سمجھ ہی نہیں آتا کہ یہ بغدے اور چھرے نکلے کہاں سے اور ان کے ہاتھوں تک پہنچے کیسے۔ کیا یہ آستین سے نکلے یا پھر دھوتی میں ہی کہیں اڑسے ہوئے تھے۔ یہ لوگ ایک ہاتھ سے لنگی پکڑے ہوئے اور دوسرے ہاتھ میں یہ لمبا بغدہ لیے دشمن کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔

سادگی: ساؤتھ کی فلموں کے ہیرو اور ہیروئن بالکل الگ طرح کے ہیں۔ لباس، گھر اور مزاج کے لحاظ اداکار اور ہیرو کم اور عام انسان زیادہ لگتے ہیں۔ یہ ہی حال ہے ہیروئن اور خواتین اداکاروں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ سوتی ساڑھی اور کوئی تقریب کا منظر ہوا تو کانچی ورم ساڑھی کے ساتھ بالوں میں گجرا۔

ہم اب کہہ سکتے ہیں کہ ان کم بجٹ کی فلموں میں سپشل ایفکیٹس اور ٹریٹمنٹ بھی اچھا ہے۔ کیمرا ورک بھی بہتر ہے۔ غرض اگر کبھی آپ کا بھی دل کچھ الگ دیکھنے کا چاہے تو ساؤتھ کی کوئی فلم دیکھیے گا۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم