ںیٹ فلکس کی موسم خزاں کی سب سے حالیہ پیش کش ’ریڈ نوٹس‘ گذشتہ جمعے کو امریکی سٹریمنگ سروس پر ریلیز ہوئی جسے معتدل ریویو ملے۔
بین الاقوامی پیمانے پر ہونے والی چوری پر مبنی اس فلم میں اداکار ڈوائن جانسن بطور پولیس والے، رائن رینلڈز بطور فن پاروں کے چور اور گیل گادوت، ان سے بہتر چور کا کردار نبھا رہے ہیں۔
تاہم بہت سے نقادوں کو یہ محسوس ہوا کہ فلم کی کہانی اور کرادار ایسے ہی ہیں جیسے بہت سی پہلی فلموں میں دیکھے گئے ہیں۔
’ریڈ نوٹس‘ میں ایکش سین ایسے محسوس ہوئے کہ جیسے اس سے پہلے آنے والی بہتر فلموں کے سینز میں معمولی تبدیلی کرکے پیش کیا گیا ہو: ایک رقص کا منظر جو فلم ’ٹرو لائیز‘کے منظر جیسا ہے، تشدد کا منظر جو ’کیسینو رائل‘ جیسا ہے، کچھ مناظر نازی فن پاروں کی چوری پر مبنی جیسے فلم ’ریڈرز آف دا لوسٹ آرک‘ جیسے ہیں (رینلڈز نے تو اس سین کے دوران انڈیانا جونز کی اس فلم کی تھیم کی طرز پر سیٹی بھی بجائے کہ جو نہ پہنچان سکے ہوں وہ بھی پہچان جائیں)۔
فلم میں ایسی مسلح جھڑپیں ہیں جن میں کسی کو بھی گولی نے چھوا تک نہیں۔ اس کے بعد چور سپاہی کا اکتا دینے والا پلاٹ ہے۔
جیسا کہ 2002 میں بننے والی مزاحیہ فلم ’اڈیپٹیشن‘ میں اداکار نکولس کیج نے سکرین رائٹر چارلی کوفمین کے کردار میں اپنے بھائی کے ایکشن سکرپٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا۔
’سب سے بڑھ کر یہ کہ تم اس خیال کو دکھا رہے ہو کہ پولیس اور مجرم واقعی ایک ہی شخص کے دو پہلو ہیں۔ اس کی مزید مثالوں کے لیے پولیس پر بنائی گئی ہر فلم دیکھو۔‘
بلاشبہ ’ریڈ نوٹس‘ اور ان پرانی بلاک بسٹرز کے درمیان ایک بڑا فرق ہے۔ وہ فلمیں بڑے پردے پر دیکھنے کے لیے بنائی گئی تھیں لیکن ’ریڈ نوٹس‘ زیادہ تر ٹیلی ویژن یا دوسری چھوٹی ڈیوائسز پر دیکھی جائے گی۔
نیٹ فلکس نے اس فلم کو امریکہ بھر میں نسبتاً محدود مدت اور بیمانے پر صرف 750 سنیماؤں میں ہی چلایا ہے۔ اس کے برعکس مارول انٹرٹیمنٹ کی فلم ’ایٹرنلز‘ اس وقت 4090 سنیماؤں میں دکھائی جا رہی ہے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ زیادہ لوگ ’ریڈ نوٹس‘ کو اپنے موبائل فون پر ہی دیکھیں گے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ ’ریڈ نوٹس‘ اتنی بڑی فلم نہیں اور نیٹ فلکس کی گذشتہ سالوں کی زیادہ تر بھلا دینے کے لائق بدقست ایکشن فلموں میں شامل ہو گئی ہے۔
نیٹ فلکس نے ہر بار بلاک بسٹر فلم بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے بجٹ بڑھایا لیکن معیار میں معمولی بہتری آئی۔
امریکی فلم ساز ڈیوڈ ایئر کی پرانے انداز کی اور فارمولہ فلم ’برائیٹ‘(2017) جس میں وِل سمتھ اور جوئل ایجرٹن نے اداکاری کی اس کی تیاری پر تقریباً 10 کروڑ ڈالر (70 کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈ) خرچ ہوئے جب کہ دو سال بعد فلم ’6 انڈرگراؤنڈ‘ جس کی ہدایت کاری کے فرائض مائیکل بے نے انجام دیے اور رائن رینلڈز نے ہی اداکاری کی، 15 کروڑ کے بجٹ سے تیار کی گئی۔
ان دونوں فلموں کے درمیان ’ٹرپل فرینٹیئر‘ نامی ایکشن ایڈوینچر فلم بنائی گئی جس میں اداکار بین ایفلک اور آسکر آئزک نے کام کیا۔
اس پر 11 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے اخراجات آئے، اور زیادہ تر بھلائی جا چکی ہے۔ جب اس حوالے سے تنقید کی گئی تو افواہیں گردش کرنے لگیں کہ نیٹ فلکس کے سربراہ ٹیڈ سرانڈوس بلاک بسٹر فلموں کے بجٹ میں کمی کرنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ جلد ہی ان افواہوں کی تردید کر دی گئی۔ بظاہر وہ سکرین کے صلاحیتوں کے مالک افراد کے لیے اب بھی اپنی چیک بک باہر نکالنے کے لیے تیار ہیں۔
’ریڈ نوٹس‘ کی تیاری پر تقریباً 20 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ اس طرح یہ نیٹ فلکس کی بنائی ہوئی سب سے مہنگی فلم بن گئی۔ ایسا رپورٹ کیا گیا ہے کہ فلم بندی سے پہلے ہی اس میں سے سات کروڑ ڈالر خرچ کیے جا چکے تھے۔
جانسن، رینلڈز اور گیڈٹ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے فی کس دو کروڑ ڈالر دیے گئے۔ مزید ایک کروڑ ڈالر مصنف اور ہدایت کار راسن مارشل تھربر۔ سوچنے کی بات ہے کہ بعض ناقدین نے شک کیا کہ ان لوگوں میں کامیاب ’چوری‘ کی صلاحیت نہیں۔
