ہدایت کار اسیت سین کی فلم ’سفر‘ کی عکس بندی جاری تھی۔ 1970 میں نمائش پذیر ہونے والی اس فلم میں شرمیلا ٹیگور کے ساتھ فیروز خان اور راجیش کھنہ کام کر رہے تھے۔
عکس بندی سے فرصت ملی تو شرمیلا ٹیگور کو اس لفافے کا خیال آیا جو ان کے شوہر نواب منصور علی خان پٹودی نے خصوصی طور پر ان کے لیے بھجوایا تھا۔
شرمیلا ٹیگور نے انتہائی بے چینی اور بے تابی کے ساتھ وہ لفافہ کھولا تو اس کے اندر ایک کاغذ پر خوبصورت اشعار لکھے تھے۔ وہ شوہر کے انداز تحریر سے بخوبی آشنا تھیں۔ سمجھ گئیں کہ انہوں نے اس قدر حسین اور رومانی اشعار خود لکھے ہیں۔
شرمیلا ٹیگور کا دل تو خوشی سے جھوم اٹھا۔ میک اپ ادھورا چھوڑ کر وہ اس مقام پر پہنچیں جہاں راجیش کھنہ اور فیروز خان خوش گپیاں کرنے میں مصروف تھے۔
شرمیلا ٹیگور دکھانا چاہتی تھیں کہ شوہر ٹائیگر پٹودی ان سے کس قدر محبت کرتے ہیں جنہیں دور رہ کر بھی ان کی یاد ایسی ستائی ہے کہ شرمیلا ٹیگور کی محبت میں شاعر بن بیٹھے ہیں۔
شرمیلا ٹیگور اور بھوپال کے نواب منصور علی خان کی ملاقات بھی عجیب انداز میں ہوئی تھی۔ یہ تو دنیا جانتی تھی کہ وہ کرکٹر افتخارعلی خان پٹودی کے صاحبزادے ہیں لیکن جب سے انہوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنائی، اپنی الگ اور منفرد شناخت قائم کر گئے۔
اپنے زبردست سٹروکس اور غیر معمولی قیادت کی بنا پر انہیں اصل نام کے بجائے ’ٹائیگر پٹودی‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا اور ایک عالم ان کی پرکشش مردانہ وجاہت کا دیوانہ تھا۔
1964میں جب برطانوی کرکٹ ٹیم نے بھارت کے دورے کے دوران ایک ٹیسٹ میچ کلکتہ میں بھی کھیلا تو وہاں ایک نجی تقریب میں شرمیلا ٹیگور اور ٹائیگر پٹودی کی پہلی ملاقات ہوئی۔ ٹائیگر پٹودی اس وقت تک مینا کماری اور وجنتی مالا کو جانتے تھے۔ دوسری جانب شرمیلا ٹیگور صرف بنگالی زبان کی فلموں تک محدود تھیں۔
نواب منصور علی خان کو ہری ساڑھی میں ملبوس سادہ سی شرمیلا ٹیگور پہلی ہی نگاہ میں بھا گئیں۔ مشترکہ دوست کے ذریعے ایک دوسرے کے نمبرز کا تبادلہ ہوا۔ اس دورے میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان نواب منصور علی خان نے دہلی ٹیسٹ میں 203 رنز ناٹ آؤٹ سکور کیا تو شرمیلا ٹیگور نے خاص طور پر انہیں فون کر کے ڈبل سنچری پر مبارک دی۔
دراصل یہی وہ لمحہ تھا جب دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار کے پھول کھلے۔ اس کے بعد دونوں میں مراسم اور بڑھنے لگے۔ اس عرصے میں شرمیلا ٹیگور نے بنگالی سے ہندی فلموں میں کام کی شروعات کی تو ایک کے بعد ایک کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ نواب منصور علی خان اور شرمیلا ٹیگور عشق کی وادی میں کھوئے ہوئے تھے اور عموماً ایک ساتھ دیکھے جانے لگے۔
شرمیلا ٹیگور کے مطابق فلم ’این ایوننگ ان پیرس‘ کی عکس بندی جو پیرس کے رومان پرور ماحول میں ہوئی، وہیں نواب منصور علی خان نے باقاعدہ طور پر اظہار محبت بھی کیا جسے رد کرنا شرمیلا ٹیگور کے لیے ممکن نہیں تھا۔
نواب منصورعلی خان جو بچپن میں ہی والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے، انہوں نے والدہ یعنی نواب بیگم آف بھوپال کے سامنے اس خواہش رکھی کہ وہ شرمیلا ٹیگور سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاندان روشن خیال تھا، اس لیے اس آرزو پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اور یوں 27 دسمبر 1968 کو شرمیلا ٹیگور اور نواب منصور علی خان کی سگائی ہو گئی۔
شرمیلا ٹیگور نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عائشہ بیگم رکھا گیا۔ ٹائیگر پٹودی نے انہیں اس بات کی اجازت دی کہ جب تک وہ چاہیں فلموں میں کام کر سکتی ہیں۔
شرمیلا ٹیگور اتراتی ہوئی راجیش کھنہ اور فیروز خان تک پہنچیں اور لہک لہک کر انہیں وہ اشعار سنانے لگیں جو ’محبت نامے‘میں ٹائیگر پٹودی نے لکھے تھے۔ شرمیلا ٹیگور نے دونوں کو جب یہ بتایا کہ یہ اشعار ان کے محبوب شوہر کے خود شاعرانہ ذوق کا کمال ہے تو فیروز خان ہنستے ہنستے کرسی سے نیچے آ گرے۔
وہ بار بار یہی دریافت کر رہے تھے کہ کیا واقعی جو شرمیلا ٹیگور کہہ رہی ہیں، وہ درست ہے؟ شرمیلا ٹیگور تو ہکا بکا تھیں کہ کیوں ایسا عجیب و غریب سوال پوچھا جا رہا ہے جبکہ وہ کہہ چکی ہیں کہ ٹائیگر پٹودی نے یہ شعر خود لکھے ہیں۔
شرمیلا ٹیگور کو تھوڑا بہت غصہ تو آیا لیکن پھر انہوں نے اس پر قابو رکھتے ہوئے کچھ پوچھنا چاہا ہی تھا تو فیروز خان نے ایک بار ان سے کہا کہ ذرا سناؤ تو سہی پھر سے۔
شرمیلا ٹیگور نے پھر پڑھنا شروع کیا
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اس سے پہلے شرمیلا اور پڑھتیں، فیروز خان نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ شاعری ٹائیگر پٹودی کی نہیں بلکہ اردو کے سب سے مشہور شاعر مرزا غالب کی ہے، جو انہوں نے اپنی بتا کر شرمیلا ٹیگور کو بھیج دی۔ شرمیلا ٹیگور کو یقین نہیں آیا جبھی انہوں نے راجیش کھنہ کی جانب دیکھا تو انہوں نے بھی فیروز خان کی تائید کی۔
حقیقت عیاں ہونے پر شرمیلا ٹیگور کو اپنی کم علمی پر ملال ہوا۔ روٹھی تو شوہر سے بھی لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہیں رہا۔ ٹائیگر پٹودی نے بھی مان لیا کہ یہ ان کی شاعری نہیں تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ارد و زبان کے شہرہ آفاق شاعر پر بننے والی فلم ’مرزا غالب‘ میں اسی غزل کو طلعت محمود اور ثریا نے غلام محمد کی ترتیب دی گئی موسیقی میں نہایت خوبصورت انداز میں گایا تھا اور قیاس ہے کہ ٹائیگر پٹودی نے 1954 کی اس فلم کے اسی نغمے کے بول سن کر شریک سفر کو لکھ بھیج ڈالے۔
ممکن ہے شرمیلا ٹیگور پراتنی جلدی یہ راز نہ کھلتا اگر راجیش کھنہ یا فیروز خان نہ ہوتے۔ شرمیلا ٹیگور جو اداکاری کر کے دوسرے کے چہرے پر مسکراہٹ، رنج اور الم لے آتی تھیں، اپنے شوہر کی شاعری کی اداکاری سے دھوکہ کھا گئیں۔
نواب منصور علی خان پٹودی اور شرمیلا ٹیگور کا پیار بھرا یہ سفر 22 ستمبر 2011 تک جاری رہا۔ جب تک ٹائیگر پٹودی حیات رہے۔