تھربر نے 2004 میں ’ڈوج بال‘ اور 2013 میں ’وی آر دا ملرز‘ جیسی تفریحی اور مزاحیہ فلمیں بنا کر ہدایت کاری شروع کی۔
تب سے وہ ایسے ہدایت کار بن چکے ہیں جن پر جانسن بلاک بسٹر کی تیاری میں انحصار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں جانسن اور کیون ہارٹ کے ساتھ مل کر ایکشن کامیڈی ’سنٹرل انٹیلی جنس‘ بنائی جس کے بعد انہوں نے 2018 میں ’ڈائی ہارڈ‘ سے ماخوذ اور اس کی نقل ’سکائی سکرپیر‘ بنائی جس میں جانسن نے کام کیا۔
نسبتاً کم بجٹ کی دونوں فلموں نے پیسہ کمایا۔ اس کے بعد ’ریڈ نوٹس‘ کے لیے سٹار اور ہدایت کار کی جوڑی بن گئی۔ لیکن یونیورسل پکچرز پروڈکشن کے 20 کروڑ ڈالر کے بجٹ پر راضی نہ تھی تو نیٹ فلکس میدان میں آ گیا اور فلم کی فنڈنگ کی۔
تاہم نیٹ فلکس کے جاندار قدم کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے فلم کو ایسے محدود پیمانے پر سینیماؤں کے لیے ریلیز کر دیا۔
شائد اس کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلا کہ فلم نے براہ راست نیٹ فلکس کے ہوم پیج پر آنے سے پہلے امریکی باکس آفس پر بمشکل 10 لاکھ ڈالر کا بزنس کیا۔
رینلڈز کے مطابق نیٹ فلکس پر کسی اورینجل فلم کو پہلے روز دیکھنے والوں کی تعداد اس پلیٹ فارم پر آنی والی سب سے زیادہ تعداد تھی۔ رینلڈز کے دعوے کی تصدیق کے لیے قطعی طور پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
سٹریمنگ سروس بلاشبہ کہے گی اسے باکس آفس میں دلچسپی نہیں ہے۔ نیٹ فلکس کے نزدیک صف اول کے اداکاروں کے ساتھ بلاک بسٹر موویز بنانا برانڈ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا عمل ہے۔
صاف صاف کہا جائے تو یہ چاہے گی کہ آپ اپنے بستر کے آرام سے زیادہ نئی فلمیں دیکھنے کے کہیں زیادہ عادی ہو جائیں گے۔ اگر آپ نیٹ فلکس پر فلم دیکھتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ اگلا جو کام آپ کریں وہ یہ ہو گا کہ آپ نیٹ فلکس پر ایک اور فلم دیکھیں۔
اگر آپ سینیما میں بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں، باہر کی اس حقیقی دنیا میں جس کے بارے میں پیشگوئی نہیں کی جا سکتی تو اس صورت میں خدا جانتا ہے کہ آپ کا اگلا قدم کیا ہوگا۔
ہو سکتا ہے کہ فلم ختم ہونے پر آپ کسی ریستوران چلے جائیں، کسی بار میں جائیں یا پھر نکل کر اردگرد کے ماحول سے ہی لطف اندوز ہوں۔ آپ کے اگلی بار نیٹ فلکس دیکھنے سے پہلے گھنٹوں گزر سکتے ہیں۔ کیا خوفناک بات ہے!
آپ ان کے نکتہ نظر کے پیچھے موجود منطق کو تقریباً سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود 20 کروڑ ڈالر کا سوال اپنی جگہ موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ’ریڈ نوٹس‘ جیسی فلموں کو سکرینوں پر زیادہ دیر تک رہنے کا موقع دنیا، ناظرین میسر ہونے دینا اور ساتھ ساتھ بقا کی جدوجہد میں مصروف سینیماؤں کو مدد دینا، واقعی نیٹ فلکس کے سب اہم سبسکرائبرز کی تعداد کو نقصان پہنچائے گا؟
بہرحال فلموں کی تیاری میں سکائی موویز کے ماڈل کی مثال موجود ہے۔ اس ماڈل کے تحت فلمیں باقاعدہ طور پر سینیماؤں میں دکھائی گئیں جب کہ اس کے ساتھ ہی امر کو یقینی بنایا گیا کہ جب فلمیں چھوٹی سکرین پر پہنچیں تو انہیں خصوصی نشریاتی حقوق حاصل ہوں۔
پہلی بار سینیما میں بیٹھ کر فلم دیکھنے کا موقع آپ کے اس بارے میں احساس کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر سکتا ہے۔
مجھے ’انڈیانا جونز اینڈ دا کنگ ڈم آف کرسٹل سکل‘ فلم سینیما میں بیٹھ کر دیکھنا اب بھی یاد ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ اتنے ہی درمیانے درجے کی ایکشن فلم تھی جتنی ’ریڈ نوٹس‘ ثابت ہوئی ہے۔
سینیماؤں کا بری بلاک بسٹرز پر انحصار اتنا ہی ہے جتنا کہ اچھی فلموں پر۔ وہ دیکھنے کے اعتبار سے بھی فلموں کو اتنا پرکشش بنا دیتے ہیں جو آپ کے ٹیلی ویژن کبھی نہیں کر سکتے۔
اگر نیٹ فلکس چاہتا ہے کہ اس کی فلمیں یاد رکھی جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ انہیں بڑے پردے پر دکھاتا رہے۔
© The Independent